سائنس فکشن کی دنیا کے زرخیز اور بااثر ترین مصنفین میں سے ایک برائن الڈِس بیانوے برس کی عمر میں انتقال کر گئے ہیں۔ ادبی ادارے کرٹس براؤن کے مطابق الڈس کا انتقال ہفتے کی صبح آکسفورڈ میں واقع اپنے گھر میں ہوا۔
اشتہار
سن انیس سو پچیس میں پیدا ہونے والے برائن الڈس نے دوسری عالمی جنگ کے زمانے میں برطانوی فوج میں ملازمت کے دوران برما اور انڈیا میں خدمات انجام دیں۔ بعد ازاں وہ مصنف بن گئے اور اپنی اولین کہانیاں ایک تجارتی میگزین میں شائع کیں۔
الڈس نے جلد ہی سائنس فکشن کے میدان میں بطور کہانی کار اور ناول نگار اپنا لوہا منوا لیا۔ اُنہوں نے بہت سے ادبی مجموعوں کی ادارت بھی کی۔ الڈس کی معروف کتابوں میں ’گرے بیئرڈ‘ اور ’ہیلیکونیا‘ شامل ہیں۔
'گرے بیئرڈ‘ میں دنیا کو نوجوان افراد کے بغیر پیش کیا گیا ہے جبکہ ہیلیکونیا ایک ٹرائی لوجی یا تین ایسے ناولوں پر مشتمل ایک مجموعہ ہے جس میں ایک سیارے پر موسم صدیوں تک باقی رہتے ہیں۔ الڈس کی سن انیس سو انہتر میں لکھی مختصر کہانی،’’ سپر ٹوائز لاسٹ آل سمر لونگ‘‘ سن دو ہزار ایک میں سٹیون شپیل برگ کی فلم ’آرٹیفشل انٹیلیجنس‘ کی بنیاد بنی۔
برائن الڈس نے عام افسانے بھی تحریر کیے۔ عمومی فکشن میں اُن کے کام کا کچھ حصہ جنگ کے زمانے کے اُن کے تجربات اور آپ بیتی کی دو جلدوں پر مشتمل ہے۔
الڈس کے بیٹے ٹم الڈس نے ٹویٹر پر اپنے پیغام میں کہا ہے کہ اُن کے والد بیسویں صدی کے عظیم ناول نگار اور نقاد کنگ زلے آمس کے مے نوشی کے ساتھیوں میں سے تھے اور نئے لکھنے والے اُنہیں متاثر کُن اور حوصلہ افزائی کرنے والا معلم سمجھتے تھے۔
جبکہ برطانیہ کہ ملکہ الزبتھ دوئم نے اس معروف ادیب کو ’این آفیسر آف دی آرڈر‘ کے لقب سے نوازا تھا۔
فلموں اور ادب کا مشہور کردار ویمپائر
ویمپائر کے کردار سے متعلق ان دنوں ڈوسلڈروف کے فلم میوزیم میں نمائش جا رہی ہے
تصویر: Filmmuseum Düsseldorf
مستقل سحر انگیزی
ویمپائر یا خونخوار بھوت، انتہائی مقبول کرداروں میں سے ایک ہے۔ سنیما نے خون چوسنے والے اس کردار کو توجہ کا مرکز بنا دیا ہے۔ گزشتہ برس جونی ڈیپ نے ’ڈارک شیڈوز‘ میں خون کی تلاش میں سرگرداں ویمپائر کا کردار ادا کیا تھا۔ جس کے ہدایت کار ٹِم برٹن ہیں۔ ویمپائر کا وجود ہمیں پرانے لٹریچر میں بھی ملتا ہے۔
تصویر: Filmmuseum Düsseldorf
بلقان کا خوف
ویمپائر کی تاریخی جڑیں ہمیں آج کے رومانیہ میں ملتی ہیں۔ روایات کے مطابق 15ویں صدی کے وسط میں یہاں ٹیپیس Tepes نام کا ایک شہزادہ لوگوں کا خون پیتا تھا۔ اس میں کتنی حقیقت ہے اور کتنا افسانہ یہ بات اب جاننا مشکل ہے۔ تاہم ڈریکولا نامی اس کردار کی کہانی کئی صدیوں تک لوگوں کی دلچسپی کا مرکز بنی رہی۔
تصویر: fotolia/Naeblys
برام اسٹوکر
1897 میں معروف آئرش مصور برام اسٹوکر Bram Stoker نے سات برس کی محنت کے بعد اپنا ناول ڈریکولا شائع کیا۔ اسٹوکر نے ویمپائر کے کردار کو ایک بالکل ہی نرالا رنگ دیا۔ آج تک مشہور مصنفین اور ڈائریکٹر انہی کے ناول کے زیر اثر ہیں۔ تاہم اپنے ناول کی کامیابی سے اسٹوکر کو زیادہ مالی فائدہ نہ پہنچ سکا۔ کیونکہ ان کی موت 1912 میں ہو گئی۔
