بیلاروس کے صدر کو اپنے قتل کا خدشہ، حکم نامے پر دستخط کر دیے
9 مئی 2021
مشرقی یورپی ملک بیلاروس کے صدر الیکسانڈر لوکاشینکو کو بظاہر اپنے قتل کا خدشہ ہے اور انہوں نے ایک صدارتی حکم نامے پر دستخط بھی کر دیے ہیں، جس کے تحت ان کی موت کے بعد صدارتی اختیارات ایک سلامتی کونسل کو منتقل ہو جائیں گے۔
اشتہار
سابق سوویت یونین کی جمہوریہ بیلاروس کے سرکاری خبر رساں ادارے بیلٹا نے بتایا کہ اگر صدر لوکاشینکو کسی دوسری وجہ سے بھی اپنے فرائض انجام دینے کے قابل نا رہے، تو بھی ان کے اختیارات ملکی سکیورٹی کونسل کو منتقل ہو جائیں گے۔
اس سے قبل اس یورپی ملک میں نافذ قانون یہ تھا کہ اگر صدر کا انتقال ہو جائے یا وہ اپنے فرائض انجام دینے کے قابل نا رہیں، تو ان کے اختیارات کی وزیر اعظم کو منتقلی لازمی تھی۔
ایسی صورت میں وزیر اعظم کو نئے صدر کی حلف برداری تک صدارتی فرائض بھی انجام دینا ہوتے تھے۔ اب لیکن دارالحکومت منسک میں صدر لوکاشینکو کی طرف سے جاری کردہ حکم نامے کے بعد صورت حال بدل گئی ہے۔
اشتہار
اقتدار کے ملکی ڈھانچے میں تبدیلی
صدر لوکاشینکو نے ابھی گزشتہ ماہ ہی کہا تھا کہ وہ بیلاروس میں اقتدار کا ڈھانچہ تبدیل کر دینا چاہتے ہیں۔ اس تناظر میں انہوں نے ہفتے کی شام جس صدارتی فرمان پر دستخط کر دیے، وہ دراصل ملک میں اختیارات کی ہنگامی منتقلی کے قانون میں تبدیلی کا عمل ہے۔
چرنوبل جوہری سانحے کے 33 برس
چرنوبل جوہری حادثے میں بچ جانے والے 33 برس سے اس آفت سے نمٹنے کی کوششوں میں ہیں۔ سوویت دور میں پیش آنے والے اس سانحے کے اثرات آج تک اس علاقے کو ایک بھیانک رنگ دیے ہوئے ہیں۔
تصویر: DW/F. Warwick
مرنے والوں کی یاد
اس وقت یوکرائن سویت یونین کا حصہ تھا۔ اس جوہری پلانٹ میں دھماکے کے فوراﹰ بعد 30 افراد تاب کاری کی وجہ سے ہلاک ہوئے تھے، جب کہ بعد میں بھی کئی افراد تاب کاری کا نشانہ بنے اور اپنی جان سے گئے۔ 90 ہزار سے زائد مزدوروں نے اس آفت زدہ پلانٹ کے گرد چھ ماہ بعد ایک مضبوط دیوار قائم کی۔
تصویر: DW/F. Warwick
بچ جانے والے خوش قسمت
سیرگئی نوویکوف بچ جانے والے خوش قسمت افراد میں سے ایک تھے۔ انہوں نے 1986ء میں اس پلانٹ کی سکیورٹی پر مامور تھے۔ اس انتہائی تاب کاری کے مقام پر کام کی وجہ سے انہوں نے قرب المرگ کیفیت کا سامنا کیا۔ وہ ہسپتال میں داخل ہوئے اور ڈاکٹروں نے انہیں بتایا کہ وہ اگلے کچھ ماہ میں جان کی بازی ہار بیٹھیں گے، مگر ڈاکٹروں کے اندازے غلط نکلے۔
تصویر: DW/F. Warwick
دن شمار کرتے لوگ
نوویکوف کی اہلیہ رائسہ نے اس وقت کلینڈر پر وہ دن نشان زدہ کرنا شروع کر دیے تھے، جب ان کے شوہر چرنوبل سانحے کے بعد انتہائی تاب کاری والے علاقے میں کام کرتے تھے۔ وہ پیلے قلم اور نیلے قلم سے اس کیلنڈر پر دن شمار کرتی رہیں۔ سول اور فوجی اہلکاروں کی تعداد چھ سے آٹھ لاکھ تھی، جنہوں نے اس سانحے کے بعد کلین اپ یا صفائی آپریشن میں حصہ لیا۔
