بیمار مہاجرین یا مساج کے طلبگار؟ جرمن ڈاکٹر کا علاج سے انکار
انفومائگرینٹس
17 مئی 2018
جرمن صوبے باویریا کے ایک مہاجر مرکز میں تین سال تک تارکین وطن کا علاج کرنے والے ایک جرمن ڈاکٹر نے اُنہیں اپنی خدمات دینے سے یہ کہتے ہوئے انکار کر دیا ہے کہ یہ افراد بیمار نہیں بلکہ محض ’طبی سیّاح‘ ہیں۔
تصویر: Getty Images/S. Gallup
اشتہار
یورپ میں مہاجرین سے متعلق خبریں فراہم کرنے والے ادارے انفو مائیگرنٹس کے مطابق مذکورہ جرمن ڈاکٹر کے اس اعلان کی صحت کی تنظیموں کی جانب سے مذمت کی گئی ہے تاہم ڈاکٹر نے جرمن اخبار’ دی سائٹ‘ کو اس حوالے سے اپنا موقف بتاتے ہوئے کہا ہے کہ اُس کے پاس آنے والے مریضوں کی نوعیت مہاجرین کے حالیہ بحران کے بعد سے یکسر بدل گئی ہے۔
باویریا کے ڈیگن ڈورف قصبے میں مہاجرین کو تین برس تک طبی امداد بہم پہنچانے والے اس ڈاکٹر کا کہنا ہے کہ یہ وہ تارکین وطن نہیں جو بلقان روٹ پر پیدل چل کر جرمنی تک آتے تھے اور جن کے پیر زخمی ہوا کرتے تھے۔
جرمن ڈاکٹر نے اخبار ’دی سائٹ‘ کو مزید بتایا،’’آج کل جس قسم کے مریض میرے پاس آ رہے ہیں انہیں میں ’طبی سیّاح‘ کہوں گا۔ یہ افراد مجھ سے مساج اور ویاگرا کے نسخے اور دانتوں کی مہنگی سرجری کا مطالبہ کرتے ہیں۔ اسی لیے میں نے اسائلم سینٹر کے ساتھ کام جاری نہ رکھنے کا فیصلہ کیا ہے۔‘‘
یہ جرمن ڈاکٹر اپنا نام ظاہر نہیں کرنا چاہتے۔ انہوں نے مزید کہا کہ اب علاج کی غرض سے آنے والے پناہ گزینوں کو صحیح معنوں میں مدد کی ضرورت نہیں ہے۔ ڈاکٹر کا خیال ہے کہ ان افراد نے جرمنی کا سفر صرف اس لیے کیا تاکہ انہیں مفت طبی سہولیات حاصل ہو سکیں۔
ڈاکٹر کا کہنا تھا کہ مریضوں کو اُن کی مرضی کے مطابق علاج نہ کرنے پر بعض نے نہ صرف بد زبانی بلکہ مار پیٹ سے بھی کام لیا۔ انہوں نے ایک واقعے کا ذکر کرتے ہوئے بتایا کہ کیسے ایک تارک وطن نے اُن کے کام کرنے والی جگہ پر موجود اسٹاف کے ایک رکن کو چاقو سے دھمکایا تھا۔
سانپ مساج سینٹر
جسم میں درد ہو تو مساج کا نام سنتے ہی آرام کا احساس ہونے لگتا ہے لیکن اگر یہی مساج خوفناک سانپ کریں تو آپ کیسا محسوس کریں گے؟
تصویر: Getty Images/U. Ifansasti
مساج میں سانپوں کا استعمال کیوں
سانپوں کی خاصیت ہے کہ وہ اپنے شکار کو آہستہ آہستہ اپنے شکنجے میں لیتے ہیں، اس وقت تک جب تک شکار کا دم گُھٹ نہ جائے۔ پھر وہ اپنے شکار کو نگلنا شروع کرتے ہیں۔ جکڑنے کی خصوصیت کی وجہ سے ہی چند ممالک میں سانپوں کو مساج میں بھی استعمال کیا جاتا ہے۔
تصویر: Getty Images/U. Ifansasti
مساج سے پہلے دعوت
مساج کرانے والوں کو سانپوں سے ڈرنے کی ضرورت نہیں کیونکہ مساج کے عمل سے 30 منٹ پہلے ان سانپوں کو خوب اچھا کھانا کھلایا جاتا ہے اور بعد میں اس کے جبڑے کو بند کر دیا جاتا ہے۔ تین میٹر لمبا اور آٹھ کلو گرام وزنی سانپ دورانِ مساج زیادہ تر کمر اور ٹانگوں پر رہتا ہے۔
تصویر: Getty Images/U. Ifansasti
ہارمونز کا اخراج
مساج کروانے والے کتنی ہی ہمت کا مظاہرہ کیوں نہ کریں پھر بھی ذہن میں کہیں نہ کہیں ڈر اور خوف رہتا ہے۔ ایسا مساج کروانے والوں کا کہنا ہے کہ سانپوں کے ہلنے سے جسم میں عجیب سی سنسنی کی کیفیت پیدا ہوتی ہے۔
