ایک شامی مہاجر نے ایک گھریلو جھگڑے کے بعد اپنی بیوی کو آگ لگا کر جلانے کی کوشش کی لیکن اس دوران وہ خود ہی بری طرح سے جُھلس گیا۔ بعد ازاں وہ اپنے زخموں کی تاب نہ لاتے ہوئے انتقال کر گیا۔
اشتہار
خبر رساں اداروں ڈی پی اے اور ایسوسی ایٹڈ پریس کی رپورٹوں کے مطابق یہ واقعہ یکم ستمبر بروز جمعرات جرمن شہر فرینکفرٹ کے مغرب میں واقع روڈیس ہائم نامی قصبے میں پیش آیا۔ پولیس کا کہنا ہے کہ مبینہ طور پر گھریلو جھگڑے کے دوران آگ لگائے جانے کے اس واقعے میں پینتالیس سالہ شامی مہاجر جھلس کر ہلاک ہو گیا۔
جرمن صوبے ہیسے کی پولیس کے ترجمان مارکوس ہوفمان نے اس واقعے کی تفصیلات بتاتے ہوئے کہا کہ پینتالیس سالہ شامی مہاجر آتش گیر مادہ لے کر اُس عمارت میں داخل ہوا، جہاں اس کی بیوی اور بچے مقیم تھے۔ اس شخص نے گھر میں داخل ہو کر اپنی اکتیس سالہ بیوی پر آتش گیر مادہ چھڑک کر آگ لگا دی۔
اس دوران شامی مہاجر خود بھی آگ کی زد میں آ کر شدید جھلس گیا اور بعد ازاں اپنے زخموں کی تاب نہ لاتے ہوئے چل بسا۔ ہوفمان کے مطابق اس واقعے میں مذکورہ شخص کی بیوی بھی شدید زخمی ہوئی ہے اور اس کی حالت انتہائی نازک ہے۔ جھلسنے والی خاتون کی جان بچانے کی کوشش کی جا رہی ہے۔
پولیس ترجمان کے مطابق شامی جوڑے کے بچے شدید صماتی کیفیت کا شکار ہیں اور انہیں بھی ہسپتال منتقل کر دیا گیا ہے، جہاں ان کا علاج کیا جا رہا ہے۔
مارکوس ہوفمان نے یہ بھی بتایا کہ مذکورہ شامی خاندان اکھٹے ہی جرمنی پہنچا تھا تاہم بعد ازاں ہلاک ہونے والے مہاجر کو ایک الگ رہائش گاہ میں رکھا گیا تھا۔ پولیس کے مطابق مذکورہ شامی شہری مجرمانہ ریکارڈ کا حامل تھا۔
اس واقعے میں متعلقہ عمارت کو بھی شدید نقصان پہچا ہے اور وہ اب مزید رہائش کے قابل نہیں رہی۔ مہاجرین کو فراہم کردہ اس رہائش گاہ میں 14 تارکین وطن مقیم تھے۔
جرمن حکومت کو لاکھوں کی تعداد میں جرمنی آنے والے تارکین وطن اور مہاجرین کو رہائش گاہیں فراہم کرنے میں دشواری کا سامنا ہے۔ رہائش گاہوں کی کمی کے باعث پناہ گزینوں کو فوجی بیرکوں، کھیل کے میدانوں اور ہوسٹلوں وغیرہ میں بنائی گئی عارضی رہائش گاہوں میں رکھا جا رہا ہے۔
ان عارضی کیمپوں میں عموماً گنجائش کم ہوتی ہے اورتنگ جگہ پر زیادہ مہاجرین کو ٹھہرایا جانا پڑتا ہے، اسی لیے اکثر اوقات تارکین وطن کے مابین جھگڑوں کے واقعات بھی رونما ہوتے رہتے ہیں۔
اقوام متحدہ کے ادارہ برائے مہاجرین نے خدشہ ظاہر کیا ہے کہ بحیر روم کو عبور کرنے کی کوشش میں حالیہ ہفتے کے دوران رونما ہونے والے تین حادثوں کے نتیجے میں کم از کم سات سو افراد ہلاک جبکہ دیگر سینکڑوں لاپتہ ہو چکے ہیں۔
تصویر: picture-alliance/dpa/Italian Navy/Handout
عمومی غلطی
