بین الاقوامی خلائی اسٹیشن سے تین خلابازوں کی زمین پر واپسی
10 نومبر 2014انٹرنیشنل اسپیس اسٹیشن کے اکتالیسویں مشن میں شریک خلا بازوں کی ٹیم کے لیڈر روسی خلا باز میکسم سُورائیف تھے۔ دوسرے دو خلا باز امریکا کے رِیڈ وائزمین اور یورپی خلا باز الگیزانڈر گیرسٹ تھے۔ گیرسٹ کا تعلق جرمنی سے ہے۔ یہ خلا باز اتوار اور پیر کی درمیانی شب روسی خلائی ادارے کے ایک تین ٹن وزنی کیپسیول سویُوز میں سوار ہو کر زمین پر بحفاظت پہنچے۔ تینوں خلا بازوں نے کُل 165 ایام اکٹھے بین الاقوامی خلائی اسٹیشن پر گزارے۔
ناسا کے مطابق تینوں خلا بازوں نے خلا میں مجموعی طور پر 70 ملین میل یا 112 ملین کلومیٹرز سے زائد کا فاصلہ طے کیا۔ خلائی اسٹیشن پر قیام کے دوران جولائی کے مہینے میں خلا بازوں نے مختلف سائنسی تحقیقی پراجیکٹس کی تکمیل کے لیے ایک ہفتے کے دوران بیاسی گھنٹے کھلے خلائی ماحول میں گزار کر ایک نیا ریکارڈ قائم کیا تھا۔ خلائی اسٹیشن پر قیام کے دوران تینوں خلاباز سائنسی ریسرچ کے پہلے سے جاری کئی جدید پراجیکٹس میں بھی شریک ہوئے۔ ان میں زمین کی سطح پر ہونے والی نقل و حرکت کے باریک ترین مشاہدے سے لے کر مستقبل کے لیے انتہائی جدید آلات کی تیاری اور انسانی بدن کی ہڈیوں اور عُضلات پر مرتب ہونے والے مجموعی زمینی ماحول کے اثرات تک مختلف منصوبے شامل ہیں۔
انٹرنیشنل اسپیس اسٹیشن کے اکتالیسویں مشن کے دوران خلابازوں نے ایک کلیدی سائنسی ریسرچ پر خاص طور پر توجہ مرکوز کی، جس کا مقصد خلا میں طویل سفر کے دوران انسانی جسم اور صحت میں آنے والی ممکنہ تبدیلیوں اور عوارض کا پتہ چلانا اور یہ دیکھنا تھا کہ خلائی سفر کے دوران انسانی صحت کو ممکنہ طور پر کس طرح کی پیچیدگیوں سے واسطہ پڑ سکتا ہے۔ اِس ریسرچ کا براہِ راست تعلق اگلے برس یعنی سن 2015 سے خلائی اسٹیشن ISS پر خلابازوں کے قیام کی مدت ایک سال کرنے سے ہے۔ خلائی اسٹیشن پر قیام کے دوران تینوں خلابازوں نے زمین سے پانچ کارگو خلائی جہاز بھی وصول بھی کیے۔ اِن جہازوں پر کئی ٹن وزنی سامان روانہ کیا گیا تھا۔ جولائی میں ایک یورپی خود کار گاڑی بھی روانہ کی گئی۔ یہ خود کار ٹرانسفر وہیکل بیلجیئم کے ماہرِ طبیعیات جورج لیمیٹ (Georges Lemaitre) کی ریسرچ کا نتیجہ ہے۔ جورج لیمیٹ کو تخلیقِ کائنات سے متعلق بِگ بینگ نظریے کا خالق تصور کیا جاتا ہے۔
قزاقستان کے ارکیلِک شہر کے شمال مشرق کے ایک بنجر مقام پر اترنے والے خلابازوں نے زمین پر واپسی پر مسرت کا اظہار کیا۔ اترتے وقت روسی خلاباز سُورائیف نے وکٹری کا نشان بنایا تو امریکی خلاباز وائزمین نے فضا میں مُکا لہرا کر اپنی کامیابی کا اظہار کیا۔ اِس موقع پر خلابازوں کی ٹیم کے روسی سربراہ سورائیف نے بتایا کہ خلائی اسٹیشن پر قیام کے دوران انہوں نے ایک دوسرے کے ساتھ بھرپور تعاون سے وقت گزرا اور یہی بہت اہم تھا۔ اُن کا مزید کہنا تھا کہ تینوں خلا باز تعاون کے جذبے سے سرشار تھے اور اگلی خلاباز ٹیموں کو بھی اسی انداز میں کام کرنا ہو گا۔ روسی خلاباز کا یہ دوسرا خلائی سفر تھا۔ خلائی اسٹیشن پر اِس وقت تین خلا باز موجود ہیں اور تین مزید خلا باز 23 نومبر کو روانہ کیے جائیں گے۔ خلائی اسٹیشن پر جاری تحقیقی پراجیکٹس میں پندرہ مختلف ممالک شریک ہیں۔
واضح رہے کہ امریکی خلائی ادارے ناسا کا خلائی شٹلز کا پروگرام تیس سال تک چلنے کے بعد 2011ء سے اختتام کو پہنچ چکا ہے۔ اب یہ ادارہ آئی ایس ایس تک پہنچنے کے لیے نجی کمپنیوں کو مالی وسائل فراہم کر رہا ہے۔ جب تک امریکا خود کوئی متبادل طریقہ تلاش نہیں کر لیتا تب تک امریکی اور یورپی خلائی ایجنسیوں کو روسی سویُوز خلائی جہازوں پر انحصار کرنا پڑ رہا ہے، جہاں اُنہیں فی نشست ستر ملین ڈالر ادا کرنا پڑتے ہیں۔