بیس لاکھ پناہ گزین جرمنی آئے، ساڑھے آٹھ لاکھ آگے چلے گئے
شمشیر حیدر21 مارچ 2016
وفاقی جرمن دفتر شماریات کے مطابق 2015ء کے دوران جرمنی میں دو ملین تارکین وطن رجسٹر کیے گئے۔ اب تک ان پناہ گزینوں میں سے ساڑھے آٹھ لاکھ سے زائد جرمنی سے آگے دیگر ممالک کو جا چکے ہیں۔
اشتہار
جرمن دفتر شماریات نے اس سے پہلے بتایا تھا کہ گزشتہ برس کے دوران ملک میں گیارہ لاکھ پناہ گزین آئے تھے تاہم نئے اعداد و شمار میں جرمنی میں رجسٹر کیے گئے پناہ گزینوں کی تعداد دو ملین یا بیس لاکھ بتائی گئی ہے۔
اعداد و شمار کے مطابق اس دوران آٹھ لاکھ 60 ہزار سے زائد تارکین وطن جرمنی سے چلے گئے تھے، جس کے بعد گزشتہ برس کے دوران جرمنی میں موجود نئے تارکین وطن کی مجموعی تعداد گیارہ لاکھ چالیس ہزار بنتی ہے۔
اس جرمن ادارے نے گزشتہ برس کے پہلے آٹھ ماہ کے دوران ملک میں نئے آنے اور پھر آگے چلے جانے والے پناہ گزینوں کی حتمی تعداد شمار کی جب کہ آخری چار مہینوں کے اعداد و شمار اندازوں پر مبنی ہیں۔
جرمن حکام کو سیاسی پناہ کی اتنی زیادہ درخواستوں پر فیصلے سنانے میں کافی دشواری پیش آ رہی ہے اور چار لاکھ تارکین وطن کی پناہ کی درخواستوں پر ابھی تک فیصلہ نہیں کیا جا سکا۔
’ہم واپس ترکی نہیں جانا چاہتے‘
02:29
2014ء کے دوران جرمنی میں تیرہ لاکھ سے زائد نئے تارکین وطن پہنچے تھے، جن میں سے سات لاکھ 66 ہزار دوسرے ممالک کی جانب روانہ ہو گئے تھے۔
پچھلے دو برسوں کے اعداد و شمار کا جائزہ لیا جائے تو 2014ء کے مقابلے میں پچھلے برس ملک میں آنے والے تارکین وطن کی تعداد میں 49 فیصد اضافہ ہوا جب کہ جرمنی سے دیگر ممالک کا رخ کرنے والے افراد کی تعداد میں بھی 12 فیصد کا اضافہ ریکارڈ کیا گیا۔
اس عرصے میں پناہ گزینوں کے ہاں ساٹھ ہزار بچے پیدا ہوئے جب کہ اموات کی مجموعی تعداد تیس ہزار رہی۔ پچھلے برس کے دوران ایک لاکھ گیارہ ہزار غیر ملکیوں کو جرمن شہریت بھی دی گئی۔
نئے اعداد و شمار میں اس امکان کو ملحوظ خاطر نہیں رکھا گیا کہ پناہ گزینوں نے ممکنہ طور پر جرمنی کے ایک سے زائد شہروں میں اپنی رجسٹریشن کرائی ہو گی۔ اسی طرح روزانہ بنیادوں پر جرمنی میں داخل ہونے والے نئے تارکین وطن کی تعداد بھی علیحدہ سے شمار نہیں کی گئی۔
حالیہ عرصے کے دوران بلقان کی ریاستوں کی جانب سے اپنی سرحدیں بند کرنے کے بعد جرمنی پہنچنے والے پناہ گزینوں کی تعداد میں نمایاں کمی دیکھی گئی ہے۔ جرمن چانسلر انگیلا میرکل یورپی ممالک کی جانب سے انفرادی طور پر سرحدیں بند کرنے کے فیصلوں پر تنقید کرتی رہی ہیں۔
اس کے برعکس چانسلر میرکل ترکی اور یورپی یونین کے مابین طے پانے والے معاہدے کی حمایت کرتی ہیں۔ معاہدے کے مطابق غیر قانونی طور پر ترکی سے یونان آنے والے تارکین وطن کو واپس ترکی بھیج دیا جائے گا۔ اس معاہدے کو انسانی حقوق کے لیے کام کرنے والے کئی ادارے تنقید کا نشانہ بنا رہے ہیں۔
پاکستانی تارک وطن، اکبر علی کی کہانی تصویروں کی زبانی
اکبر علی بھی ان ہزاروں پاکستانی تارکین وطن میں سے ایک ہے جو مہاجرین کے موجودہ بحران کے دوران جرمنی اور دیگر یورپی ممالک پہنچے۔ اس پرخطر سفر کے دوران علی نے چند مناظر اپنے موبائل فون میں محفوظ کر لیے۔
تصویر: DW/S. Haider
ایران کا ویزہ لیکن منزل ترکی
