'بیرونی فورسز کے انخلاء کے بعد ہی لیبیا میں استحکام ممکن ہے'
5 اپریل 2021
یورپی یونین نے لیبیا سے تمام بیرونی جنگجوؤں کو ملک سے باہر کرنے کا مطالبہ کرتے ہوئے قومی اتحاد کی حکومت کی حمایت کا اعلان کیا ہے۔
اشتہار
یورپی یونین کونسل کے صدر شارل مشیل نے چار اپریل اتوار کے روز لیبیا کے دارالحکومت طرابلس کے اپنے دورے کے دوران کہا کہ تمام بیرونی جنگجوؤں کو لیبیا سے نکل جانا چاہیے۔ انہوں نے ایک نیوز کانفرنس کے دوران کہا، ''آپ نے اپنے ملک کی از سر نو تعمیر کے لیے ایک موقع فراہم کیا ہے، تاہم اس کی ایک شرط یہ ہے کہ تمام بیرونی جنگجو اور فورسز کو ملک سے نکل جا نا چاہیے۔''
اس موقع پر انہوں نے لیبیا کے مختلف سیاسی دھڑوں اور عسکری گروپوں پر زور دیا کہ وہ، ''ایک خود مختار، مستحکم اور خوشحال ملک کی تعمیر کا یہ انوکھا موقع ہاتھ سے جانے نہ دیں۔''
حالیہ ہفتوں میں لیبیا سے بیرونی فورسیز اور جنگجوؤں کو ملک سے باہر کرنے کا مطالبہ زور پکڑتا جا رہا ہے۔ اقوام متحدہ کے اعداد و شمار کے مطابق گزشتہ دسمبر تک شمالی افریقی ملک لیبیا میں تقریباً 20 ہزار کرائے کے جنگجو اور عسکری فورسیز موجود تھے۔ اس برس جنوری تک ان سب کے باہر چلے جانے کا وقت مقرر تھا جس سے عام طور پر نظر انداز کر دیا گیا۔
لیبیا میں کیا ہورہا ہے؟
سن 2011 میں لیبیا کے حکمراں کرنل معمر قذافی کی معزولی کے بعد سے ہی ملک میں خانہ جنگی کے سبب افرا تفری کا ماحول ہے۔ ملک کے مشرقی اور مغربی علاقوں میں الگ الگ حکومتیں قائم ہوئیں جو ایک دوسرے کی حریف رہی ہیں اور دونوں کو ہی بیرونی ممالک کی مدد حاصل رہی ہے۔
ليبيا کی خانہ جنگی
شمالی افریقی ملک لیبیا میں آمر معمر القذافی کے زوال کے بعد سے عدم استحکام پایا جاتا ہے۔ اقوام متحدہ کی حمایت یافتہ حکومت کو جنگی سردار خلیفہ حفتر کی لیبین نیشنل آرمی کی جانب سے مزاحمت کا سامنا ہے۔
تصویر: Reuters/E. Al-Fetori
لیبیا کی خانہ جنگی کے بڑے حریف
شمالی افریقہ کے مسلمان اکثریتی ملک لیبیا میں اقوام متحدہ کی حمایت یافتہ حکومت فائز السراج (دائیں) کی قیادت میں قائم ہے۔ اُن کی حکومت کو سب سے سخت مزاحمت مشرقی حصے پر قابض جنگی سردار خلیفہ حفتر کی لیبین نیشنل آرمی کی جانب سے ہے۔
خلیفہ حفتر
76 سالہ جنگی سردار کا پورا نام خلیفہ بالقاسم حفتر ہے۔ معزول و مقتول ڈکٹیٹر معمر قذافی کے دور میں وہ لیبیا کی فوج کے اعلیٰ افسر تھے۔ وہ اب خود کو فیلڈ مارشل بھی قرار دے چکے ہیں۔ فی الوقت وہ لیبیا کے سب سے طاقتور جنگی سردار خیال کیے جاتے ہیں۔ ان کے پاس اسلحے سے لیس تربیت یافتہ فوج کے علاوہ جنگی طیارے بھی ہیں۔ انہیں فرانس، مصر اور متحدہ عرب امارات کی حمایت حاصل ہے۔
تصویر: Getty Images/AFP/F. Monteforte
لیبیا کا تنازعہ اور مختلف ممالک کا کردار
خلیفہ حفتر کو فرانس کی بھرپور حمایت حاصل ہے اور دوسری طرف ترکی حفتر کی شدید مخالفت اور طرابلس میں قائم حکومت کی کھل کر حمایت کر رہا ہے۔ حفتر کی فوج کے خلاف طرابلس حکومت کو ترکی نے ہتھیار بھی فراہم کیے تھے۔ حفتر کے حامیوں میں مصر اور متحدہ عرب امارات بھی ہیں۔ یورپی یونین اور فرانس کے درمیان لیبیا کے معاملے پر اختلاف پایا جاتا ہے۔
تصویر: picture-alliance/C. Liewig
طرابلس حکومت کے ساتھ شامل جنگجو گروپس
اقوام متحدہ کی حمایت یافتہ طرابلس حکومت کو کئی جنگجو گروپوں کی حمایت حاصل ہے۔ ان مسلح گروپوں نے خلیفہ حفتر کی لیبین نیشنل آرمی کی طرابلس پر چڑھائی کے خلاف ہونے والی مزاحمت میں حصہ لیا تھا۔ طرابلس کی فوج نے حفتر کے طرابلس پر حملے کو ناکام بنا دیا تھا۔