تصویر: Getty Images
ویمپائر بصری فنون میں
برام اسٹوکر کی طرف سے اپنا ناول ڈریکولا مکمل کرنے سے چار برس قل ناروے کے پینٹر ایڈورڈ مُنچ Edvard Munch نے اپنی ایک پینٹنگ مکمل کی جسے اُس نے ’لو اینڈ پین‘ یعنی محبت اور تکلیف کا نام دیا۔ اس پینٹنگ میں ایک کردار کو ایک عورت کی گردن سے خون چوستا دکھایا گیا تھا۔ بعد میں اس پینٹر کے دوستوں نے اس کردار کو ویمپائر کا نام دے دیا۔ مُنچ نے بعد ازاں ویمپائر کے متعدد ورژن تیار کیے۔
تصویر: Filmmuseum Düsseldorf
ویمپائر ڈوسلڈورف میں
ویمپائر کے اسطور کے بارے میں ان دنوں ڈوسلڈروف کے فلم میوزیم میں تفصیلی چان بین کی جا رہی ہے۔ ’پرنس آف ڈارک نیس‘ شو کی بہت سی اشیا پہلی مرتبہ جرمنی میں نمائش میں رکھی گئی ہیں۔ یہ نمائش آسکر اکیڈمی کے تعاون سے لگائی گئی ہے۔
تصویر: Filmmuseum Düsseldorf
ویمپائر کا کردار ادا کرنے والے فلمی ستارے
جرمن اداکار ماکس شَریک Max Schreck فلمی تاریخ کے ان متعدد نامور اداکاروں میں سے ایک ہیں جنہوں نے ویمپائر کا کردار ادا کیا ۔ ایسے ہی اداکاروں میں ہنگری میں پیدا ہونے والے بیلا لوگوسی Bela Lugosi بھی ہیں جنہوں نے 1930ء میں ڈریکولا کا کردار ادا کیا۔
تصویر: Filmmuseum Düsseldorf
کلاوس کنسکی
ماکس شریک کے بعد ڈریکولا کا کردار ادا کرنے والے ایک اور جرمن اداکار کلاؤس کِنسکی Klaus Kinski بھی ہیں جنہوں نے 1979ء میں ڈریکولا کا کردار ادا کیا۔ یہ فلم ہدایتکار ویرنر ہیرسوگ Werner Herzog کی فلم ’فینٹم آف دی نائٹ‘ تھی۔ اس فلم میں معروف فرانسیسی اداکاروہ ازابیل آڈیانی Isabelle Adjani نے بھی کردار ادا کیا تھا۔
تصویر: Filmmuseum Düsseldorf
متعدد تغیر
فلمی تاریخ میں صرف سفید فام کردار ہی ویمپائر نہیں بنے بلکہ مختلف فلموں میں خون کی پیاسی خواتین، سیاہ فاموں اور ہم جنس پرستوں کو بھی ویمپائر کے روپ میں دکھایا گیا۔ویمپائر کے کردار کو کئی کمپنیوں نے اپنی شہرت کے لیے بھی استعمال کیا۔ ایسا ہی ایک شو جرمن کار ساز ادارے آؤڈی نے گزشتہ برس منعقد کرایا۔
تصویر: AP
ویمپائر گیمز
ویمپائر کرداروں کے حوالے سے مختلف کھلونے، کتابیں اور گیمز بھی نوجوانوں کی دلچسپی کا مرکز ہیں۔ ان میں بورڈ اور کارڈ گیمز کے علاوہ ویمپائر کاسٹیومز اور پلاسٹک کے بنے ڈریکولا جیسے دانت بھی شامل ہیں۔
تصویر: Filmmuseum Düsseldorf
مؤثر نمائش
ڈوسلڈورف میں جاری نمائش میں ’پرنس آف ڈارک نیس‘ اکتوبر کے وسط تک موجود رہے گی۔ اس کے علاوہ جرمنی اور دیگر ممالک سے بھی مختلف چیزیں نمائش میں موجود ہیں۔ ان میں اصل اسکرپٹس، اسکرین پلیز، تصاویر اور فلموں کے کلپس بھی شامل ہیں۔ نمائش کے کمروں کو گہرے سُرخ رنگ سے رنگا گیا ہے جو بالکل ویمپائرز کی زندگی یعنی خون سے رنگے دکھائی دیتے ہیں۔