بینگن، بوتل، چارپائی، کس نشان پر مہر لگائیں؟ ووٹرز مخمصے میں
8 فروری 2024
پاکستان میں آج جمعرات آٹھ فروری کو صبح سے ہی عوام اپنے حق رائے دہی کے استعمال کے لیے کشیدہ ماحول اور طرح طرح کی رکاوٹوں کے باوجود اپنے اپنے گھروں سے باہر نکلے۔ پاکستانی باشندے ملک میں جمہوری نظام کے تحت بہتر مستقبل کی امید کا دامن تھامے، پولنگ اسٹیشنز کی طرف رواں دواں ہیں۔پاکستانیوں کو یقین ہے کہ ان کے ووٹ اہم ہیں اور اپنے ووٹوں کے استعمال سے وہ ملک و قوم کا مستقبل بہتر بنا سکیں گے۔
اولین ووٹ ڈالنے والے پاکستانی
22 سالہ نفسیات کی طالبہ حلیمہ شفیق دارالحکومت اسلام آباد میں سب سے پہلے ووٹ ڈالنے والوں میں شامل ہیں۔ ان کا کہنا ہے، ''میں جمہوریت پر یقین رکھتی ہوں اور مجھے لگتا ہے کہ میرا ووٹ اہمیت کا حامل ہے۔‘‘ حلیمہ نے اسلام آباد کے پولنگ اسٹیشن کے اندر خبر رساں ایجنسی اے ایف پی کے ساتھ بات چیت کرتے ہوئے مزید کہا، ''میں نے اپنا ووٹ کاسٹ کیا کیونکہ یہ میرا فرض ہے۔ میری خواہش ہے کہ ایک مستحق جماعت اقتدار میں آئے۔‘‘
پولنگ کا آغاز جمعرات کی صبح آٹھ بجے ہوا۔ اس بار 128 ملین اہل ووٹرز اپنا حق رائے دہی استعمال کر سکتے ہیں۔ دارالحکومت اسلام آباد میں نور پور شاہان گرلز اسکول میں سب سے پہلے ووٹرز قطاروں میں نظر آئے جنہوں نے باری باری ان پولنگ بوتھس میں جا کر اپنی پسند کے امیدوار کے انتخابی نشان پر مہر اور اپنی انگلیوں پر سیاہی لگوائی۔ اطلاعات کے مطابق ابتدائی ووٹروں کی تعداد اسٹیشن پر تعینات ایک درجن کے قریب مسلح سکیورٹی اہلکاروں سے زیادہ تھی۔
نفسیات کی طالبہ حلیمہ شفیق نے کہا، ''میں ایک ایسی حکومت چاہتی ہوں جو پاکستان کو لڑکیوں کے لیے محفوظ بنا سکے۔‘‘
یاد رہے پاکستان میں الیکشن کے انعقاد سے ایک روز قبل یعنی ُبدھ کو جنوب مغربی علاقے میں دو امیدواروں کے دفاتر کے باہر ہونے والے یکے بعد دیگرے خونریز بم دھماکوں کی ذمہ داری اسلامک اسٹیٹ گروپ نے قبول کی تھی۔ دہشت گردی کے ان تازہ واقعات میں کم از کم 28 افراد ہلاک اور درجنوں زخمی ہوئے تھے۔
کم ٹرن آؤٹ کی پیش گوئی
پاکستان میں گزشتہ چند مہینوں کے دوران ملک کی سب سے بڑی سیاسی جماعت پاکستان تحریک انصاف اور اُس کے قائد سمیت پارٹی کے تمام سرکردہ اراکین اور پی ٹی آئی کے حامیوں کے خلاف فوج اور اسٹیبلشمنٹ کے سخت ترین کریک ڈاؤن کے پس منظر میں تجزیہ کاروں کا ماننا ہے کہ الیکشن ٹرن آؤٹ کم ہوگا۔ تاہم تحریک انصاف سوشل میڈیا کے ذریعے اپنی انتخابی مہم چلاتی رہی ہے۔
