بین الاقوامی پولیس انٹرپول کے سربراہ ہی لاپتہ ہو گئے
5 اکتوبر 2018
فرانسیسی پولیس نے انٹرپول کے بظاہر لاپتہ ہو جانے والے سربراہ مَینگ ہونگ وے کے بارے میں اپنی چھان بین شروع کر دی ہے۔ ہونگ وے کی اہلیہ نے پولیس کو بتایا تھا کہ وہ ستمبر کے اواخر میں چین جانے کے بعد سے لاپتہ ہیں۔
اشتہار
خبر رساں ادارے روئٹرز کی جمعہ پانچ اکتوبر کو ملنے والی رپورٹوں کے مطابق فرانسیسی پولیس نے اس بارے میں اپنی باقاعدہ تفتیش شروع کر دی ہے کہ بین الاقوامی پولیس تنظیم کے یہ سربراہ اس وقت کہاں اور کن حالات میں ہیں۔ فرانسیسی پولیس نے خود بھی اس تفتیشی عمل کے آغاز کی تصدیق کر دی ہے۔
مَینگ ہونگ وے ایک چینی شہری ہیں، جنہیں 2016ء میں انٹرپول کا سربراہ منتخب کیا گیا تھا۔ ان کی اہلیہ نے فرانسیسی پولیس کو بتایا کہ وہ ستمبر کے اواخر میں چین گئے تھے، لیکن اس سفر پر روانگی کے بعد سے ان کی کوئی خبر نہیں ملی۔
اس بارے میں جب ڈوئچے ویلے نے انٹرپول سے رابطہ کیا، تو انٹرنیشنل پولیس کی طرف سے بتایا گیا، ’’انٹرپول ان رپورٹوں سے باخبر ہے، جن میں اس کے سربراہ مَینگ ہونگ وے کی مبینہ گمشدگی کا ذکر کیا گیا ہے۔
بعد ازاں جمعے کے روز انٹرپول کے جاری کردہ ایک بیان میں کہا گیا، ’’یہ معاملہ اب فرانس اور چین میں متعلقہ حکام کے دائرہ عمل میں آتا ہے۔‘‘ ساتھ ہی یہ بھی کہا گیا کہ مَینگ ہونگ وے کی مبینہ گمشدگی سے انٹرپول کی معمول کی کارکردگی اس لیے متاثر نہیں ہوئی کہ اس ادارے کے روزمرہ آپریشنز کی سربراہی اس کے صدر نہیں بلکہ سیکرٹری جنرل کرتے ہیں۔ انٹرپول کے موجودہ سیکرٹری جنرل جرمنی کے ژُرگن شٹَوک ہیں۔
انٹرپول کے پہلے چینی سربراہ
انٹرپول کے صدر دفاتر وسطی فرانس کے شہر لِیوں میں ہیں اور مَینگ ہونگ وے اس ادارے کے پہلے چینی سربراہ ہیں۔ وہ اس عہدے پر اپنے انتخاب سے قبل چین میں عوامی سلامتی کے نائب وزیر تھے۔ مَینگ ہونگ وے سے قبل فرانس کے ایک اعلیٰ پولیس اہلکار انٹرپول کے سربراہ تھے۔
چین کی ہوئی یا خُوذُو مسلم اقلیت
چین میں ایغور مسلم کمیونٹی کے علاوہ شمال مغربی چین میں خُوذُو مسلم اقلیت بھی آباد ہے۔ ان کی آبادی ایک کروڑ سے زائد ہے۔ یہ زیادہ تر ننگ شا، گانسُو اور چنگ ہائی علاقوں میں آباد ہیں۔
تصویر: Getty Images/J. Eisele
خوذو مسلمانوں کا شہر لِنشیا، چھوٹا مکہ
ہُوئی یا خُوذُو مسلمان اکثریتی شہر لِنشیا کو ’چھوٹا مکہ‘ کے نام سے چین میں شہرت حاصل ہے۔ اس شہر میں چھوٹی بڑی 80 مساجد واقع ہے۔ یہ شہر دریائے ڈاشیا کے کنارے پر آباد ہے۔ ایغور مسلم دانشور خُوذُو مسلم کمیونٹی کو چین کی ہان نسل کے مسلمان قرار دیتے ہیں۔
تصویر: Getty Images/J. Eisele
