بیس ممالک میں شدید بھوک کے بحران کا خطرہ، اقوا م متحدہ
24 مارچ 2021
اقوام متحدہ کی بعض ایجنسیوں کے مطابق آنے والے مہینوں میں لاکھوں انسانوں پر سیاسی تنازعات، کورونا کی وبا اور موسمیاتی تبدیلیوں کے تباہ کن اثرات مرتب ہوں گے۔
اشتہار
اقوام متحدہ نے اپنی ایک تازہ رپورٹ میں کہا ہے کہ اگر عالمی برادری نے جلد ہی مناسب اقدامات نہ کیے تو دنیا کے بیس سے بھی زائد ممالک میں شدید بھوک کے بحران میں مزید اضافہ ہو جائے گا۔ غذا سے متعلق معروف عالمی ادارے 'ورلڈ فوڈ پروگرام' (ڈبلیو ایف پی) اور 'فوڈ اینڈ ایگری کلچر آرگنائزیشن' (ایف اے ڈبلیو) نے اس سے متعلق 23 مارچ منگل کو اپنی ایک رپورٹ جاری کی ہے۔
ڈبلیو ایف پی اور ایف اے ڈبلیو نے اپنی رپورٹ میں لکھا ہے کہ عالمی سطح پر تین کروڑ چالیس لاکھ افراد پہلے ہی انتہائی غذائی قلت کا شکار ہیں، جس کا مطلب یہ ہے کہ وہ بھوک کی وجہ سے موت کے قریب ہیں۔
ڈبلیو ایف پی کے ایگزیکیٹیو ڈائریکٹر ڈیوڈ بیسلی کا کہنا تھا، ''ہم اپنی آنکھوں کے سامنے تباہی پھیلتے ہوئے دیکھ رہے ہیں۔ تنازعات کی وجہ سے پنپنے والے قحط، ماحولیاتی تبدیلی کے حیران کن جھٹکے اور کووڈ 19 کی عالمی وبا کی وجہ سے بھوک لاکھوں خاندانوں کے دروازوں پر دستک دے رہی ہے۔''
’روزگار نہیں ہوگا تو بھوکے مر جائیں گے‘
01:35
سب سے زیادہ خراب صورت حال کہاں ہے؟
اس رپورٹ کے مطابق بھوک کے لحاظ سے سب سے زیادہ برا حال جنگ زدہ ملک یمن، جنوبی سوڈان اور شمالی نائیجیریا میں ہے۔ عالمی سطح پر سب سے زیادہ بحرانی کیفیت تو افریقی ممالک میں ہے تاہم اب افغانستان، شام، لبنان، اور ہیٹی جیسے ممالک میں بھی شدید بھوک میں مزید اضافے کا خدشہ ہے۔
اشتہار
اقوام متحدہ کے ادارے 'ہنگر ہاٹ اسپاٹ' کی ایک رپورٹ کے مطابق، ''ایسے انتہائی خطرے سے دو چار علاقوں میں اہداف بنا کر انسانی اقدامات کی ضرورت ہے تاکہ ان انتہائی کمزور برادریوں کو بچایا جا سکے۔''
ان اداروں کی مشترکہ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ ان، ''ممالک میں آبادی کے کچھ حصوں کو پہلے ہی سے شدید معاشی قلت، کم غذا اور انتہائی شدید کم غذائیت کا سامنا ہے۔ ایسی نازک صورت حال میں، کوئی ایک بھی دھچکا لوگوں کی ایک اچھی خاصی تعداد کو بدحالی کے دہانے پر لا سکتا ہے یا پھر فاقہ کشی میں ڈال سکتا ہے۔''
ڈیوڈ بیسلی کا کہنا تھا، ''لاکھوں افراد کو فاقے سے مرنے سے بچانے کے لیے ہمیں فوری طور پر تین چیزوں کی ضرورت ہے: لڑائی روکنی ہوگی، ہمیں ایسی انتہائی کمزور برادری تک رسائی دینی ضروری ہے تاکہ ہم انہیں زندگی بچانے کی ضروری امداد مہیا کرسکیں اور سب سے اہم، ہمیں چندہ دینے والوں کی ضرورت ہے تاکہ ہم صرف اس برس کے لیے ہی ساڑھے پانچ ارب ڈالر جمع کر پائیں۔''
شام میں انسانی بحران کی تکلیف دہ صورتحال
فائربندی سے بھوک کے شکار پریشان حال شامیوں کو عارضی طور پر فائدہ ضرور ہو گا کیونکہ شام کے محصور علاقوں میں پھنسے انسانوں کی صورتحال المیے کی سی ہے۔
تصویر: Reuters/B. Khabieh
حلب کے بچے
شام میں حلب بین الاقوامی خبروں کا مرکز بنا ہوا ہے۔ اب وہاں انخلاء کا عمل جاری ہے۔ یہ تباہ حال شہر جنگ کی ہولناکیوں کی علامت ہے۔ شہر کے مشرقی حصے میں نہ تو پانی ہے، نہ اشیائے خورد نوش اور نہ ادویات۔ عوام کی ایک بڑی تعداد کو سر پر چھت بھی میسر نہیں ہے۔ اس صورتحال میں اس شہر کے ایک لاکھ بچوں کو در در کی ٹھوکریں کھانا پڑ رہی ہیں۔
