بیلجیئم: برقعے کی پابندی پر ملا جُلا ردعمل
30 اپریل 2010اب یہ بل سینیٹ میں بھیجا جائے گا، جہاں سے متوقع منظوری کے بعد بیلجیئم وہ پہلا یورپی ملک بن جائے گا، جہاں عوامی مقامات پر برقعہ اوڑھنے یا کوئی بھی ایسالباس پہننے کی ممانعت ہوگی، جس سے فرد کی مکمل شناخت میں دشواری ہو۔
بیلجیئم میں پورے چہرے کے نقاب پر پابندی کے فیصلے کا اطلاق بازاروں، پارکس، کھیل کے میدانوں اور ایسی عمارتوں پر ہوگا، جن کا مقصد لوگوں کو سروس فراہم کرنا ہو۔ تاہم خصوصی مواقع پر مقامی پولیس کی اجازت سے ایسا لباس زیب تن کیا جا سکے گا۔ اس کے علاوہ میونسپل حکام چاہیں تو کارنیوال یا اس نوعیت کے مخصوص مواقع اور تہواروں کے دوران وقتی طور پر یہ پابندی اٹھا سکتے ہیں۔ بیلجیئم میں حکومتی اور اپوزیشن ارکان دونوں اس بل کے حق میں تھے اور اُن کا کہنا ہے کہ افراد کی شناخت ان کے لباس سے نہیں ہونی چاہیئے۔
بل پر بحث کے دوران پارلیمنٹ کے کچھ ارکان کا کہنا تھا کہ وہ حفاظتی نقطہء نظر سے اس بل کی حمایت کر رہے ہیں جبکہ بعض ارکان کی رائے تھی کہ پورے چہرے کا نقاب خواتین کے استحصال کی علامت ہے۔
لبرل پارٹی کے رکن ڈینس ڈوکرمے اس بل کی منظوری کو برسلز حکومت کی کامیا بی قرار دیتے ہوئے کہتے ہیں کہ بیلجیئم پہلا ملک ہے، جس نے خواتین کی ایک اچھی خاصی تعداد کو آزادی دلائی ہے اور امید ہے کہ فرانس، سوئٹزرلینڈ، اٹلی اور ہالینڈ جیسے ممالک بھی اسی انداز میں سوچیں گے۔
بیلجیئم میں پارلیمان کے ایوان زیریں میں اس بل کی منظوری کے بعد اس پر تنقید کا سلسلہ بھی جاری ہے۔ حقوقِ انسانی کی علمبردار تنظیم ایمنسٹی انٹرنیشنل نے اس قانون کے منظور کئے جانے کی مذمت کرتے ہوئے ایوان بالا سے اپیل کی ہے کہ وہ اس پر نظر ثانی کرے کیونکہ یہ بنیادی انسانی حقوق کے خلاف ہے۔ اس تنطیم کے مطابق یہ بات سراسر غلط ہے کہ نقاب پر پابندی لوگوں کی عمومی حفاظت کے پیش نظر لگائی گئی ہے۔ ایمنسٹی انٹرنیشنل کا کہنا ہے کہ برقعہ کبھی بھی سیکیورٹی کے لئے خطرہ نہیں رہا۔
یورپی مسلم تنظیم ’مسلم ایگزیکٹیو آف بیلجیئم‘ نے متنبہ کیا ہے کہ اس پابندی کے نتیجے میں نقاب اوڑھنے والی خواتین گھروں میں قید ہو کر رہ جا ئیں گی۔ اِسی موقف کا اظہار بیلجیئم کی ’لیگ فار ہیومین رائٹس‘ کے نمائندے بینوئے فان ڈیئر میئرشن نےکیا ہے:’’میرے خیال میں یہ پابندی کوئی اچھی بات نہیں، متاثرہ خواتین اپنے گھروں تک محدود ہو کر رہ جائیں گی اور پہلے سے بھی زیادہ امتیازی سلوک کا نشانہ بنیں گی۔ ‘‘
’مسلم ایگزیکٹیو آف بیلجیئم‘کی نائب صدر ازابیل پرائلی کا کہنا ہے کہ اس قانون سے ایک خطرناک روایت قائم ہو سکتی ہے، جس سے باقی مذاہب کی علامات، جیسے سکھوں کی پگڑی کے خلاف بھی کارروائی کرنےکی راہ ہموار ہوگی۔
برسلز میں اسلامک سکالر مائیکل پریووٹ اس قانون کو تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے کہتے ہیں کہ اس کے نفاذ کے بعد بیلجیئم بھی سعودی عرب اور ایران جیسے ممالک کی صف میں شامل ہو جائے گا، جہاں عوامی مقامات پرجانے کے لئے لوگوں کا مخصوص’ ڈریس کوڈ‘ ہے ۔ وہ کہتے ہیں کہ یہ تین ممالک اس قانون کےحق میں، انسانی وقار کی حفاظت یا خواتین کو آزادی دینے جیسے دلائل دے کر ایک غلط چیز کو صحیح ثابت کرنے کی کوشش کر رہے ہیں حالانکہ در حقیقت اس قانون سے شہریوں کی آزادی سلب ہو رہی ہے۔
خواتین کے نقاب اوڑھنے پر پابندی کے اس قانون کی خلاف ورزی کرنے پر 15 سے 25 یورو تک جرمانے یا سات دن قید یا دونوں سزائیں دی جا سکتی ہیں۔
واضح رہے کہ گزشتہ ہفتے فرانس کی حکومت نے بھی اعلان کیا تھا کہ وہ عوامی مقامات پر برقعہ پہننے پر پابندی عائد کرنے سے متعلق ایک بل مئی میں پارلیمان میں پیش کرے گی۔ فرانس میں مجوزہ مسودہء قانون میں برقعہ پہننے والی خاتون کے لئے 150 یورو جرمانے جبکہ خواتین کو برقعہ پہننے پر مجبور کرنے والے شخص کے لئے ایک سال کی سزائے قید اور پندرہ ہزار یورو جرمانے کا ذکر کیا گیا ہے۔ فرانسیسی صدر نکولا سارکوزی نے گزشتہ برس کہا تھا کہ فرانس میں اس طرح کے ملبوسات کی کوئی جگہ نہیں ہے، جوخواتین کے حقوق کو سلب کرتے ہوں۔
رپورٹ: بخت زمان یوسف زئی
ادارت: امجد علی