ایک چالیس سالہ ڈرائیور کا جو پی ٹی آئی کے لیڈر اور عوام میں مقبول ترین شخصیت عمران خان کا ہم نام ہے، کہنا ہے، ''کیاالیکشن اس طرح کرائے جانے چاہییں۔‘‘ ڈرائیور عمران خان کے بقول،'' ہر کسی کو اپنی مرضی کے مطابق ووٹ ڈالنے کا حق ہونا چاہیے۔ آج گھر میں رہنے کا دن نہیں ہے۔ جو لوگ آج گھر بیٹھنے کا انتخاب کریں گے وہ اپنے ساتھ ناانصافی کریں گے۔‘‘
الیکشن مانیٹرز کا کہنا ہے کہ پی ٹی آئی کے ساتھ سلوک ''پری پول دھاندلی‘‘ کے مترادف ہے، اور پارٹی نے اس خدشے کا اظہار کیا ہے کہ ووٹرز کو پولنگ اسٹیشنوں پر رکاوٹوں اور مداخلت کا سامنا کرنا پڑے گا۔
سب سے زیادہ اعتراضات اس پر کیے جا رہے ہیں کہ سپریم کورٹ کے ایک فیصلے نے پی ٹی آئی سے اُس کے انتخابی نشان ''کرکٹ بیٹ یا بلے‘‘ کے استعمال کا حق چھین لیا، جو کرشماتی کرکٹر عمران خان کے اسپورٹس کیریئر کی طرف اشارہ تھا۔ یہ اقدام ایک ایسی قوم کو ووٹ کے حق کا اپنی مرضی کے استعمال سے محروم کرنے کے مترادف ہے جس میں تقریباً 40 فیصد بالغ افراد ناخواندہ ہیں۔ کیونکہ بیلٹ پیپرز میں مختلف پارٹیوں سے وابستہ علامتیں دکھائی دے رہی ہیں، اور بہت سے ناخواندہ ووٹرز اس مخمصے کا شکار ہیں کہ ان کی پسند کے امیدوار کا اصل انتخابی نشان کیا ہے۔
پی ٹی آئی کی حکمت عملی
سپریم کورٹ کے اس فیصلے کے بعد پی ٹی آئی کے امیدوار آزاد امیدوار کے طور پر بیلٹ پیپرز پر بینگن سے لے کر بوتلوں اور بستروں تک کے نشانات کے ساتھ انتخاب لڑ رہے ہیں۔ تجزیہ کاروں نے کہا ہے کہ پی ٹی آئی کو ان کے ووٹر بیس سے منقطع کرنے کے لیے یہ ایک اور رکاوٹ ہے۔
جمعرات کی صبح اور پولنگ کھلنے کے کئی گھنٹوں پہلے ہی سے ووٹروں کے ہجوم میں مسلسل اضافہ ہوتا گیا۔
39 سالہ سید تصور نے کہا، ''میں اپنا ووٹ ڈالنے کے لیے 20 منٹ پہلے پہنچا کیونکہ مجھے یقین ہے کہ میرا ووٹ اہمیت رکھتا ہے لیکن میرا خوف صرف یہ ہے کہ کیا میرا ووٹ اسی پارٹی کے لیے شمار کیا جائے گا جس کے لیے میں نے اسے ڈالا ہے۔‘‘
تعمیراتی کام کرنے والے اس مزدور کا مزید کہنا تھا، ''ہمیں ایک ایسی حکومت کی ضرورت ہے جو مہنگائی کو کنٹرول کر سکے، یہی وہ چیز ہے جو ہم جیسے لوگوں کے لیے اہم ہے۔‘‘
21 سالہ زینب اصغر پہلی بار اپنے ووٹ کا حق استعمال کر رہی ہیں۔ وہ کہتی ہیں، ''ہمیں نئی حکومت سے بہت زیادہ توقعات ہیں کہ وہ ہمارے حالات کو بہتر بنائے گی۔‘‘ زینب کے بقول،''ہر ایک ووٹ اہمیت رکھتا ہے۔‘‘
آج جمعرات کو منعقد ہونے والے انتخابات میں جو بھی جیتے گا اُسے بڑے بڑے چیلنجز کا سامنا ہوگا۔ اُسے ایک منقسم ملک اور قوم کو سنبھالنا ہوگا، جس کی معیشت تباہ حال ہے۔ تیزی سے بڑھتی ہوئی مہنگائی، روپے کی گرتی ہوئی قدر اور ادائیگیوں کے توازن کا بحران، یہ اور بہت کچھ آنے والے حکمرانوں کے لیے بڑے امتحان کا سبب بنے گا۔
ک م/ا ب ا (اے ایف پی)