ماہی گیری کے لیے استعمال ہونے والی اس کشتی میں سوار مہاجرین نے جب ایک امدادی کشتی کو دیکھا تو اس میں سوار افراد ایک طرف کو دوڑے تاکہ وہ امدادی کشتی میں سوار ہو جائیں۔ یوں یہ کشتی توازن برقرار نہ رکھ سکی اور ڈوب گئی۔
تصویر: Reuters/Marina Militare
اچانک حادثہ
عینی شاہدین کے مطابق اس کشتی کو ڈوبنے میں زیادہ وقت نہ لگا۔ تب یوں محسوس ہوتا تھا کہ اس کشتی میں سوار افراد پتھروں کی طرح پانی میں گر رہے ہوں۔ یہ کشتی لیبیا سے اٹلی کے لیے روانہ ہوئی تھی۔
تصویر: Reuters/Marina Militare
الٹی ہوئی کشتی
دیکھتے ہی دیکھتے یہ کشتی مکمل طور پر الٹ گئی۔ لوگوں نے تیر کر یا لائف جیکٹوں کی مدد سے اپنی جان بچانے کی کوشش شروع کردی۔ اطالوی بحریہ کے مطابق پانچ سو افراد کی جان بچا لی گئی۔
تصویر: Reuters/Marina Militare
امدادی آپریشن
دو اطالوی بحری جہاز فوری طور پر وہاں پہنچ گئے۔ امدادی ٹیموں میں ہیلی کاپٹر بھی شامل تھے۔ بچ جانے والے مہاجرین کو بعد ازاں سیسلی منتقل کر دیا گیا، جہاں رواں برس کے دوران چالیس ہزار مہاجرین پہنچ چکے ہیں۔
تصویر: Reuters/Marina Militare
ہلاک ہونے والوں میں چالیس بچے بھی
تازہ اطلاعات کے مطابق جہاں ان حادثات میں سات سو افراد کے ہلاک ہونے کا خدشہ ظاہر کیا جا رہا ہے، وہیں چالیس بچوں کے سمندر برد ہونے کا بھی قوی اندیشہ ہے۔
تصویر: Reuters/Marina Militare
حقیقی اعدادوشمار نامعلوم
جمعے کو ہونے والے حادثے میں ہلاک یا لاپتہ ہونے والوں کی تعداد کے بارے میں ابھی تک کوئی معلومات حاصل نہیں ہو سکی ہیں۔
تصویر: Reuters/EUNAVFOR MED
مہاجرین کو کون روکے؟
ایسے خدشات درست معلوم ہوتے نظر آ رہے ہیں کہ ترکی اور یورپی یونین کی ڈیل کے تحت بحیرہ ایجیئن سے براستہ ترکی یونان پہنچنے والے مہاجرین کے راستے مسدود کیے جانے کے بعد لیبیا سے اٹلی پہنچنے والے مہاجرین کی تعداد بڑھ جائے گی۔
تصویر: picture-alliance/dpa/Italian Navy/Marina Militare
عینی شاہدین کے بیانات
عینی شاہدین نے بتایا ہے کہ کس طرح انہوں نے اپنی آنکھوں سے مہاجرین کی کشتیوں کوڈوبتے دیکھا، جن میں سینکڑوں افراد سوار تھے۔ یہ تلخ یادیں ان کے ذہنوں پر سوار ہو چکی ہیں۔
تصویر: Getty Images/G.Bouys
سینکڑوں ہلاک
گزشتہ سات دنوں کے دوران بحیرہ روم میں مہاجرین کی کشتیون کو تین مخلتف حادثات پیش آئے۔ اقوام متحدہ کے ادارہ برائے مہاجرین کے مطابق ان حادثات کے نتیجے میں کم ازکم سات سو افراد ہلاک جبکہ سینکڑوں لاپتہ ہو گئے ہیں۔
تصویر: Reuters/H. Amara
بحران شدید ہوتا ہوا
موسم سرما کے ختم ہونے کے بعد شمالی افریقی ملک لیبیا سے یورپی ملک اٹلی پہنچنے والے افراد کی تعداد میں تیزی دیکھی جا رہی ہے۔ اطالوی ساحلی محافظوں نے گزشتہ پیر سے اب تک کم ازکم چودہ ہزار ایسے افراد کو بچایا ہے، جو لیبیا سے یورپ پہنچنے کی کوشش میں بحیرہ روم میں بھٹک رہے تھے۔