بین الاقوامی کرکٹ کی بحالی پر بولرز کو زیادہ محنت کرنا ہو گی
23 مئی 2020
آئی سی سی نے کہا ہے کہ ٹیسٹ کرکٹ میں واپسی کی خاطر بولرز کو دو تا تین ماہ کی تربیت کی ضرورت ہو گی تاکہ وہ انجری کا شکار نہ ہوں۔ کورونا لاک ڈاؤن میں نرمی کے باعث بین الاقوامی کرکٹ کے شروع ہونے کے امکانات روشن ہو گئے ہیں۔
اشتہار
انٹرنیشنل کرکٹ کونسل (آئی سی سی) کی طرف سے کہا گیا ہے کہ کرکٹ کی منتظم اس بین الاقوامی باڈی کے تمام رکن ممالک، کھلاڑیوں بالخصوص بولرز کے لیے خصوصی میڈیکل ایڈوائزر یا بائیو سیفٹی اہلکار تعینات کریں تاکہ وہ بین الاقوامی کرکٹ کی بحالی پر غیر ضروری انجری کا شکار نہ ہوں۔
دبئی میں جمعے کو ہوئے اجلاس میں آئی سی سی نے واضح کیا کہ بالخصوص بولرز کو اپنی فٹنس پر زیادہ توجہ دینے کی ضرورت ہے۔
نئے کورونا وائرس کی عالمی وبا کے نتیجے میں مارچ سے کرکٹ بھی معطل ہے۔ اب اس وائرس کے پھیلاؤ میں کمی کے باعث امکانات ہیں کہ بین الاقوامی کرکٹ جلد ہی شروع ہو سکتی ہے۔ انگلش کھلاڑیوں نے پریکٹس شروع کر دی ہے۔ توقع ہے کہ انگلینڈ کی قومی ٹیم اس برس جولائی میں اپنے ہوم گراؤنڈز پر ویسٹ انڈیز کے ساتھ دو طرفہ سیریز پروگرام کے مطابق ہی کھیلے گی۔
پاکستانی قومی کرکٹ ٹیم نے بھی انگلینڈ کا دورہ کرنا ہے، جس دوران اگست میں تین ٹیسٹ میچ اور تین میچوں پر مبنی ٹی ٹوئنٹی سیریز کھیلی جائے گی۔ تاہم یہ تمام میچ خالی میدانوں میں بغیر تماشائیوں کے ہی کھیلے جائیں گے تاکہ کووڈ انیس کے پھیلاؤ کو روکا جا سکے۔ ایسے خدشات بھی ہیں کہ اس عالمی وبا کی وجہ سے ویسٹ انڈیز اور پاکستان کے دورہ انگلینڈ معطل کر دیے جائیں۔
بین الاقوامی کرکٹ کی بحالی کے تناظر میں آئی سی سی نے جمعے کے دن نئی گائیڈ لائنز جاری کی ہیں، جن میں واضح انداز میں کہا گیا ہے کہ بولرز بالخصوص فاسٹ بولرز کو زیادہ خیال برتنے کی ضرورت ہے۔ آئی سی سی کے مطابق پریکٹس میں نہ ہونے کے باعث خاص کر کے بولرز کے زخمی ہونے کے زیادہ امکانات ہوتے ہیں۔
آئی سی سی نے ان گائیڈ لائنز میں کہا ہے کہ پروفیشنل مقابلوں کی تیاری کے سلسلے میں ورزش میں احتیاط کی جائے اور تمام پروفیشنل کھلاڑی آٹھ تا بارہ ہفتوں تک ورزش اور پریکٹس کریں۔ ٹیسٹ کرکٹ کے لیے بولروں کو دو تا تین ماہ کی جامع تربیت کا مشورہ دیا گیا ہے جبکہ ایک روزہ اور ٹی ٹوئنٹی میچوں کی تیاری کے سلسلے میں بولروں کو چھ ہفتوں کی جامع پریکٹس کا کہا گیا ہے۔
آئی سی سی نے مزید کہا کہ آئندہ میچوں کے دوران بولر گیند کی شائن (چمک) کو برقرار رکھنے کی خاطر تھوک کا استعمال مت کریں۔ ریورس سوئنگ کی خاطر گیند کی ایک سائیڈ کو شائن کیا جاتا ہے جبکہ دوسرے حصے کو خراب ہونے دیا جاتا ہے۔ اس مقصد کی خاطر کرکٹ بال کے شائن کیے جانے والے حصے کو تھوک سے صاف کیا جاتا ہے۔ تاہم اب یہ عمل ممنوع قرار دے دیا گیا ہے۔
