بیلاروس انتخابات، پر تشدد مظاہرے
20 دسمبر 2010یہ مظاہرے اس وقت شروع ہوئے جب ابتدائی نتائج کے مطابق لوکا شینکو کو اتوار منعقدہ انتخابات میں کامیاب قرار دیا گیا۔ الیکشن کمیشن نے اعلان کر دیا ہے کہ تمام ووٹوں کی گنتی کے بعد صدر لوکا شینکو نے79.7 فیصد ووٹ حاصل کئے ہیں۔ ان نتائج کا مطلب ہے کہ سولہ سال سے اقتدار پر براجمان لوکا شینکو ایک مرتبہ پھر ملک کے صدر بن گئے ہیں۔
بیلاروس میں اپوزیشن سیاسی جماعتوں کے ترجمانوں نے خبررساں ادارے AFP کو بتایا ہے کہ یہ گرفتاریاں اس وقت کی گئیں، جب دارالحکومت مِنسک میں مظاہروں کا سلسلہ شروع ہوا۔ انہوں نے بتایا صدارتی امیدوار Andrei Sannikov کو تو بری طرح سے مارا پیٹا بھی گیا۔ انہوں نے ایک ریلی میں کہا تھا کہ اب لوکاشینکو کا دور ختم ہو چکا ہے۔ ان صدارتی انتخابات میں کُل نو امیدواروں نے حصہ لیا تھا، جن میں سے Sannikov، لوکا شینکو کے ایک اہم مد مقابل تصور کئے جا رہے تھے۔
میڈیا رپورٹوں کے مطابق ایک اور صدارتی امیدوارVladimir Nekliayev بھی مظاہروں کے دوران شدید زخمی ہو گئے اور انہیں ہسپتال منقل کرنا پڑا۔ تاہم آزادانہ ذرائع سے ان خبروں کی تصدیق نہں ہو سکی ہے۔ تازہ ترین اطلاعات کے مطابق دس ہزار سے زائد مظاہرین نے منسک میں احتجاج کیا۔ اس دوران پولیس نے مظاہرین کو منشتر کرنے کے لئے لاٹھی چارج بھی کیا۔ اطلاعات کے مطابق سینکڑوں مظاہرین کو گرفتار بھی کیا گیا ہے۔ لوکا شینکو کے 16 سالہ دور حکومت کی تاریخ میں پہلی مرتبہ اتنے بڑی تعداد میں مظاہرے دیکھنے میں آ رہے ہیں۔
انتخابات میں دھاندلی اور فراڈ کا الزام عائد کرنے والے مظاہرین نے حکومتی عمارتوں پر ہلہ بول دیا اور کئی اہم سرکاری دفاتر کو بری طرح نقصان پہنچایا۔ لوکا شینکو پہلی مرتبہ سن 1994ء میں صدر منتخب کئے گئے تھے، اور وہ تب سے ہی اقتدار پر اپنا قبضہ جمائے ہوئے ہیں۔ انہیں ملکی اور بین الاقوامی سطح پر سخت تنقید کا سامنا ہے۔ ناقدین کا کہنا ہے کہ وہ نہایت غیر جمہوری طریقے سے اقتدار سنبھالے ہوئے ہیں۔
رپورٹ: عاطف بلوچ
ادارت: افسر اعوان