تصویر: DW/F. Warwick
چرنوبل سانحے کے ’مسیحا‘
چرنوبل سانحے کے ’مسیحا‘ کی علامت یہ آئیکون ہے۔ اس میں ایک طرف یسوع مسیح جنت میں دکھائی دیے رہے ہیں، جب کہ دوسری جانب اس سانحے کے متاثرین اور صفائی کے کام میں مصروف اہلکار ہیں، جنہیں وہ محبت نذرانہ کر رہے ہیں۔ اس واقعے کے بعد بہت سے افراد نے امدادی سرگرمیوں میں حصہ لیا اور مقامی آبادی کو دیگر مقامات پر منتقل کیا گیا۔
تصویر: DW/F. Warwick
تنہا چھوڑ دیے گئے ملازمین
اس سانحے کے بعد صفائی کے کام میں حصہ لینے اور تاب کاری کے سامنے ڈٹے رہنے والے افراد کو بعد میں تنہا چھوڑ دیا گیا۔ یہ افراد برسوں اپنے لیے مراعات اور پینشن کی کوششیں کرتے رہے۔ نیل مارداگالیموف بھی ایسے ہی ایک شخص ہیں جن کے مطابق انہوں نے اس سانحے کے بعد اپنی تمام تر توانائیاں صرف کر دیں، مگر حکومت کی جانب سے انہیں بعد میں کچھ بھی نہ ملا۔
تصویر: DW/F. Warwick
کھلے آسمان تلے
کوپاچی کے علاقے میں ایک گڑیا زمین پر پڑی دکھائی دے رہی ہے۔ یہ گاؤں اس واقعے کے بعد خالی کرا دیا گیا تھا اور اب تک یہ کسی بھوت بنگلے کا منظر پیش کرتا ہے۔ اب بھی یہاں تاب کاری کی شرح ہیروشیما اور ناگاساکی کے جوہری حملے سے بیس گنا زیادہ ہے۔
تصویر: DW/F. Warwick
واپس لوٹنے والے
زالیسیا خالی کرائے جانے والا سب سے بڑا گاؤں تھا۔ یہاں سے 35 سو افراد کو سن 1986اور 1987 میں مختلف شہری مقامات پر منتقل کیا گیا، تاہم ان فراد کو شہروں میں رہنے میں دشواری کا سامنا کرنا پڑا اور قریب ایک ہزار افراد بعد میں رفتہ رفتہ اپنے گاؤں واپس لوٹ آئے۔ انہیں میں ایک خاتون روزیلینا دسمبر میں اپنی عمر کی آٹھویں دہائی میں فوت ہو گئیں۔
تصویر: DW/F. Warwick
شہرِ خموشاں
اس جوہری تنصیب سے تین کلومیٹر دور واقع شہر پریپیات سوویت اشرافیہ کا مسکن تھا، جہاں زیادہ تر افراد ماسکو، کییف اور دیگر مقامات سے آ کر آباد ہوئے تھے۔ یہاں کا معیار زندگی انتہائی بلند تھا، مگر چرنوبل حادثے نے یہ شہر ایک کھنڈر بنا دیا۔
تصویر: DW/F. Warwick
فطرت کی واپسی
کھیلوں کا یہ مرکز پریپیات کے ان مقامات میں سے ایک ہے، جہاں معیار زندگی کی بلندی دیکھی جا سکتی ہے۔ سوویت دور کے اہم ایتھلیٹس اس شہر میں آیا کرتے تھے۔ اب یہاں پودوں میں سبز پتے رفتہ رفتہ دکھائی دینے لگے ہیں۔
تصویر: DW/F. Warwick
نمبر تین اسکول
اس شہر کی ایک تہائی آبادی 18 برس سے کم عمر افراد پر مشتمل تھی، جو قریب 17 ہزار بنتی تھی۔ اس شہر میں 15 پرائمری اور پانچ سیکنڈری تھے، جب کہ ایک ٹیکنیکل کالج بھی تھا۔
تصویر: DW/F. Warwick
سوویت ماسک
سوویت دور میں اسکولوں میں شہری دفاع کی خصوصی تربیت دی جاتی تھی، جن میں گیس حملے کی صورت میں ماسک کا استعمال بھی سکھایا جاتا ہے۔ اسکول نمبر تین میں یہ گیس ماسک بچوں کو اسی تربیت کے لیے دیے گئے تھے، جب اب وہاں ایک ڈھیر کی صورت میں موجود ہیں۔
