بین الاقوامی فوج داری عدالت نے میانمار میں روہنگیا مسلمانوں کے خلاف ہونے والے جرائم کی عبوری تحقیقات کا آغاز کر دیا ہے۔ اقوام متحدہ نے میانمار کے اعلیٰ فوجی عہدیداروں کے خلاف مقدمہ چلانے کا مطالبہ بھی کیا ہے۔
اشتہار
ہالینڈ میں قائم بین الاقوامی فوج داری عدالت کی جانب سے کہا گیا ہے کہ ابتدائی طور پر روہنگیا مسلمانوں کے خلاف کریک ڈاؤن، ملک بدری اور اس سے متعلق امور کی بابت شواہد اور ثبوت جمع کیے جائیں گے، جب کہ اس کے بعد اس معاملے کی مکمل تفتیش شروع کر دی جائے گی۔ گزشتہ برس اگست میں میانمار کی ریاست راکھین میں روہنگیا کے خلاف شروع کیے جانے والے فوجی آپریشن کے بعد قریب سات لاکھ روہنگیا مسلمانوں نے سرحد عبور کر کے بنگہ دیش میں پناہ لی تھی اور یہ لاکھوں افراد اب بھی بنگلہ دیش کے مخلف مقامات پر قائم کچی بستیوں اور مہاجر کیمپوں میں انتہائی کسمپرسی کی زندگی گزار رہے ہیں۔
عالمی فوج داری عدالت کی چیف پراسیکیوٹر فاتو بنسودہ نے منگل کے روز اپنے ایک ویڈیو پیغام میں کہا کہ وہ ان رپورٹوں کا جائزہ لے رہی ہیں، جن کے مطابق ’’ایسے مشتبہ واقعات پیش آئے ہیں، ممکنہ طور پر جن کی وجہ سے روہنگیا افراد کو گھربار چھوڑنا پڑا۔ اس طرح روہنگیا افراد کے بنیادی انسانی حقوق کی خلاف ورزی کی گئی جب کہ ان کے قتل، جنسی زیادتی، تشدد، جبری گم شدگی، مکانات کی تباہی اور لوٹ مار جیسے اقدامات کے الزامات کی تفتیش کی جانا ہے۔‘‘
واضح رہے کہ میانمار کی فوج پر الزام ہے کہ اس کے انتہائی سفاک کریک ڈاؤن کی وجہ سے سات لاکھ سے زائد روہنگیا باشندے سرحد عبور کر کے بنگلہ دیش ہجرت پر مجبور ہوئے۔
میانمار: روہنگیا مسلمانوں کی جگہ نئے لوگوں کی آبادکاری
میانمار میں فوجی کارروائیوں کے باعث لاکھوں روہنگیا اپنے دیہات چھوڑ کر پناہ کے لیے بنگلہ دیش کا رخ کرنے پر مجبور ہوئے۔ ان کے جانے کے بعد اب وہاں نئے لوگوں کو آباد کیا جا رہا ہے۔
تصویر: Getty Images/AFP/M. Uz Zaman
’ماڈل ولیج ‘کی تعمیر
وہ علاقے جہاں بحالی کا کام کیا جا رہا ہے، وہاں اب بدھ مت مذہب سے تعلق رکھنے والوں کی اکثریت ہے۔ اس علاقے کو ماڈل ولیج کی طرز پر بنایا جا رہا ہے۔ میانمار کی حکومت مسلمانوں کے خلاف کی جانے والی کارروائیوں کی تردید کرتے ہوئے کہتی ہے کہ اس علاقے کو خالی اس لیے کروایا گیا تاکہ یہاں نئی آبادکاریاں کی جائیں۔ اس کے تحت وہاں بہتر سڑکوں اور نئے گھروں کی تعمیر کی جا رہی ہے۔
تصویر: Getty Images/AFP/P. H. Kyaw
نئے لوگوں کی آمد
ملک کے دیگر علاقوں سے یہاں آنے والوں رہائش کی اجازت ہے۔ تاہم یہاں آ کر بسنے والوں کی تعداد نہ صرف انتہائی کم ہے بلکہ اکثریت کا تعلق ملک کے جنوبی علاقوں سے آئے انتہائی غریب طبقے سے ہے۔
تصویر: Getty Images/AFP/P. H. Kyaw
عوام میں خوف
یہاں آکر بسنے والے لوگوں نے اس علاقے سے نئی زندگی کی کئی امیدیں وابستہ کر رکھی ہیں تاہم انہیں یہاں بحالی سے قبل رہنے والوں کی واپسی کا خوف بھی ہے۔ اب تک سات لاکھ روہنگیا ان علاقوں سے بنگلہ دیش ہجرت کر چکے ہیں۔
تصویر: Getty Images/AFP/P. H. Kyaw
غیر مسلم علاقہ
راکھین کی تعمیر نو کے لیے ایک ضمنی کمیٹی CRR بنائی گئی ہے۔ یہ ایک پرائیویٹ پلان ہے اور اس کمیٹی کے مقامی رہنما کے مطابق اس پلان کے تحت آباد کیے جانے والے علاقوں کو صرف غیر مسلموں کے لیے تیار کیا جا رہا ہے۔
تصویر: Getty Images/AFP/P. H. Kyaw
آبادکاری کے لیے فنڈنگ
راکھین کے پارلیمانی ممبر کے مطابق یہ علاقہ اب سے قبل صرف مسلمانوں کے زیر اثر تھا۔ لیکن اب ان کے جانے کے بعد یہاں دوسرے مذہب کے پیروکاروں کو جگہ دی جائے گی۔ یہاں نئے گھر بنانے اور لوگوں کو بسانے کے لیے راکھین کی تعمیر نو کے لیے قائم کردہ ضمنی کمیٹی فنڈ جمع کر رہی ہے۔
تصویر: Getty Images/AFP/P. H. Kyaw
64 خاندانوں کی آبادکاری
اب تک راکھین کی تعمیر نو کے لیے قائم کردہ ضمنی کمیٹی CRR کی جانب سے 64 خاندانوں کے 250 افراد کو یہاں آباد ہونے کی اجازت دی گئی ہے۔ جبکہ دو سو افراد نے یہاں بسنے کی خواہش ظاہر کی ہے جن کے نام ابھی ویٹنگ لسٹ میں درج ہیں۔ ان افراد میں زیادہ تر روزانہ کی بنیاد پر کام کرنے والے مزدور اور انتہائی غربت میں زندگی بسر کرنے والے ہیں۔
تصویر: Getty Images/AFP/P. H. Kyaw
6 تصاویر1 | 6
اس معاملے کی عبوری تفتیش کا آغاز ایک ایسے موقع پر کیا جا رہا ہے، جب فقط دو ہفتے قبل اس عالمی عدالت کے ججوں نے پراسیکیوٹر کو بنسودا کو اجازت دی تھی کہ وہ میانمار کے معاملے کی تفتیش کرے۔ یہ بات اہم ہے کہ میانمار ’معاہدہ روم‘ کا دستخط کنندہ نہیں ہے، جس کے تحت اس عالمی عدالت کا قیام عمل میں آیا تھا۔ عالمی عدالت کا تاہم کہنا تھا کہ چوں کہ اس معاملے میں سرحد عبور کر کے روہنگیا افراد اس ملک میں داخل ہوئے، جو عالمی عدالت کا حصہ ہے، اس لیے اس معاملے کی تفتیش کی جا سکتی ہے۔