بیٹا ہے یا بیٹی؟ شوہر نے درانتی سے حاملہ بیوی کا پیٹ کاٹ دیا
22 ستمبر 2020
بھارت میں بیٹے کے خواہش مند ایک متجسس شوہر نے اپنی نامولود اولاد کی جنس پتا کرنے کے لیے درانتی سے بیوی کا پیٹ کاٹ دیا۔ ہسپتال میں بیوی کی حالت نازک ہے، شوہر کو پولیس نے گرفتار کر لیا جبکہ نامولود بچہ بیٹا تھا جو مر گیا۔
اشتہار
یہ ہلا کر رکھ دینے والا واقعہ بھارتی ریاست اتر پردیش میں ہفتے کے روز پیش آیا۔ اتر پردیش کے شہر بدایوں میں پولیس نے منگل بائیس ستمبر کے روز بتایا کہ جو شخص اس جرم کا مرتکب ہوا، اس کی پہلے ہی سے پانچ بیٹیاں تھیں اور اس کی بیوی چھٹے بچے کے ساتھ حاملہ تھی۔
شوہر کی شدید خواہش تھی کہ اس مرتبہ بیٹی کے بجائے بیٹا پیدا ہو، لیکن اس جوڑے کو یہ خبر نہیں تھی کہ ماں کے پیٹ میں بچہ پھر ایک بیٹی تھی یا پہلا بیٹا۔ اس شخص کو اپنے نامولود بچے کی جنس جاننے کا اتنا زیادہ خبط تھا کہ اس نے ایک درانتی سے اپنی حاملہ بیوی کا پیٹ ہی کاٹ دیا۔
ہسپتال میں عورت کی حالت نازک
اس مجرمانہ جسمانی حملے میں اس شخص کی بیوی اتنی زیادہ زخمی ہو گئی کہ اسے ملکی دارالحکومت نئی دہلی کے ایک ہسپتال پہنچانا پڑ گیا۔ ڈاکٹروں کے مطابق اس خاتون کی حالت نازک ہے اور وہ اس وقت انتہائی نگہداشت کے وارڈ میں ہے۔ خاتون کے شوہر کو پولیس گرفتار کر چکی ہے۔
یورپ میں سب سے زیادہ مسلم آبادی والے ممالک
امریکی ریسرچ سنٹر PEW کے مطابق یورپ میں مسلم آبادی بڑھ رہی ہے۔ اس وقت یورپ میں مسلمانوں کی آبادی کی شرح 4.9 فیصد ہے جبکہ 2050ء تک یہ 7.5 فی صد تک پہنچ سکتی ہے۔ یورپ کے کن ممالک میں مسلمانوں کی کتنی تعداد آباد ہے؟
تصویر: Nikolay Doychinov/AFP/Getty Images
فرانس: 57.2 لاکھ
تصویر: AP
جرمنی: 49.5 لاکھ
تصویر: Getty Images/S. Gallup
برطانیہ: 41.3 لاکھ
تصویر: picture-alliance/empics/D. Dawson
اٹلی: 28.7 لاکھ
تصویر: Getty Images for Les Benjamins/S. Alemdar
ہالینڈ: 12.1 لاکھ
تصویر: AP
اسپین: 11.8 لاکھ
تصویر: picture-alliance/AA/E. Aydin
بیلجیم: 8.7 لاکھ
تصویر: picture-alliance/dpa/F.Sadones
سویڈن: 8.1 لاکھ
تصویر: Getty Images/AFP/A. Wiklund
بلغاریہ: 7.9 لاکھ
تصویر: Nikolay Doychinov/AFP/Getty Images
یونان: 6.2 لاکھ
تصویر: Getty Images/S. Gallup
10 تصاویر1 | 10
لیکن اس ناقابل تصور جرم کا ایک نتیجہ یہ بھی نکلا کہ اب شاید یہ شخص خود کو اور اس کی بیوی بھی اسے کبھی معاف نہ کر سکے: ملزم کی اس کی بیوی کی پیٹ میں اولاد پہلی مرتبہ ایک بیٹا تھا لیکن درانتی سے پیٹ کاٹے جانے کے دوران یہ بیٹا اپنی پیدائش سے پہلے ہی شکم مادر میں اپنے ہی باپ کے ہاتھوں مارا گیا۔
بھارت کے امراء میں بھی کم عمری کی شادیوں کا رواج
