1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

’بیسویں صدی کی پہلی نسل کشی‘: پوپ کا دھماکا خیز بیان

مقبول ملک12 اپریل 2015

کیتھولک مسیحیوں کے روحانی پیشوا پوپ فرانسِس نے پہلی عالمی جنگ کے دور میں آرمینیا میں عثمانی ترکوں کے ہاتھوں ہونے والے قتل عام کو ’بیسویں صدی کی پہلی نسل کشی‘ قرار دیا ہے، جس پر ترکی کا برہم ہونا یقینی ہے۔

Armenien Gedenken an Völkermord an Armeniern 2005 in Eriwan
تصویر: AP

ویٹیکن سے اتوار بارہ اپریل کو موصولہ نیوز ایجنسی ایسوسی ایٹڈ پریس کی رپورٹوں کے مطابق پاپائے روم نے اس بارے میں اپنے موقف کا اظہار آرمینیائی باشندوں کے قتل عام کے سو برس مکمل ہونے کی مناسبت سے کیا۔ پاپائے روم پوپ بننے سے پہلے ارجنٹائن میں اپنے قیام کے برسوں سے ہی آرمینیائی باشندوں سے قریبی روابط کے حامل رہے ہیں۔

کلیسائے روم کے سربراہ نے اس قتل عام کو پوری ایک صدی ہو جانے کے موقع پر ویٹیکن میں آرمینیائی کیتھولک مسیحیوں کی ایک مذہبی تقریب کے آغاز پر کہا کہ آرمینیائی باشندوں کا یہ قتل عام گزشتہ صدی کی پہلی نسل کشی تھی۔ ساتھ ہی پوپ فرانسِس نے اپنے اس موقف کا دفاع کرتے ہوئے مزید کہا، ’’یہ میرا فرض ہے کہ میں ان معصوم انسانوں، عورتوں، بچوں، پادریوں اور بشپس کو یاد کرتے ہوئے ان کا احترام کروں جنہیں سلطنت عثمانیہ کے دور میں ترکوں نے بے دردی سے قتل کر دیا تھا۔‘‘

پاپائے روم نے آرمینیائی کیتھولک مسیحیوں کی اس مذہبی تقریب سے خطاب کرتے ہوئے ویٹیکن کے سینٹ پیٹرز چرچ میں موجود حاضرین سے مزید کہا، ’’برائی کو چھپانا یا اس سے انکار کرنا ایسے ہی ہے جیسے کسی زخم پر پٹی باندھنے کی بجائے اس سے خون بہتا رہنے دیا جائے۔‘‘

پوپ نے یہ بات ویٹیکن میں آرمینیائی کیتھولک مسیحیوں کی ایک مذہبی تقریب سے خطاب میں کہیتصویر: Solaro/AFP/Getty Images

کئی مؤرخین کا اندازہ ہے کہ گزشتہ صدی میں پہلی عالمی جنگ کے دور میں ترکوں کی سلطنت عثمانیہ کے دستے آرمینیا میں 1.5 ملین یا 15 لاکھ تک انسانوں کے قتل کے مرتکب ہوئے تھے۔ انسانی تاریخ میں نسل کشی کے بڑے واقعات سے گہری واقفیت رکھنے والے متعدد ماہرین اس قتل عام کو 20 صدی کی پہلی نسل کشی بھی قرار دیتے ہیں۔

اس موقف کے برعکس سلطنت عثمانیہ کے خاتمے کے بعد وجود میں آنے والی جدید ترک جمہوریہ آج تک یہ تسلیم نہیں کرتی کہ آرمینیائی قتل عام کوئی نسل کشی تھا۔ انقرہ میں حکومت کا عشروں سے یہی موقف رہا ہے کہ ان ہلاکتوں سے متعلق اعداد و شمار کو بڑھا چڑھا کر پیش کیا جاتا ہے اور وہ انسان جو عثمانی دور میں آرمینیا میں مارے گئے تھے، وہاں جاری رہنے والی خانہ جنگی اور بدامنی کا نشانہ بنے تھے۔

ایسوسی ایٹڈ پریس کی رپورٹوں کے مطابق ویٹیکن میں ترک سفارت خانے کی طرف سے آج اتوار کے روز ایک پریس کانفرنس کا پروگرام بھی بنایا گیا تھا، جو پوپ کے اس بیان کے بعد منسوخ کر دیا گیا۔ اے پی نے لکھا ہے کہ یہ پریس کانفرنس غالباﹰ اس لیے منسوخ کی گئی کہ اگر ترک سفارت خانہ آرمینیا میں قتل عام کے سو برس پورے ہونے پر کچھ کہتا تو ممکنہ طور پر اس کے رد عمل میں پوپ کی طرف سے دوبارہ ’نسل کشی‘ کی اصطلاح استعمال کی جا سکتی تھی۔

تاریخی حوالے سے کئی یورپی ملک اس قتل عام کو اپنے طور پر نسل کشی قرار دیتے اور تسلیم کرتے ہیں تاہم امریکا اور اٹلی جیسے کئی ملک ایسے بھی ہیں جو ان تاریخی واقعات کے حوالے سے باضابطہ موقف میں نسل کشی کے الفاظ استعمال نہیں کرتے۔ اس کی وجہ یہ حقیقت ہے کہ ترکی کئی حوالوں سے امریکا اور بڑی یورپی ریاستوں کا ایک اہم اتحادی ملک ہے۔

پوپ فرانسِس سے قبل پوپ بینیڈکٹ نے ترکی اور مسلم دنیا کے ساتھ اپنے شروع میں دباؤ کا شکار رہنے والے روابط کے باعث کلیسائے روم کے سربراہ کے طور پر اپنے دور میں آرمینیائی قتل عام کو نسل کشی قرار دینے سے پرہیز کیا تھا۔

آرمینیا میں اس قتل عام کے سو برس مکمل ہونے پر باقاعدہ تقریبات 24 اپریل کو منعقد کی جائیں گی۔

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ سیکشن پر جائیں

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ

ڈی ڈبلیو کی مزید رپورٹیں سیکشن پر جائیں