تصویر: DW/F. Warwick
ایک سوویت یادگار
لگتا ہی نہیں کہ پریپیات یوکرائن کا علاقہ ہے۔ ایک مقامی گائیڈ کے مطابق، ’’یہ شہر ایک سوویت یادگار ہے اور بتاتا ہے کہ سوویت دور میں زندگی کیسی ہوا کرتی تھی۔‘‘
تصویر: DW/F. Warwick
12 تصاویر1 | 12
اپنے اس ارادے کا اظہار لوکاشینکو نے گزشتہ ماہ اپریل 1986ء میں چرنوبل کے ایٹمی حادثے سے متاثرہ ملکی علاقوں کے ایک دورے کے دوران صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے کیا تھا۔
تب انہوں نے صحافیوں سے پوچھا تھا، ''آپ ہی بتائیے، کل اگر صدر نا رہے، تو اس کی ضمانت کون دے گا کہ ملک میں سب کچھ معمول کے مطابق اور ٹھیک ٹھاک ہی رہے گا؟ کوئی بھی نہیں!‘‘
گوربی، وہ نام جس سے جرمن شہری سابق روسی رہنما میخائل گورباچوف کو پکارتے ہیں۔ وہ سوویت یونین کے پہلے اور آخری صدر ہیں جو جرمنی میں آج بھی مقبول ہیں۔
تصویر: Vitaly Armand/AFP/Getty Images)
جرمنی میں گورباچوف کی یادگار
گوربی، وہ نام جس سے جرمن شہری سابق روسی رہنما میخائل گورباچوف کو پکارتے ہیں۔ وہ سوویت یونین کے پہلے اور آخری صدر ہیں جو جرمنی میں آج بھی مقبول ہیں۔
تصویر: picture alliance / Paul Zinken/dpa
گورباچوف اور جرمن
یہ اس وقت کے جرمن چانسلر ہیلموٹ کوہل اور گورباچوف کی پہلی ایک ساتھ تصویر ہے۔ مارچ انیس سو پچاسی میں جرمن چانسلر ماسکو میں سوویت کمیونسٹ پارٹی کے جنرل سیکرٹری کونسٹانٹن شرنینکو کی آخری رسومات میں شرکت کے لیے گئے تھے۔ گورباچوف نے کونسٹانٹن ہی کا خالی ہونے والا عہدہ سنبھالا تھا۔ یہیں سے دونوں رہنماؤں کے درمیان بہتر تعلقات کا آغاز ہوا۔
تصویر: Tass/dpa/picture-alliance
ولی برانٹ اور میخائل گورباچوف ماسکو میں
ولی برانٹ سن انیس سو انسٹھ سے انیس سو چوہتر تک جرمن چانسلر تھے۔ ان کے دور میں مغربی جرمنی نے اپنے مشرقی پڑوسی ملکوں کے ساتھ رشتے بہتر کرنے کا آغاز کیا اور سوویت یونین کے ساتھ تعلقات معمول پر آئے۔ اننہیں ان کی انہیں خدمات کے باعث سن انیس سو اکہتر میں نوبل انعام سے نوازا گیا۔ گورباچوف کو یہ انعام انیس سو نوے میں ملا۔
تصویر: V. Musaelyan/AFP/Getty Images
بون شہر میں پرستاروں کے درمیان
میخائل گورباچوف سن انیس سو نواسی میں دیوار برلن کے انہدام سے کچھ ماہ قبل ایک سرکاری دورے پر جرمنی پہنچے۔ بون شہر کے وسط میں جرمن شہریوں کی جانب سے ان کا نہایت پرجوش استقبال کیا گیا۔
تصویر: picture-alliance/dpa/F. Kleefeldt
برادرانہ بوسہ
اسی سال اکتوبر میں گورباچوف نے مشرقی برلن کا دورہ کیا جہاں مشرقی جرمنی کے قیام کی چالیسویں سالگرہ منائی جا رہی تھی۔ اس موقع پر مشرقی جرمنی کے رہنما ہونیکر نے انہیں 'خصوصی سوشل بوسے' کے ساتھ خوش آمدید کہا۔