لِنشیا میں عورتیں سر پر سکارف پہنتی ہیں
خوذو مسلم خواتین خاصی متحرک اور فعال تصور کی جاتی ہیں۔ بڑی عمر کی عورتوں میں سفید اسکارف پہننا عام طور پر دیکھا گیا ہے۔ ان کا اسکارف چینی انداز کا ہوتا ہے۔ اب کئی نوجوان لڑکیوں میں ایسے جدید پہناوے پسند کیے جاتے ہیں، جن سے برہنگی ظاہر نہ ہو۔
تصویر: Getty Images/J. Eisele
لِنشیا: سبز گنبدوں والا شہر
گانسو صوبے کا شہر لِنشیا ڈھائی لاکھ سے زائد آبادی کا شہر ہے۔ اس کی اکثریتی آبادی چینی زبان بولنے والے خُوذُو مسلمانوں پر مشتمل ہے۔ اس شہر کی مساجد ہر جمعے کے دن نمازیوں سے بھری ہوتی ہیں۔
تصویر: Getty Images/J. Eisele
نوجوان لڑکیوں کے لیے قرآنی تعلیم کا سلسلہ
خُوذُو مسلمان کمیونٹی اپنی مساجد میں خاص طور پر مذہبی کتاب قرآن کی تعلیم کا سلسلہ جاری رکھے ہوئے ہے۔ ان مساجد میں نوعمر لڑکیوں کو بھی قرآن پڑھایا جاتا ہے۔
تصویر: picture-alliance/AP Photo/A. Wong
خوذو مسلمان
چین میں دس بڑے نسلی گروپوں میں خوذو یا ہوئی مسلمان بھی شمار ہوتے ہیں۔ یہ زیادہ تر چین کے اقتصادی طور پر کمزو علاقے میں آباد ہیں۔ اس علاقے میں تعلیم بھی اتنی عام نہیں جتنی بقیہ چینی شہروں میں ہے۔ یہ ایغور نسل کے مسلمان نہیں تصور کیے جاتے۔ تصویر میں ایک قصبےوُوہژونگ کی مسجد میں شام کی نماز ادا کی جا رہی ہے۔
تصویر: picture-alliance/dpa/O. Weiken
خواتین میں دینی شعار کا شوق
نوجوان لڑکیاں مختلف رنگوں کے اسکارف پہنتی ہیں۔ مساجد میں پہنچ پر قرآن کی تلاوت کرنا بھی خُوذُو یا ہُوئی خواتین کو پسند ہے۔
تصویر: picture-alliance/dpa/M. Reynolds
چینی صدر کا خُوذُو مسلمانوں کی مسجد کا دورہ
چین کے صدر شی جن پنگ نے سن 2016 میں نِنگ شا کے علاقے یِن چوان کی ایک مسجد کا دورہ کیا تھا۔ مسجد میں پہنچ کر انہوں نے مقامی ہُوئی مسلمانوں سے ملاقات کے ساتھ ساتھ اُن کے عمومی مسائل پر گفتگو کی۔ چینی صدر تین دن تک نِنگ شا میں مقیم رہے تھے۔
تصویر: picture-alliance/ZUMA Press/J. Peng
نِنگ شا کا نیم خود مختار علاقہ
چین کے شمال مغرب میں واقع ننگ شا کے نیم خود مختار علاقے کا فضائی منظر۔ یہ علاقہ پہاڑوں میں گھِرا ہوا ہے اور چین کے پسماندہ علاقوں میں شمار کیا جاتا ہے۔ اس علاقے کی زمینیں بنجر ہیں اور قحط سالی بھی چلتی رہتی ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ شرح بیروزگاری بھی معمول سے زیادہ رہی ہے۔ حالیہ کچھ عرصے میں بیجنگ حکومت نے اس علاقے پر توجہ مرکوز کی ہے اور اب واضح معاشی تبدیلیاں ظاہر ہونا شروع ہو گئی ہیں۔
تصویر: picture alliance/Xinhua News Agency
8 تصاویر1 | 8