مزید کہا گیا ہے کہ کھلاڑی اور امپائر ایک دوسرے سے سماجی فاصلہ رکھیں گے جبکہ کھیل کے دوران غیر ضروری باڈی کانٹیکٹ سے باز رہا جائے گا۔ کہا گیا ہے کہ کورونا وائرس کے پھیلاؤ کو روکنے کے حوالے سے عوام کو اچھا پیغام دینے کی خاطر تمام کھلاڑی تمام تر ضروری احتیاطی تدابیر پر عمل پیرا بھی ہوں گے۔
ع ب / ش ح / روئٹرز
بلے بازوں کے چھکے چھڑا دینے والے گیند باز
کرکٹ کی دنیا میں سن 1990 کے دہائی سے لے کر اب تک سینکڑوں گیند بازوں نے بین الاقوامی کرکٹ کھیلی۔ تاہم ان میں چند ہی ایسے باؤلر تھے جو حریف بلے بازوں کے اعصاب پر سوار ہونے کی صلاحیت رکھتے تھے۔
تصویر: Getty Images/C. Mason
وسیم اکرم (1984 تا 2003)
چھوٹے رن اپ کے ساتھ بائیں بازو سے تیز رفتار سوئنگ باؤلنگ کرنے والے وسیم اکرم کو خطرناک ترین باؤلرز میں سرفہرست کہنا غلط نہ ہو گا۔ دو دہائیوں پر مبنی اپنے کیریئر میں انہوں نے انتہائی ماہر بلے بازوں کے ناک میں بھی دم کیے رکھا۔ وسیم ایک روزہ میچوں میں پانچ سو وکٹیں لینے والے واحد تیز گیند باز ہیں۔ انہوں نے ایک روزہ میچوں میں بھی 414 وکٹیں حاصل کر رکھی ہیں۔
تصویر: Getty Images/AFP/J. Tallis
وقار یونس (1989 تا 2003)
وسیم اکرم اور وقار یونس کی جوڑی بھی خطرناک ترین باؤلرز میں شمار کی جاتی تھی۔ وقار یونس وکٹوں کی دوڑ میں وسیم اکرم سے پیچھے رہے۔ ان کے تیز رفتار اِن کٹرز خاص طور پر دائیں بازوں سے بیٹنگ کرنے والے بلے بازوں کی وکٹیں اڑا دیا کرتے تھے۔ وقار یونس نے بین الاقوامی ٹیسٹ میچوں میں 373 اور ایک روز میچوں میں 416 وکٹیں حاصل کیں۔
تصویر: AP
کرٹلی ایمبروز (1988 تا 2000)
سن نوے کی دہائی میں ویسٹ انڈیز کے کرٹلی ایمبروز اور کرٹنی واش کی جوڑی مخالف ٹیم کے بلے بازوں کو ناکوں چنے چبوانے میں شہرت رکھتی تھی۔ ایمبروز نے واش کے مقابلے میں وکٹیں تو کم حاصل کیں لیکن ان کا بلے بازوں پر دبدبہ کہیں زیادہ رہتا تھا۔ چھ فٹ سات انچ قد والے دراز قامت باؤلر کا شمار اپنے وقت کے خطرناک ترین گیند بازوں میں ہوتا تھا۔
تصویر: Imago Images/Mary Evans
شین وارن (1992 تا 2007)
آسٹریلوی لیگ اسپنر شین وارن بلے بازوں کے لیے ایک ڈراؤنا خواب ثابت ہوتے تھے۔ شین وارن کو نہ صرف ہاتھ میں پکڑی گیند کو سپن کرنے میں مہارت حاصل تھی بلکہ وہ اپنے سامنے کھڑے بلے باز کے اعصاب پر سوار ہو جایا کرتے تھے۔ بلے باز کے دماغ کو پڑھ لینے کی صلاحیت انہیں مزید خطرناک بنا دیتی تھی۔ انہوں نے ٹیسٹ میچوں میں 708 وکٹیں حاصل کیں۔
تصویر: dapd
متھیا مرلی دھرن (1992 تا 2011)
