بیلجیم: باپ بیٹے کے حق میں تخت سے دستبردار
21 جولائی 2013ابھی کوئی اڈہائی ہفتے پہلے البیر ثانی نے اعلان کیا تھا کہ انہوں نے اپنے 53 سالہ بیٹے پرنس فلیپ کے حق میں تخت سے دستبردار ہونے کا فیصلہ کیا ہے۔ آج برسلز کے شاہی محل میں منعقدہ ایک تقریب میں 250 مہمانوں کی موجودگی میں تخت سے دستبردار ہونے کی دستاویزات پر دستخط کرنے سے پہلے البیر ثانی نے اپنی آنسو پونچھتی اہلیہ کا شکریہ ادا کیا، جس کے بعد انہوں نے کہا کہ اُن کے بیٹے میں وہ تمام خصوصیات موجود ہیں، جو ملک کی اچھی طرح سے خدمت کرنے کے لیے چاہییں۔
183 سال پہلے وجود میں آنے والا ملک بیلجیم آج کل انتشار کا شکار ہے۔ ڈَچ بولنے والوں کی ایک بڑی تعداد شمالی بیلجیم کے علاقے فلینڈرز کے لیے زیادہ خود مختاری کی خواہاں ہے اور اُس بادشاہت سے نالاں ہے، جس کی جڑیں ایک زمانے کے طاقتور لیکن آج کل غریب ہو چکے فرانسیسی بولنے والے جنوبی علاقے والونیا میں ہیں۔
شاہ البیر نے اپنے الوداعی بیان میں انتباہ کیا کہ ملک کی تقسیم کی اجازت نہیں دی جانی چاہیے۔ انہوں نے اس یقین کا اظہار کیا کہ ملک کے وفاقی ڈھانچے کو قائم رکھنا بیلجیم کی بقا کے لیے بنیادی اہمیت کا حامل ہے:’’مَیں اس امر کا قائل ہوں کہ ہماری وفاقی ریاست میں ہم آہنگی کو برقرار رکھنا بنیادی اہمیت رکھتا ہے، نہ صرف ہمارے پُر امن بقائے باہمی کے لیے، جس کے لیے مکالمت کی ضرورت ہے بلکہ ہم سب کی خوشحالی کو یقینی بنانے کے لیے بھی۔‘‘
آج دوپہر نئے بادشاہ فلیپ نے برسلز میں پارلیمان کے سامنے اپنے عہدے کا حلف اٹھا لیا۔ اس طرح وہ ملک کے ساتویں بادشاہ بن گئے ہیں۔ حلف برداری کے بعد فلیپ نے کہا کہ ’بیلجیم کی قوم اور اداروں کی اصل دولت تنوع کو طاقت میں بدلنا ہے‘۔ وہ ایک طرح سے اُس خلیج کو پاٹنے کی کوشش کر رہے تھے، جو ملک کے ڈَچ زبان بولنے والے چھ ملین اور فرانسیسی بولنے وال 4.5 ملین شہریوں کے درمیان حائل ہو چکی ہے۔
بیلجیم میں نئے بادشاہ کی تاجپوشی پر ملا جُلا ردعمل دیکھنے میں آ رہا ہے۔ شاہی محل کے سامنے پرانے اور نئے بادشاہ کی جھلک دیکھنے کے لیے جمع ہجوم میں شامل ایک شخص کا کہنا تھا کہ اس طرح کے واقعات روز روز نہیں ہوتے اور وہ اس تاریخی لمحے کو دیکھنے کے لیے یہاں آیا ہے۔
اس کے برعکس ڈَچ بولنے والے علاقے کو ایک الگ ری پبلک کی شکل دینے کی خواہاں سیاسی جماعت این وی اے کے رکن اسمبلی ژان جمبون نے روئٹرز کو بتایا:’’میری یہاں موجودگی کی وجہ صرف میرا رکن اسمبلی ہونا ہے ورنہ مجھے اس سارے ہنگامے سے نہ کوئی فرق پڑتا ہے اور نہ ہی کوئی سروکار ہے۔‘‘
وہاں ایک اکیس سالہ طالبعلم مشیل ڈیشی میکر بھی اپنے ساتھیوں کے ساتھ قرونِ وِسطیٰ کے ملبوسات پہنے بادشاہتوں کے خلاف عمومی احتجاج کے لیے موجود تھا، جس نے روئٹرز ٹیلی وژن کو بتایا:’’بادشاہوں کی جگہ صرف اور صرف دیو مالائی داستانوں میں ہے۔‘‘
جہاں ایک سروے کے مطابق فلینڈرز کی صرف آدھی آبادی کے خیال میں فلیپ ایک اچھا بادشاہ ثابت ہو گا، وہاں والونیا کی آبادی میں یہی رائے ظاہر کرنے والوں کی شرح دو تہائی تھی۔ بیلجیم کے ہمسایہ ملک ہالینڈ نے گزشتہ برس سیاسی سرگرمیوں میں ملک کے شاہی خاندان کی شرکت ختم کر دی تھی۔ وہاں بھی ملکہ بیٹرکس اپنے بیٹے ولیم الیگزینڈر کے حق میں تخت سے دستبردار ہو گئی تھیں۔