تصویر: picture-alliance/dpa
کوہل اور گوبارچوف شمالی قفقاذ میں
جرمنی کے ممکنہ اتحاد سے متعلق مذاکرات جولائی انیس سو نوے میں شمالی قفقاذ میں ہوئے۔ اس بات چیت میں جرمنی کے مستقبل کے حوالے سے حتمی معاہدہ عمل میں آیا۔ اس معاہدے کو ٹو پلس فورمعاہدہ کہا جاتا ہے۔ مشرقی اور مغربی جرمنی کے بعد ستمبر میں اس پر سوویت یونین، امریکا، برطانیہ اور فرانس نے بھی دستخط کر دیے۔
تصویر: picture-alliance/dpa
اچھے پڑوسی بن کر رہنے کا عزم
نومبر انیس سو نوے میں مشرقی اور مغربی جرمنی کے اتحاد کے بعد گورباچوف جرمنی کا دورہ کرنے والے پہلے غیرملکی رہنما تھے۔ ان کے اس دورے میں دونوں ملکوں نے اچھ، اشتراک عمل اور تعاون کے معاہدے پر دستخط کیے۔
تصویر: picture-alliance/dpa
صدر ٹاک شو میں
سن انیس سو اکیانوے میں سوویت یونین کا خاتمہ ہو گیا اور گورباچوف صدر نہ رہے۔ انیس سو بانوے میں انہوں نے گورباچوف فاؤنڈیشن قائم کی۔ انیس سو چھیانوے میں وہ اپنے اہلیہ کے ہمراہ جرمنی آئے تو انہوں نے ایک ٹی وی ٹاک شو میں شرکت کی۔
تصویر: Holger Hollemann/dpa/picture-alliance
8 تصاویر1 | 8
تب اپنے اس سوال کا خود ہی جواب دیتے ہوئے لوکاشینکو نے کہا تھا، ''میں ایک صدارتی فرمان جاری کروں گا، اس بارے میں کہ ملک میں اقتدار کا ڈھانچہ اور اختیارات کی منتقلی کے نظام کیسے ہوں گے۔ اگر کسی دن صدر کو گولی مار دی جائے، تو اختیارات سکیورٹی کونسل کو منتقل ہو جائیں گے۔‘‘
صدارتی فرمان کے مطابق اس سلامتی کونسل کی سربراہی ملکی وزیر اعظم کریں گے۔
1994 سے برسراقتدار صدر
بیلاروس کے صدر لوکاشینکو کی عمر اس وقت 66 برس ہے اور وہ 1994ء سے اس ملک پر حکومت کر رہے ہیں۔
وہ گزشتہ برس اگست میں ہونے والے صدارتی الیکشن میں اس عہدے پر دوبارہ منتخب کر لیے گئے تھے۔
ان انتخابات کی شفافیت پر تاہم ملکی اپوزیشن اور بیرونی دنیا دونوں کی طرف سے کئی سوالات اٹھائے گئے تھے۔
گزشتہ برس لوکاشینکو کے دوبارہ انتخاب کے بعد ملک میں احتجایی مظاہرے بھی شروع ہو گئے تھے اور مظاہرین ان سے مستعفی ہونے کا مطالبہ کرنے لگے تھے۔ مگر حکومت نے ان مظاہروں کو طاقت کا استعمال کرتے ہوئے کچل دیا تھا۔ تب اپنے استعفے کے مطالبات کے حوالے سے صدر لوکاشینکو نے کہا تھا کہ وہ صرف اسی وقت اپنے عہدے سے دستبردار ہوں گے جب ملک میں کوئی احتجاجی مظاہرے نا ہو رہے ہوں اور کوئی 'انقلابی سرگرمیاں‘ بھی جاری نا ہوں۔
م م / ب ج (روئٹرز، ڈی پی اے)
سوویت یونین کا زوال اوراس کے بعد وجود میں آنے والی ریاستیں
11 مارچ 1990 کو لیتھوانیا نے سوویت یونین سے علیحدگی کا اعلان کیا۔ تاہم سویت یونین نے اس جمہوریہ کو طاقت سے دبانے کی کوشش کی۔ اس کا نہایت سخت ردعمل سامنے آیا اور یکے بعد دیگرے سوویت یونین کی 15 ریاستیں الگ ممالک بن گئیں۔