تصویر: Reuters/A. Ismail
چھ لاکھ انسان گھیرے میں
یہ تصویر مضایا کی ہے۔ اسی طرح کے اٹھارہ دیگر شہر بھی بیرونی دنیا سے کٹ چکے ہیں۔ اقوام متحدہ کے مطابق محصور علاقوں میں چھ لاکھ افراد آباد ہیں، جو تنازعے کے فریقین کی وجہ سے اپنے اپنے علاقوں میں پھنس کر رہ گئے ہیں۔ ان میں سے زیادہ تر علاقے اسد حکومت کے زیر قبضہ ہیں۔ دمشق حکومت کی اجازت کے بغیر ان علاقوں میں امددی اشیاء تک نہیں پہنچائی جا سکتیں اور اسد حکام سے اجازت لینا جوئے شیر لانے کے مترادف ہے۔
تصویر: Reuters/O. Sanadiki
مزاحمت کی علامت
داریا ان اوّلین شہروں میں شامل ہے، جہاں سے 2011ء میں اسد حکومت کے خلاف مزاحمت کا آغاز ہوا تھا۔ دمشق حکومت نے سالوں تک اس شہر کو گھیرے میں لیے رکھا، جس کی وجہ سے داریا کے باسی بھوک و افلاس کا شکار ہو گئے۔ صورتحال سے تنگ آ کر اگست میں باغیوں نے ہتھیار ڈال دیے، جو ان کی ایک بڑی شکست تھی۔
تصویر: picture-alliance/ZUMA Press
ہسپتالوں میں ہنگامی حالت
شام کے زیادہ تر ہسپتالوں میں مریضوں کا علاج ممکن نہیں رہا۔ ڈاکٹرز وِد آؤٹ بارڈرز نامی تنظیم کے مطابق، ’’مرہم پٹی کا سامان تو ایک طرف ہسپتالوں میں ادویات تک موجود نہیں ہیں۔ چھوٹے چھوٹے آپریشن تک کرنا ممکن نہیں رہا۔‘‘
تصویر: Getty Images/AFP/O. H. Kadour
کوئی جگہ محفوظ نہیں
گزشتہ پانچ مہینوں کے دوران حلب کے محصور مشرقی حصے کے آٹھوں ہسپتالوں کو یا تو نقصان پہنچا ہے یا پھر وہ تباہ ہو چکے ہیں۔ مقامی افراد کے مطابق ابھی بھی کچھ ایسے ڈاکٹرز ہیں، جو اپنی جان جوکھوں میں ڈال کر مریضوں کا علاج کر رہے ہیں۔ ایک ڈاکٹر کے بقول، ’’خود کو کہیں بھی محفوظ محسوس نہیں کیا جا سکتا‘‘۔
تصویر: picture-alliance/AA/E. Leys
منقسم شہر
حلب حکومتی دستوں اور باغیوں کے مابین تقسیم ہے۔ باغیوں کے زیر قبضہ مشرقی حصے میں حالات انتہائی خراب ہیں۔ اسد حکومت اور روس کی جانب سے روزانہ ہی اس حصے میں بمباری کی جاتی ہے اور روزانہ ہی کئی عمارتیں اور گھر کھنڈر میں تبدیل ہو جاتے ہیں۔ گزشتہ ہفتے کے دوران حلب میں سینکٹروں عام شہری ہلاک ہوئے۔
تصویر: Getty Images/AFP/A. Alhalbi
ہر شے کی قلت
حلب میں صرف باغیوں کے زیر اثر علاقوں میں ہی بنیادی اشیاء کی قلت نہیں ہے بلکہ حکومتی فورسز کے قبضے میں جو علاقے ہیں، وہاں کے باسی بھی ان سہولیات سے محروم ہیں۔
تصویر: Reuters/A. Ismail
ویرانی کیوں ہے؟
فضائی حملوں کے ڈر سے حلب کے شہری گھر سے باہر نکلنے کی ہمت کم ہی کرتے ہیں۔ کہتے ہیں کہ اس شہر میں عام زندگی گزارنا اب ممکن نہیں رہا۔
تصویر: Reuters/A. Ismail
ایک بڑی سی جیل
شام میں تازہ فائر بندی سے عام شہریوں کی زندگی میں تھوڑی سی آسانی ضرور پیدا ہوئی ہے۔ تاہم کسی کو یہ علم نہیں کے حالات کب تبدیل ہو جائیں۔ مقامی افراد کا خیال ہے کہ وہ ’’ایک بڑی سی جیل میں زندگی گزار رہے ہیں‘‘۔
تصویر: Reuters/A. Ismail
9 تصاویر1 | 9
بھوک میں اضافہ کیوں ہو رہا ہے