علی نے پاکستان سے مقدس مقامات کی زیارت کے لیے ایران کا ویزہ لیا۔ ایران سے انسانوں کے اسمگلروں نے اسے سنگلاخ پہاڑوں کے ایک طویل پیدل راستے کے ذریعے ترکی پہچا دیا۔ تین مہینے ترکی کے مختلف شہروں میں گزارنے کے بعد علی نے یونان کے سفر کا ارادہ کیا اور اسی غرض سے وہ ترکی کے ساحلی شہر بودرم پہنچ گیا۔
تصویر: Akbar Ali
میدانوں کا باسی اور سمندر کا سفر
بحیرہ ایجیئن کا خطرناک سمندری سفر سینکڑوں تارکین وطن کو نگل چکا ہے۔ یہ بات علی کو بھی معلوم تھی۔ پنجاب کے میدانی علاقے میں زندگی گزارنے والے علی نے کبھی سمندری لہروں کا سامنا نہیں کیا تھا۔ علی نے اپنے دل سے سمندر کا خوف ختم کرنے کے لیے پہلے سیاحوں کے ساتھ سمندر کی سیر کی۔ پھر درجنوں تارکین وطن کے ہمراہ ایک چھوٹی کشتی کے ذریعے یونانی جزیرے لیسبوس کے سفر پر روانہ ہو گیا۔
تصویر: Akbar Ali
دیکھتا جاتا ہوں میں اور بھولتا جاتا ہوں میں
سمندر کی خونخوار موجوں سے بچ کر جب علی یونان پہنچا تو اسے ایک اور سمندر کا سامنا تھا۔ موسم گرما میں یونان سے مغربی یورپ کی جانب رواں مہاجرین کا سمندر۔ علی کو یہ سفر بسوں اور ٹرینوں کے علاوہ پیدل بھی طے کرنا تھا۔ یونان سے مقدونیا اور پھر وہاں سے سربیا تک پہنچتے پہنچتے علی کے اعصاب شل ہو چکے تھے۔ لیکن منزل ابھی بھی بہت دور تھی۔
تصویر: Akbar Ali
کھنچی ہے جیل کی صورت ہر ایک سمت فصیل
ہزاروں مہاجرین کی روزانہ آمد کے باعث یورپ میں ایک بحرانی کیفیت پیدا ہو چکی تھی۔ علی جب سربیا سے ہنگری کے سفر پر نکلا تو ہنگری خاردار تاریں لگا کر اپنی سرحد بند کر چکا تھا۔ وہ کئی دنوں تک سرحد کے ساتھ ساتھ چلتے ہنگری میں داخل ہونے کا راستہ تلاشتے رہے لیکن ہزاروں دیگر تارکین وطن کی طرح علی کو بھی سفر جاری رکھنا ناممکن لگ رہا تھا۔
تصویر: Akbar Ali
متبادل راستہ: ہنگری براستہ کروشیا
کروشیا اور ہنگری کے مابین سرحد ابھی بند نہیں ہوئی تھی۔ علی دیگر مہاجرین کے ہمراہ بس کے ذریعے سربیا سے کروشیا کے سفر پر روانہ ہو گیا، جہاں سے وہ لوگ ہنگری میں داخل ہونے میں کامیاب ہو گئے۔ ہنگری سے بذریعہ ٹرین علی آسٹریا پہنچا، جہاں کچھ دن رکنے کے بعد وہ اپنی آخری منزل جرمنی کی جانب روانہ ہو گیا۔
تصویر: Akbar Ali
جرمنی آمد اور بطور پناہ گزین رجسٹریشن
اکبر علی جب جرمنی کی حدود میں داخل ہوا تو اسے پناہ گزینوں کی رجسٹریشن کے مرکز لے جایا گیا۔ علی نے جرمنی میں پناہ کی باقاعدہ درخواست دی، جس کے بعد اسے جرمنی کے شہر بون میں قائم ایک شیلٹر ہاؤس پہنچا دیا گیا۔ علی کو اب اپنی درخواست پر فیصلہ آنے تک یہاں رہنا ہے۔ اس دوران جرمن حکومت اسے رہائش کے علاوہ ماہانہ خرچہ بھی دیتی ہے۔ لیکن علی کا کہنا ہے کہ سارا دن فارغ بیٹھنا بہت مشکل کام ہے۔
تصویر: DW/S. Haider
تنہائی، فراغت اور بیوی بچوں کی یاد
علی جرمن زبان سے نابلد ہے۔ کیمپ میں کئی ممالک سے آئے ہوئے مہاجرین رہ رہے ہیں۔ لیکن علی ان کی زبان بھی نہیں جانتا۔ اسے اپنے بچوں اور بیوی سے بچھڑے ہوئے سات ماہ گزر چکے ہیں۔ اپنے خاندان کا واحد کفیل ہونے کے ناطے اسے ان کی فکر لاحق رہتی ہے۔ اس کا کہنا ہے، ’’غریب مزدور آدمی ہوں، جان بچا کر بھاگ تو آیا ہوں، اب پچھتاتا بھی ہوں، بیوی بچوں کے بغیر کیا زندگی ہے؟ لیکن انہی کی خاطر تو سب کچھ کر رہا ہوں۔‘‘