سری لنکن اسپنر ٹیسٹ اور ون ڈے میں سب سے زیادہ وکٹیں حاصل کرنے والے کھلاڑی ہیں۔ انہوں نے صرف زیادہ وکٹیں ہی نہیں حاصل کیں، بلکہ بلے بازوں پر ان کا رعب بھی بہت تھا۔ دنیا کے ماہر ترین بلے باز بھی ان کی انوکھی آف اسپن باؤلنگ کا مقابلہ کرتے وقت چوکس ہو جاتے تھے۔ مرلی دھرن نے اپنے کیریئر کے دوران ٹیسٹ میچوں میں 800 اور ون ڈے میں 534 وکٹیں حاصل کیں۔
تصویر: AP
گلین میک گَرا (1993 تا 2007)
عالمی سطح پر تیز گیند بازی میں لائن اور لینتھ کے اعتبار سے میک گرا کا شاید ہی کوئی دوسرا باؤلر مقابلہ کر پائے۔ بلے بازوں کو باندھ کر رکھنے والے آسٹریلوی گیند باز نے ٹیسٹ میچوں میں 563 اور ون ڈے میچوں میں 381 وکٹیں حاصل کیں۔
تصویر: Getty Images/C. Mason
انیل کمبلے (1990 تا 2008)
بھارتی لیگ اسپنر انیل کمبلے گزشتہ چھ دہائیوں کے دوران ایسے واحد باؤلر ہیں جنہوں نے ٹیسٹ میچ کی ایک اننگز میں 10 وکٹیں حاصل کیں۔
تصویر: Getty Images/AFP/M. Kiran
ثقلین مشتاق (1995 تا 2004)
عالمی کرکٹ میں ون ڈے میچ کے آخری اوورز میں اسپن باؤلنگ کرانے اور ’دوسرا‘ متعارف کرانے والے پاکستان آف سپنر ثقلین مشتاق ہی ہیں۔ ثقلین 200 ون ڈے وکٹیں حاصل کرنے والے کم عمر ترین گیند باز بھی ہیں۔
تصویر: Imago Images/Mary Evans
شان پولک (1995 تا 2008)
جنوی افریقہ کے شان پولک نے کئی ٹاپ آرڈر بلے بازوں کو دفاعی حکمت عملی اختیار کرنے پر مجبور کیے رکھا۔ ان کی رفتار بہت تیز نہیں تھی لیکن عمدہ لائن اور لینتھ اور اس میں بھی ایک خاص تسلسل، ان کی کامیابی کا راز رہا۔ پولک نے ٹیسٹ میچوں میں 421 اور ون ڈے میں 393 وکٹیں حاصل کیں۔
تصویر: Imago Images/Colorsport
شعیب اختر (1998 تا 2011)
پاکستانی گیند باز شعیب اختر کی انتہائی تیز رفتار باؤلنگ نے انہیں ایک انتہائی خطرناک باؤلر بنایا۔ 150 کلومیٹر فی گھنٹہ کی رفتار سے آنے والے باؤنسرز اور یارکرز ان کے سامنے کھڑے بلے بازوں پر ہیبت طاری کر دیتے تھے۔ شعیب اختر کا سامنا کرتے وقت ساروو گنگولی، برائن لارا اور گیری کرسٹن جیسے بلے باز بھی پریشان دکھائی دیتے تھے۔
تصویر: Getty Images/AFP/S. Kodikara
لاسیت ملنگا (2004 سے اب تک)
سری لنکا کے تیز گیند باز لاسیت ملنگا نے اپنے کیریئر کے شروع ہی میں منفرد باؤلنگ ایکشن اور تیز رفتار یارکرز کے ساتھ بلے بازوں کی نیندیں حرام کر دی تھیں۔ ملنگا اب بھی کرکٹ کھیل رہے ہیں لیکن ان کی رفتار کچھ کم پڑ چکی ہے۔ انہوں نے اپنی زیادہ تر وکٹیں سن 2007 اور سن 2014 کے درمیان حاصل کیں۔
تصویر: picture-alliance/dpa/empics/PA-Wire/S. Cooper
جسپرت بمرا (2016 سے اب تک)
بھارتی گیند باز جسپرت بمرا گزشتہ چند برسوں کے دوران ایک خطرناک باؤلر بن کر ابھرے ہیں۔ گیند کی رفتار میں غیر معمولی انداز میں تغیر اور انتہائی درست یارکرز کے باعث بمرا خاص طور ڈیتھ اوورز میں انتہائی خطرناک باؤلر ہیں۔ بمرا 60 ون ڈے میچوں میں سو وکٹیں اور درجن بھر ٹیسٹ میچوں میں بھی 60 سے زائد وکٹیں حاصل کر چکے ہیں۔