اقوام متحدہ کے ان اداروں کی رپورٹ کے مطابق دنیا کے بہت سے علاقوں میں جاری تنازعات، کووڈ 19 کی عالمی وبا، انتہائی قسم کی ماحولیاتی تبدیلی، ٹڈیوں کا فصلوں کو تباہ و برباد کر دینا اور سب سے زیادہ ایسی کمزور برادریوں تک عدم رسائی بھوک میں اضافے کی اہم وجوہات میں سے ہیں۔
اس ماہ کے اوائل میں بھی ان اداروں نے موجودہ صورت حال سے نمٹنے اور قحط سالی سے بچنے کے لیے تقریباً ساڑھے پانچ ارب امریکی ڈالر کی امداد کا مطالبہ کیا تھا تاکہ دنیا کے مختلف حصوں میں انسانی بنیادوں پر غذائی امداد پہنچانے کے ساتھ دیگر اشیاء بھی مہیا کی جا سکیں۔
ص ز/ ج ا (ڈی پی اے، اے ایف پی، ای پی ڈی)
افریقہ میں خُشک سالی: بھوک، پیاس اور خوف
کوئی بارش، کوئی فصل نہیں، کھانے کو بمشکل کچھ دستیاب۔ افریقہ کو اس دہائی کے بد ترین بحران سکا سامنا۔ وہاں 14 ملین انسان خطرے میں ہیں۔ ایتھوپیا کی صورتحال ابتر ہے۔
تصویر: Reuters/T. Negeri
افریقہ میں خشک سالی
کوئی بارش، کوئی فصل نہیں، کھانے کو بمشکل کچھ دستیاب۔ افریقہ کو اس دہائی کے بد ترین بحران سکا سامنا۔ وہاں 14 ملین انسان خطرے میں ہیں۔ ایتھوپیا کی صورتحال ابتر ہے۔
تصویر: Reuters/T. Negeri
سنگین نقصان
ایتھوپیا کے باشندوں کی اکثریت کھیتی باڑی اور مویشیوں کو پال کر اپنا گزر بسر کرتی ہے۔ عفار کے علاقے سے تعلق رکھنے واے ایک کسان کا کہنا ہے، ’’ بارش کی آخری بوندیں میں نے گزشتہ رمضان میں دیکھی تھیں۔‘‘
تصویر: Reuters/T. Negeri
بچوں کو لاحق خطرات
خُشک سالی اور بھوک 1984ء کی یاد دلاتی ہے۔ تب ایتھوپیا میں غذائی قلت قریب ایک ملین انسانوں کی ہلاکت کی سبب بنی تھی۔ اب یہ ملک پھر بھوک کے بحران کا شکار ہے۔ حکومتی ذرائع کے مطابق چار لاکھ کم سن لڑکے اور لڑکیاں کم خوراکی کا شکار ہیں اور انہیں فوری طبی امداد کے ضرورت ہے۔
تصویر: Reuters/T. Negeri
النینو کے سبب سانس لینا دشوار
زمبابوے میں بھی فصلوں کی ابتر حالت ہے۔ دارالحکومت ہرارے کے کھیت بُھٹے کی لہلاتی فصل کی بجائے خُشکی اور جھاڑ جنگل کا مسکن بنی ہوئی ہیں۔ اس سب کے باعث تھوڑے عرصے کے وقفے سے اس جگہ آنے والا موسمی سائیکل ہے جسے النینو کہا جاتا ہے۔ اس بار اس کا دور دور نام و نشان نہیں۔
تصویر: Reuters/P. Bulawayo
آخری صلاحیتوں کا استعمال
نقاہت زدہ گائے بمشکل کھڑے ہونے کی صلاحیت رکھتی ہے۔ زمبابوے کے مرکزی علاقے کے کسان اسے چلانے کی تمام تر کوششیں کر رہے ہیں۔ 2015 ء میں اُس سے پہلے سال کے مقابلے میں نصف بارش بھی نہیں ہوئی۔ فصلیں اور کھیت چٹیل میدان بنے ہوئے ہیں۔
تصویر: Reuters/P. Bulawayo
بالکل خشک زمین پر
عموماً اس جگہ کھڑے ہونا یا بیٹھنا ناممکن ہے۔ جس کی وجہ دریائے بلیک اُمفو لوزی ہے۔ جنوبی افریقی شہر ڈربن کے شمال مشرق کا یہ دریا بالکل خُشک پڑا ہے۔ اس کے ارد گرد آباد شہریوں نے اس دریا کے وسط میں ایک کنواں کھودا ہے جس سے وہ پانی حاصل کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔
تصویر: Reuters/R. Ward
خُشک سالی کے سبب قیمتیں ہوش رُبا
ملاوی بھی بُری طرح خُشک سالی کا شکار ہے۔ اس کے دارالحکومت کے قریب ہی واقع ایک مارکیٹ میں خریدار مہنگائی سے پریشان نظر آ رہے ہیں۔ بنیادی غذائی اجزاء جیسے کہ بھٹے کی قیمتوں میں ہوش رُبا اضافہ ہو چُکا ہے۔ فصلوں کی خرابی کے باوجود انہیں درآمد کیا جانا ضروری تھا۔