بینک شہریوں کو ہراساں نہ کریں: سندھ ہائی کورٹ کا حکم
16 نومبر 2008حکم نامے میں مزید یہ بھی کہا گیا ہے کہ قرضوں کی وصولی کے لیے گھروں یہ دفاتر پر پرائویٹ فورسز کے ساتھ چھاپے نہ مارے جائیں اور صرف قانون کے مطابق کارروائی کی جائے۔ عدالتِ عالیہ کے اس فیصلے کی جہاں شہریوں نے پزیرائی کی ہے وہیں پاکستانی سول سوسائٹی کی شخصیات نے بھی اس حکم نامے کا خیر مقدم کیا ہے۔
سول سوسائٹی کے سرکردہ رہنما ناظم ایف حاجی نے ڈائچے ویلے اردو سروس سے بات کرتے ہوئے کہا کہ عدالت نے ایک اہم فیصلہ لیا ہے چوں کہ بینکاری نظام میں بہت زیادہ حرص اور لالچ پایا جاتا ہے۔ ان کے مطابق بینکوں نے جانتے ہوئے بھی کہ لوگ قرضہ ادا نہیں کر پائیں گے، لوگوں کو قرضہ لینے پر مائل کیا۔ ناظم ایف حاجی کہا کہنا تھا کہ دنیا بھر میں قرضوں اور واجبات کی وصولی کی جاتی ہے مگر وہ ایک مہذب طریقے سے کی جاتی ہے۔
عدالت کے اس حکم سے قبل کراچی سمیت ملک کے دیگر حصّوں میں بینکوں کے ’ریکوری‘ افسران اور بینکوں کی نجی فورسز نے کریڈٹ کارڈ پر قرضہ لینے والے افراد کو ہراساں کرنے کا سلسلہ شروع کررکھا تھا جو معاشی بدحالی، بے روزگاری اور مہنگائی کے باعث وقت پر واجبات ادا نہیں کر پارہے تھے۔ بعض اطلاعات کے مطابق بینکوں کے اہلکاروں نے بعض قرض دہندگان کے گھروں میں گھس کر لوگوں کو ذد و کوب بھی کیا، فون پر دھمکیاں دیں، اور یہ کارروائیاں عورتوں اور مردوں کے ساتھ بلا امتیاز جاری تھیں۔
چند روز قبل بینکوں کی نجی فورسز نے قرض ادا نہ کرسکنے والے ایک نوجوان کے گھر میں گھس کر وہاں رہنے والوں کو ہراساں کیا جس کے بعد نوجوان نے خود کشی کرلی۔