فلسطینی صدر محمود عباس کا تین روزہ دورہ پاکستان
31 جنوری 2017فلسطینی صدر محمود عباس کے ساتھ مشترکہ پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے پاکستانی وزیرِ اعظم نے کہا مسئلہ فلسطین کے حل کے بغیر مشرق وسطیٰ میں امن کے قیام کو یقینی نہیں بنایا جا سکتا۔ انہوں نے فلسطین کے حوالے سے سلامتی کونسل کی قراردادوں پر عمل درآمد کرانے پر زور دیتے ہوئے مطالبہ کیا کہ اسرائیل مقبوضہ علاقے خالی کرے۔
اس موقع پر محمود عباس نے کہا کہ انہوں نے وزیرِ اعظم نواز شریف کو مشرق وسطی کی تازہ صورتِ حال بشمول یہودی آبادکاری اور امریکی سفارت خانے کی یروشلم منتقلی کے امریکی فیصلے سے آگاہ کیا ہے۔ فلسطینی صدر نے کہا کہ انہوں نے علاقائی صورت حال اور دہشت گردی جیسے مسائل پر بھی وزیرِ اعظم سے بات چیت کی ہے۔
واضح رہے فلسطین کے صدر محمود عباس تین روزہ دورے پر پیر 30 جنوری کی رات پاکستان پہنچے تھے۔ نورخان ائیر بیس پر ان کو پاکستان کے صدر ممنون حسین نے خوش آمدید کہا۔ فلطسینی صدرکے ساتھ سترہ رکنی وفد بھی پاکستان کا دورہ کر رہا ہے، جس میں پانچ فلسطینی وزراء بھی شامل ہیں۔ فلسطینی صدر کا یہ پاکستان کا تیسرا دورہ ہے، اس سے پہلے انہوں نے دوہزار پانچ اور دوہزار تیرہ میں پاکستان کا دورہ کیا تھا۔
اس دورے کی اہمیت پر بات چیت کرتے ہوئے، فلسطینی سفیر برائے پاکستان ولید ابو علی نے ڈوئچے ویلے کو بتایا، ’’پاکستان نے مسئلہ فلسطین کو ہر سطح پر اٹھایا ہے۔ حال ہی میں پاکستانی وزیرِ اعظم نے اس مسئلے کو اقوام متحدہ میں اٹھایا۔ پاکستان کے سابق آرمی چیف راحیل شریف نے ورلڈ اکنامک فورم کے سامنے اس مسئلے کا تذکرہ کیا۔ پاکستان اسلامی دنیا کا دوسرا بڑا ملک ہے۔ اس کی حیثیت خطے میں بھی اہم ہے اور بین الاقوامی طور پر بھی یہ اہمیت کا حامل ہے۔ اس لیے مسئلہ فلسطین پر پاکستان کی حمایت ہمارے لیے بہت اہم ہے۔ اس دورے سے دونوں برادر ممالک میں تعلقات مزید مضبوط ہوں گے۔‘‘
فلسطین فاؤنڈیشن پاکستان کے سیکریڑی جنرل صابر ابو مریم نے ڈوئچے ویلے کو بتایا، ’’یہ دورہ ایک ایسے وقت میں ہورہا ہے، جب اسرائیل یروشلم کی تاریخی حیثیت کو تبدیل کرنے کی کوشش کر رہا ہے اور وہاں پر امریکی سفارت خانے کی منتقلی کی بات کی جارہی ہے۔ اس مسئلے پر محمود عباس نے مختلف فلسطینی جماعتوں سے بھی بات چیت کی ہے اور اب وہ بین الاقوامی حمایت حاصل کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ دورہ پاکستان اسی سلسلے کی ایک کڑی ہے۔ پاکستان ایک جوہری ملک ہے۔ وہ چین، سعودی عرب، ایران اور او آئی سی سے مل کر اس اسرائیلی منصوبے کے خلاف عالمی برادری کو متحرک کر سکتا ہے۔ دنیا کے کئی ممالک میں پہلے ہی اس مسئلے پر فلسطینیوں کے لیے حمایت پائی جاتی ہے۔ پاکستان اور دوسرے ممالک کی حمایت سے فلسطین کو مزید فائدہ ہوگا۔‘‘
ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا، ’’فلسطین فاؤنڈیشن دو ریاستی نظریے پر یقین نہیں رکھتی۔ ہم سمجھتے ہیں کہ فلسطین صرف فلسطینیوں کا ہے۔ یورپ اور دنیا کے دوسرے حصوں سے لا کر غیر فلسطینیوں کو یہاں بسایا گیا ہے، جن کا اس زمین پر کوئی حق نہیں۔ ہمارے خیال میں جب امن ہوجائے گا تو ان غیر مقامی لوگوں کے فلسطین میں رہنے یا نہ رہنے کا فیصلہ فلسطین کی عوام ریفرنڈم کے ذریعے کریں گے۔ بد قسمتی سے پاکستان میں بھی کئی تنظیمیں اس دو ریاستی نظریے کا پرچار کرتی ہیں۔ یہاں تک کہ کچھ اراکین اسمبلی بھی اس نظریے کے حامی ہیں، جو فلسطینیوں کے مفادات کے خلاف ہے۔‘‘
داؤد یونیورسٹی آف انجینئرنگ اینڈ ٹیکنالوجی، کراچی میں زیر تعلیم فلسطینی طالبِ علم قوسے ابراہیم امرو نے ڈوئچے ویلے کو اپنے تاثرات دیتے ہوئے بتایا، ’’اسرائیل فلسطینیوں کو پوری دنیا میں بدنام کر رہا ہے۔ وہ ان کو دہشت گرد بنا کر پیش کر رہا ہے۔ اس طرح کے دوروں سے اس اسرائیلی پراپیگنڈے کا مقابلہ کیا جا سکتا ہے اور دنیا کو اسرائیلی مظالم سے آگاہ کیا جا سکتا ہے۔‘‘
اسی یونیورسٹی کے محمود شاکر الزازا نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ’’پاکستان نے فلسطینی طالبِ علموں کے ساتھ پہلے ہی بہت مہربانیاں کیں ہیں اور میں سمجھتا ہوں کہ محمود عباس کو یہ درخواست کرنا چاہیے کہ پاکستان مذید مستحق فلسطینی طلباء کو وظائف دے۔ پاکستان میں پندرہ سو فلسطینی طلباء تعلیم حاصل کر رہے ہیں۔ کئی طالبِ علموں نے یہاں سے ماسڑز کرنے کے بعد اعلیٰ تعلیم کے لیے دوسرے ممالک کا رخ کیا ہے۔ اگر پاکستان اسکالرشپ کی پیشکش کرے گا تو کئی فلسطینی طلباء اس سے مستفیض ہوں گے۔‘‘