انٹرپول کے سربراہ کے طور پر ہونگ وے کے انتخاب کے وقت ایمنسٹی انٹرنیشنل سمیت انسانی حقوق کے لیے سرگرم کئی بین الاقوامی تنظیموں نے اس بارے میں اپنی تشویش کا اظہار بھی کیا تھا کہ یہ عہدہ کسی چینی شہری کے پاس ہونے کی وجہ سے بیجنگ حکومت بیرون ملک مقیم چینی مہاجرین اور سیاسی منحرفین کو اپنی گرفت میں لینے کی کوششیں کر سکتی ہے۔
مَینگ ہونگ وے ماضی میں چین کے انسداد منشیات کے قومی کمیشن کے نائب سربراہ اور بیجنگ میں انسداد دہشت گردی کے قومی مرکز کے ڈائریکٹر بھی رہ چکے ہیں۔
ہونگ وے چین کی حراست میں؟
ہانگ کانگ کے ایک اخبار نے ایک انتہائی قابل اعتبار ذریعے، جس کی شناخت ظاہر نہیں کی گئی، کا حوالہ دیتے ہوئے لکھا ہے کہ چین میں انٹرپول کے موجودہ سربراہ کو مبینہ پوچھ گچھ کے لیے چین کی ’ڈسپلن اتھارٹیز‘ کے اہلکار اپنے ساتھ لے گئے تھے۔ تاہم اس رپورٹ کی غیر جانبدار ذرائع سے تصدیق نہیں ہو سکی۔
چین میں ’ڈسپلن اتھارٹیز‘ کی اصطلاح عام طور پر حکمران کمیونسٹ پارٹی کے ان تفتیش کاروں کے لیے استعمال کی جاتی ہے، جو مبینہ رشوت، بدعنوانی اور کسی شہری کے ملکی کمیونسٹ پارٹی کے وفادار نہ رہنے جیسے امور کی چھان بین کرتے ہیں۔
م م / ع ب / ڈی ڈبلیو، روئٹرز، اے ایف پی
چین کو واپسی کے بعد کی ہانگ کانگ کی بیس سالہ تاریخ
ایک سو چھپن سال تک برطانیہ کی حکمرانی میں رہنے کے بعد ہانگ کانگ کو بیس سال قبل چین کو واپس سونپ دیا گیا تھا۔ ان دو عشروں کے دوران اس علاقے کی تاریخ میں مین لینڈ چین اور سارس کی وبا کے خلاف بے شمار احتجاجی مظاہرے ہوئے۔
تصویر: Reuters/B. Yip
سن انیس سو ستانوے، تاریخی لمحہ
برطانیہ سے عوامی جمہوریہ چین کو ہانگ کانگ کی واپسی یکم جولائی سن انیس سو ستانوے کو عمل میں آئی۔ اس کے بعد سے ہانگ کانگ میں’ایک ملک دو نظام‘ رائج ہے۔
تصویر: Reuters/D. Martinez
سن انیس سو نناوے، خاندان ایک نہیں ہو سکتے
ہانگ کانگ کی سرحد پر تقسیم ہو جانے والے خاندانوں کو امید تھی کہ چین حوالگی کے بعد وہ اپنے بچھڑے رشتہ داروں سے مل سکیں گے۔ تاہم اس ضمن میں یومیہ 150 چینیوں کا ہانگ کانگ میں بسنے کا کوٹا مختص کیا گیا اور بہت سے لوگ مایوس رہ گئے۔
تصویر: Reuters/B. Yip
سن دو ہزار دو، ریزہ ریزہ امیدیں
رہائش کا یہ مسئلہ سن 2002 میں دوبارہ اُسوقت بڑھا جب ہانگ کانگ نے چار ہزار کے قریب اُن چینیوں کو ڈی پورٹ کرنا شروع کیا جو وہاں رہنے کی قانونی لڑائی ہار گئے تھے۔ تصویر میں نظر آنے والے ان پریشان حال خاندانوں کو اُس پارک سے نکال دیا گیا تھا جہاں وہ احتجاج کر رہے تھے۔
تصویر: Reuters/K. Cheung
سارس کی عالمی وبا کی شروعات