تصویر: Getty Images/U. Ifansasti
پٹھوں کو آرام
انسانی ہاتھوں کے مقابلے میں سانپ کی جکڑن بالکل مختلف ہوتی ہے۔ انسانی جسم پر ان سانپوں کی گرفت آہستہ آہستہ کم ہوتی اور بڑھتی ہے۔
تصویر: Getty Images/U. Ifansasti
سانپوں کے مساج کے نفسیاتی فوائد
مساج ختم ہونے کے بعد لوگ چین کا سانس لیتے ہیں۔ اکثر افراد نے اس بات کو تسلیم بھی کیا کہ مساج کے دوران انہوں نے اپنے خوف پر قابو پانا بھی سیکھا۔
تصویر: Getty Images/U. Ifansasti
سخت نگرانی میں مساج
گاہکوں کی حفاظت کے نقطہ نظر سے مساج رُوم میں سپر وائزر بھی موجود رہتے ہیں تاکہ سانپ کی حرکت اور اُس کے رویے پر نظر رکھی جا سکے۔
تصویر: Getty Images/U. Ifansasti
سانپوں کے مساج کی بڑھتی مقبولیت
انڈونیشیا کے علاوہ چند دیگر ممالک میں بھی سانپوں کا مساج مقبول ہو رہا ہے اور اب ایسے کچھ مساج سینٹر برطانیہ اور فلپائین میں بھی کھل چکے ہیں۔
تصویر: Getty Images/U. Ifansasti
7 تصاویر1 | 7
دوسری جانب صحت و طبی امداد سے متعلق تنظیموں نے جرمن ڈاکٹر کے اس فیصلے کو کڑی تنقید کا نشانہ بنایا ہے۔
ڈاکٹروں کی ایک تنظیم’ ڈاکٹرز آف دی ورلڈ‘ کے ترجمان نے جرمن میڈیا سے بات کرتے ہوئے کہا،’ ہمیں کبھی ایسی ’طبی سیاحت‘ سے واسطہ نہیں پڑا، نہ تو پناہ کے مراکز میں اور نہ ہی اپنے دفاتر میں۔‘‘ اسی طرح میڈیکو انٹرنیشنل نامی تنظیم نے بھی جرمن ڈاکٹر کے اس بیان کو توہین آمیز قرار دیا ہے۔
جرمنی میں طبی اخراجات ہیلتھ انشورنس فنڈ سے ادا کیے جاتے ہیں۔ تاہم مہاجرین اس سسٹم کے تحت پوری طرح طبی امداد حاصل کرنے کے اہل شمار نہیں ہوتے۔ جرمن حکومت مہاجرین کی درخواست پر عمل درآمد کے پہلے پندرہ ماہ کے دوران تارکین وطن کے لیے طبی اخراجات کی ادائیگی کرتی ہے لیکن صرف ایمرجنسی کی صورت میں۔
جرمنی میں تارکینِ وطن کی رہائش گاہیں
جرمنی میں پناہ گزینوں سے متعلق دفتر کا اندازہ تھا کہ 2015ء کے دوران تقریباً تین لاکھ مہاجرین جرمنی کا رخ کریں گے لیکن اب اس تعداد کو ساڑھے چار لاکھ کر دیا گیا ہے۔ سیاسی پناہ کے متلاشی افراد کو ٹھہرایا کہاں جاتا ہے؟
تصویر: Picture-Alliance/dpa/P. Kneffel
عارضی رہائش گاہیں
جرمن شہر ٹریئر میں قائم کی جانے والی عارضی رہائش گاہوں میں تقریباً ساڑھے آٹھ سو افراد کا انتظام کیا جا سکتا ہے۔ جب کوئی بھی مہاجر جرمنی آتا ہے تو اسے ابتدائی تین ماہ اسی طرح کی جگہوں پر رکھا جاتا ہے۔ بعد ازاں انہیں کسی دوسرے شہر یا کسی مضافاتی علاقے میں بھیج دیا جاتا ہے، جہاں پر انتظامات مختلف ہوتے ہیں۔
تصویر: picture-alliance/dpa/H. Tittel
ہنگامی انتظامات
سیاسی پناہ کے متلاشیوں کی بڑھتی ہوئی تعداد کے باعث عارضی رہائش گاہوں میں جگہ ختم ہو گئی ہے۔ اس وجہ سے شہر کے ٹاؤن ہال یا دیگر سرکاری عمارتوں میں ہنگامی انتظامات کیے گئے ہیں۔ یہ تصویر شہر ’ہام‘ میں قائم کی جانے والی ایک ایسی ہی ہنگامی رہائش گاہ کی ہے، جہاں ایک وقت میں پانچ سو مہاجرین قیام کر سکتے ہیں۔
