بیس گھنٹوں کی لڑائی کے بعد کابل حملہ ختم ہو گیا
14 ستمبر 2011افغان وزارت داخلہ کے ایک ترجمان صدیق صدیقی کا کہنا ہے، ’’آپریشن ابھی مکمل ہوا ہے اور اس میں چھ دہشت گرد مارے گئے ہیں۔ دیگر ہلاکتوں کی تعداد کے بارے میں تفصیلات بعد میں جاری کی جائیں گی۔‘‘
تاہم ہلاکتوں کے بارے میں متضاد اطلاعات سامنے آ رہی ہیں۔ خبر رساں ادارے روئٹرز کے مطابق اس حملے میں پانچ غیر ملکی فوجی زخمی جبکہ 13 افراد ہلاک ہوئے ہیں۔ عرب نشریاتی ٹیلی وژن الجزیرہ کے مطابق اس حملے میں تین افغان پولیس اہلکاروں سمیت چار افغان شہری اور چھ عسکریت پسند ہلاک ہوئے ہیں۔ گزشتہ روز مقامی وقت کے مطابق دوپہر ایک بجے کے قریب دارالحکومت کابل کے انتہائی حساس علاقے میں واقع نیٹو فورسز کے ہیڈ کوارٹرز اور امریکی سفارت خانے کو نشانہ بنایا گیا تھا۔ طالبان شدت پسندوں نے اس علاقے میں زیر تعیمر ایک عمارت میں پوزیشنیں سنبھالتے ہوئے راکٹ فائر کیے تھے۔
افغان سکیورٹی اہلکار نیٹو فورسز اور ہیلی کاپٹروں کی مدد سے عسکریت پسندوں کے اس حملے پر قابو پانے میں کامیاب ہوئے ہیں۔ افغانستان پر امریکی حملے کے بعد سے کابل میں جنگجوؤں کا یہ طویل ترین حملہ تھا۔ نیوز ایجنسی روئٹرز کے مطابق شہر بھر میں چار منظم حملے کیے گئے تھے، جن میں تین پولیس اسٹیشنوں کو بھی نشانہ بنایا گیا تھا۔ ان حملوں میں افغان حکام نے نو افراد ہلاک جبکہ 23 کے زخمی ہونے کی تصدیق کی ہے۔
نیو امریکن سکیورٹی سینٹر سے وابستہ اینڈریو ایگزم کا کہنا ہے کہ اس حملے کو سکیورٹی کی لاپرواہی یا پھر انٹیلی جنس ایجنسیوں کی ناکامی قرار دیا جا سکتا ہے۔ اس حملے سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ طالبان جنگ کے دس سال بعد بھی انتہائی حساس علاقوں میں اہم ٹھکانوں کو نشانہ بنانے کی اہلیت رکھتے ہیں۔
افغان امور کے ماہرین کی طرف سے ابھی تک افغان سکیورٹی فورسز کی اہلیت پر شکوک وشبہات کا اظہار کیا جا رہا ہے اور یہ بات یقین سے نہیں کہی جا سکتی کہ وہ غیر ملکی افواج کے انخلاء کے بعد ملکی سکیورٹی کے ذمہ داریاں سنبھال پائیں گی یا نہیں۔ تاہم اسی حملے کے دن امریکہ میں افغان سکیورٹی فورسز کی ٹریننگ کی لیے دی جانے والی امداد میں 1.6 بلین ڈالر کی کمی کا ایک بل منظور کیا گیا ہے۔ امریکی اور برطانوی سفارتخانوں سمیت نیٹو نے کہا ہے کہ اس حملے میں ان کے تمام اہلکار محفوظ رہے ہیں۔
رپورٹ: امتیاز احمد
ادارت: ندیم گِل