تصویر: AFP/M. Turkia
طرابلس کی حکومت اور فوج
لیبیا کے لیے اقوام متحدہ کی حمایت یافتہ حکومت وزیراعظم فائز السراج کی قیادت میں سن 2015 سے قائم ہے۔ السراج نے امن کے قیام کے لیے کئی جنگجو گروپوں کو اپنا حلیف بنا رکھا ہے۔ اس حکومت کی فوج کے پاس سابقہ لیبین فوج کے بھاری ہتھیار اور اہلکار بھی موجود ہیں۔ ترک صدر رجب طیب ایردوآن، السراج حکومت کے کھلے حامی ہیں۔
تصویر: Reuters/H. Amara
قذافی کے زوال کے بعد سے عدم استحکام
ڈکٹیٹر معمر القذافی کا زوال ایک منظم مسلح تحریک کے بعد ہوا لیکن اُس کے بعد اس تحریک میں شامل عسکری گروپوں کو منظم نہیں کیا جا سکا۔ ہر گروپ کے پاس وافر ہتھیار اور جنگجو موجود تھے۔ مختلف وقتوں پر انتخابات بھی ہوئے لیکن امن و استحکام قائم نہیں ہو سکا۔ اس دوران جہادی گروپ بھی لیبیا میں فعال ہو گئے تھے۔
تصویر: Getty Images/AFP/M. Turkia
افریقی ممالک اور مصر
مصری صدر عبدالفتاح السیسی نے لیبیا اور سوڈان میں پیدا عدم استحکام کی صورت حال کو بہتر بنانے کے لیے افریقی براعظم کے کئی ممالک کے سربراہان کو ایک سمٹ میں مدعو کیا۔ یہ سربراہ اجلاس رواں برس اپریل میں ہوا تھا۔ اس میں دونوں ملکوں میں جاری بحرانوں کو حل کرنے کے امور پر توجہ مرکوز کی گئی لیکن کوئی مناسب پیش رفت نہ ہو سکی۔
تصویر: Reuters/The Egyptian Presidency
غیر قانونی مہاجرین اور لیبیا
براعظم افریقہ کے کئی ملکوں کے کی سماجی و معاشی حالات کے تناظر میں بے شمار افراد یورپ پہنچنے کی خواہش میں ہیں۔ ان مہاجرین کی کشتیوں کو بحیرہ روم میں پکڑ کر واپس لیبیا پہنچایا جاتا ہے۔ لیبیا میں ان مہاجرین کو حراستی میں مراکز میں رکھا جاتا ہے۔ گزشتہ دنوں ایسے ہی ایک مرکز پر حفتر کے فضائی حملے میں درجنوں مہاجرین مارے گئے تھے۔
اس برس اکتوبر میں دونوں حریفوں میں لڑائی رک گئی اور جنگ بندی پر اتفاق ہو گیا تھا۔ اسی کے بعد ایک قومی اتحاد پر مبنی حکومت قائم ہوئی اور گزشتہ ماہ لیبیا کی پارلیمان نے بھی اس نئی حکومت کو تسلیم کر لیا۔
قومی اتحاد کی اس حکومت پر یہ ذمہ داری بھی ہے کہ وہ تمام حریف گروپوں سے اداروں کو اپنے ماتحت لا کر تمام منقسم اداروں کو ایک میں ضم کرے۔ اسی حکومت پر آئندہ دسمبر میں نئے عام انتخابات کروانے اور مجموعی طور پر سکیورٹی کی بھی ذمہ داری ہے۔
اشتہار
یورپی یونین کی حمایت کی پیشکش
یورپی یونین کونسل کی صدر شارل مشیل نے عبوری وزیر اعظم عبدالحمید ذبیح سے ملاقات کے بعد کہا، ''ہم نئی حکومت کے ساتھ مل کر کام کریں گے اور اس کی حمایت بھی کریں گے۔ یوروپی یونین قومی مفاہمت کے عمل کی فعال طور پر حمایت کرتا ہے۔''
ان کا مزید کہنا تھا، ''معاشی بحالی، انتخابات اور غیر قانونی تارکین وطن کے خلاف جنگ کچھ ایسے مسائل ہیں جس میں یورپی یونین مدد کرسکتی ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ جہاں تک لیبیا اور یورپی یونین کے تعلقات کا سوال ہے اس میں امیگریشن ایک اہم موضوع ہے۔
جرمنی، فرانس اور اٹلی کے وزراء خارجہ نئی قومی حکومت کے قیام کے بعد اس کے ساتھ اپنی حمایت کا مظاہرہ کرنے کے لیے لیبیا کا دورہ کر چکے ہیں۔ گزشتہ ماہ فرانس نے اپنا سفارت خانہ بھی دوبارہ کھول دیا ہے۔
اطلاعات کے مطابق یونان کے وزیر اعظم کریا کوس مٹسوٹاکیس آئندہ ہفتے اپنے ملک کا سفارتخانہ کھولنے کے سلسلے میں طرابلس کا دورہ کرنے والے ہیں۔ اسی موقع پر اٹلی کے وزیر اعظم بھی یونان کا دورہ کریں گے۔
مشیل کا کہنا کہ لیبیا میں آنے والے ہفتوں میں یورپی ممالک کے سفارت خانے کھل جائیں گے۔