تصویر: picture-alliance/dpa/I. Fassbender
اسکول بھی رہائش گاہیں
مہاجرین کی اتنی بڑی تعداد کو رہائش فراہم کرنے میں اکثر شہروں کی انتظامیہ کو شدید مشکلات کا سامنا ہے۔ مثال کے طور پر شہر آخن کو جولائی کے وسط میں تین سو مہاجرین کے قیام کا انتظام کرنا تھا اور اس موقع پر ان افراد کو صرف اسکول میں ہی پناہ دی جا سکتی تھی۔
تصویر: Picture-Alliance/dpa/R. Roeger
عارضی خیمے
اس دوران جرمنی میں بہت سے مقامات پر مہاجرین کے لیے خیمے بھی لگائے جا رہے ہیں۔ موسم گرما میں تو ان عارضی خیموں کو استعمال کیا جا سکتا ہے تاہم سردیوں میں ان مہاجرین کو کسی عمارت میں منتقل کرنا پڑے گا۔
تصویر: Picture-Alliance/dpa/J. Wolf
سب سے بڑی خیمہ بستی
مہاجرین کے لیے سب سے بڑی خیمہ بستی مشرقی جرمن شہر ڈریسڈن میں قائم کی گئی ہے۔ یہاں رہنے کے لیے صبر کی ضرورت ہے۔ بیت الخلاء کے لیے طویل قطاریں لگتی ہیں اور کھانے کے لیے بھی انتظار کرنا پڑتا ہے۔ آج کل یہاں پر پندرہ ممالک کے ایک ہزار افراد موجود ہیں۔ اس خیمہ بستی میں کُل گیارہ سو افراد قیام کر سکتے ہیں۔
تصویر: Picture-Alliance/dpa/A. Burgi
کنٹینرز بطور رہائش گاہ
زیادہ سے زیادہ پناہ گزینوں کا انتظام کرنے کے لیے بہت سے جرمن علاقوں میں کنٹینرز میں بھی رہائش گاہیں قائم کر دی گئی ہیں۔ شہر ٹریئر میں 2014ء سے ایسی رہائش گاہیں قائم ہیں۔ آج کل یہاں ایک ہزار سے زائد مہاجرین پناہ لیے ہوئے ہیں۔
تصویر: Picture-Alliance/dpa/H. Tittel
مہاجرین کی پناہ گاہوں پر حملے
صوبے باڈن ورٹمبرگ میں مہاجرین کے لیے زیر تعمیر ایک عمارت کو 18 جولائی کو نذر آتش کرنے کی کوشش کی گئی۔ اس دوران جرمنی کے مشرقی اور جنوبی حصوں میں روزانہ کی بنیادوں پر مہاجرین کی رہائش گاہوں کو نشانہ بنانے کے واقعات رونما ہو رہے ہیں۔ غیر ملکیوں سے اس نفرت کے خلاف شہریوں کی جانب سے مظاہرے بھی کیے جا رہے ہیں۔
تصویر: Picture-Alliance/dpa/SDMG/Dettenmeyer
سیاسی قائدین
سوشل ڈیموکریٹک پارٹی کے سربراہ اور نائب جرمن چانسلر زیگمار گابریئل نے اکتیس جولائی کو صوبہ میکلنبرگ پومیرانیہ میں قائم ایک مہاجر بستی کا دورہ کیا۔ یہاں تین سو افراد رہائش پذیر ہیں۔ اس موقع پر گابریئل نے کہا کہ مہاجرین کو پناہ دینے کا تعلق صرف پیسے سے نہیں بلکہ یہ عزت و وقار کا معاملہ بھی ہے۔
تصویر: picture-alliance/dpa/B. Wüstneck
نئی عمارات کی تعمیر
پناہ گزینوں کو مناسب سہولیات فراہم کرنے لیے مختلف علاقوں میں نئی رہائش گاہیں تعمیر کی جا رہی ہیں۔ یہ صوبہ باویریا میں تعمیر کی جانے والی ایک ایسی ہی عمارت کی تصویر ہے، جس میں ساٹھ افراد کی گنجائش ہے۔ جنوری 2016ء میں تعمیراتی سلسلہ مکمل ہو جائے گا۔
تصویر: Picture-Alliance/dpa/D. Karmann
انتظار انتظار
مہاجرین کے لیے جب تک نئی باقاعدہ رہائش گاہیں تعمیر نہیں ہو جاتیں، عارضی رہائش گاہوں کی تعمیر کا سلسلہ جاری رہے گا، جیسے میونخ میں قائم کی جانے والی یہ خیمہ بستی ہے، جسے ایک ہی رات میں تعمیر کیا گیا۔ اس میں کئی درجن خیمے ہیں، جن میں تقریباً تین سو بستر لگائے گئے ہیں۔