سن دو ہزار تین میں انتہائی متعدی مرض سارس ہانگ کانگ سے پھیلا تھا۔ اس وائرس سے فلو جیسی کیفیت والی بیماری کو عالمی ادارہ صحت نے ’وبا‘ قرار دے دیا تھا۔ ہانگ کانگ میں اس بیماری سے قریب تین سو افراد ہلاک ہوئے تھے۔
تصویر: Reuters/B. Yip
سن دو ہزار چار، جمہوریت کے حق میں ریلی
چین کی ’ایک ملک دو نظام‘ کی پالیسی سے وہاں صورت حال اکثر کشیدہ رہی ہے۔ ہانگ کانگ کی چین حوالگی کی ساتویں سالگرہ کے موقع پر ہزار ہا افراد نے ہانگ کانگ میں احتجاجی مظاہرہ کیا۔ یہ افراد سیاسی اصلاحات، جمہوریت اور ہانگ کانگ کے آئندہ لیڈر کے چناؤ کے لیے براہ راست انتخابات کا مطالبہ کر رہے تھے۔
تصویر: Reuters/B. Yip
سن دو ہزار آٹھ، رہنے کا کوئی ٹھکانہ نہیں
ہانگ کانگ میں جائیداد کی بڑھتی ہوئی قیمتوں کے سبب گھروں کے کرائے بھی زیادہ ہو گئے۔ یہی وجہ ہے کہ بیشتر افراد کو نام نہاد’ کیج ہوم یا پنجرہ گھر‘ میں رہنا پڑتا تھا۔ سن دو ہزار آٹھ تک ایسا طرز رہائش ہانگ کانگ میں غیر معمولی بات نہیں تھی۔
تصویر: Reuters/V. Fraile
سن دو ہزار نو، تیانامن اسکوائر کی یاد میں
تیانامن اسکوائر میں سفاکانہ حکومتی کریک ڈاؤن کی بیسویں سالگرہ کے موقع پر ہانگ کانگ کے وکٹوریہ پارک میں بڑی تعداد میں ہانگ کانگ کے باشندوں نے جمع ہو کر موم بتیاں روشن کیں۔
تصویر: Reuters/A. Tam
سن دو ہزار چودہ، مزید خود مختاری کا مطالبہ
ستمبر سن دو ہزار چودہ میں مزید خودمختاری کے لیے کیے جانے والےمظاہروں نے دو ماہ تک ہانگ کانگ کو اپنی لپیٹ میں لیے رکھا۔ ان مظاہروں کو ’امبریلا ریوولوشَن‘ کا نام دیا گیا کیونکہ مظاہرین پولیس کی جانب سے مرچ کے اسپرے اور آنسو گیس سے بچنے کے لیے چھتریوں کا استعمال کرتے تھے۔
تصویر: Reuters/T. Siu
سن دو ہزار پندرہ، جب کھیل میں سیاسی رنگ آیا
’امبریلا ریوولوشن‘ کے ایک سال سے بھی کم عرصے میں چینی فٹ بال ٹیم نے 17 نومبر سن دو ہزار پندرہ کو ایک فٹ بال ورلڈ کپ کوالیفائنگ میچ ہانگ کانگ کے خلاف کھیلا۔ تاہم ہانگ کانگ میں ان کا دوستانہ خیر مقدم نہیں کیا گیا۔ جب چین کا قومی ترانا بجایا جا رہا تھا تو تماش بینوں نے ایسے پوسٹر اٹھا رکھے تھے جن پر تحریر تھا،’’ ہانگ کانگ چین نہیں ہے‘‘ یہ میچ صفر، صفر پر ختم ہو گیا۔
تصویر: Reuters/B. Yip
سن دو ہزار سولہ، تشدد کا ایک اور دور
سن دو ہزار سولہ میں ہانگ کانگ کی پولیس کی سخت گیر حکمت عملی ایک بار پھر شہ سرخیوں کی زینت بنی۔ ہانگ کانگ حکام نے پڑوسی ملک کے غیر قانونی خوانچہ فروشوں کے خلاف آپریشن شروع کیا۔ انتظامیہ نے مظاہرین سے نمٹنے کے لیے پولیس کو بھیجا جس نے اُن پر ڈنڈوں اور مرچوں والے اسپرے کا استعمال کیا۔ مظاہرین اور پولیس کے درمیان ہونے والا یہ تصادم کم خونریز نہیں تھا۔