بھارت میں ہر سال لاکھوں لڑکیوں کی کم عمری میں شادی کر دی جاتی ہے۔ غیر قانونی ہونے کے باوجود لڑکیوں کی نصف آبادی کو بچپنے میں ہی شادی کے بندھن میں باندھ دیا جاتا ہے۔
تصویر: AP
برا تصور نہیں کیا جاتا
سماجی مبصرین کی رائے میں بھارتی معاشرے میں کم عمری کی شادی کو برا تصور نہیں کیا جاتا اور قانونی طور پر جرم کے زمرے میں آنے والے اس فعل کو کم ہی رپورٹ کیا جاتا ہے۔
تصویر: Reuters/S. Andrade
حکومتی پالیسی ناکام
غیر سرکاری تنظیم ’ایکشن ایڈ انڈیا‘ کی ایک رپورٹ کے مطابق کم عمری کی شادیوں سے متعلق حکومت کی پالیسی ملک میں چھوٹی عمر میں شادیوں کو روکنے میں ناکام رہی ہے۔ قانونی اقدامات بھارتی معاشرے میں ایسی ثقاتی روایات کے اثرات کو کم کرنے میں کامیاب نہیں ہوئے جو کم عمری کی شادیوں کی حوصلہ افزائی کرتے ہیں۔
تصویر: AP
لڑکوں کی تعداد لڑکیوں سے کم
تھامسن روئٹرز فاؤندیشن کی رپورٹ کے مطابق لڑکوں کی شادی بھی چھوٹی عمر میں کرنے کے واقعات عام ہیں لیکن ان کی تعداد لڑکیوں سے کافی کم ہے۔ اٹھارہ سال سے کم عمر میں لڑکی کی شادی کر دینے کا مطلب ہے کہ اسے اسکول چھوڑنا پڑے گا۔ اس کے علاوہ ایسی لڑکیوں کو گھریلو تشدد، جنسی استحصال اور بچے کو جنم دیتے ہوئے موت کا بھی سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔
تصویر: Getty Images/AFP
بھارت کے امراء میں بھی کم عمر کی شادیاں عام
اگرچہ بھارت میں تعلیم کے فقدان اور غربت کو کم عمری کی شادیوں کی وجہ بتایا جاتا ہے لیکن امیر گھرانوں میں بھی چھوٹی عمر میں لڑکیوں کی شادیوں کا رواج عام ہے۔ بھارت کے دیہی علاقوں میں ہر چار میں سے ایک لڑکی اور شہروں میں ہر پانچ میں سے ایک لڑکی کی اٹھارہ سال سے کم عمر میں شادی کر دی جاتی ہے۔
تصویر: Getty Images/AFP/Str
کم عمر کی شادیوں کو روکنے کے لیے اقدامات
’’ایکشن ایڈ انڈیا‘ کی رپورٹ کے مطابق حکومت کو سوشل میڈیا، اسکولوں کے نصاب اور دیگر ذرائع کے ذریعے کم عمر کی شادی کے بھارتی قانون اور اس سے پیدا پونے والے سماجی مسائل کے بارے میں آگاہی پھیلانی چاہیے۔ اس کے علاوہ سرکاری اسکولوں کے اساتذہ کو یہ قانونی حق دیا جائے کہ وہ کم عمر بچوں کی شادیوں کو روک سکیں۔
تصویر: AP
کچھ سرکاری اقدامات سے فائدہ
حال ہی میں کچھ سرکاری اقدامات سے فائدہ حاصل ہوا ہے۔ حکومت ایسی لڑکی کے اکاؤنٹ میں کچھ پیسے منتقل کرتی ہے جو اٹھارہ سال کی عمر میں تعلیم حاصل کر رہی ہو اور اس کی شادی نہ ہوئی ہو۔ راجھستان میں شادیوں کے ٹینٹ فراہم کرنے والی کمپنی نے بھی کم عمری کی درجنوں شادیوں کو رکوایا ہے۔
تصویر: AP
6 تصاویر1 | 6
بیٹا ہسپتال میں مردہ پیدا ہوا
زخمی خاتون کے بھائی نے بتایا، ''میری بہن کا شوہر اتنا مشتعل تھا کہ اس نے اپنے نامولود بچے کی جنس کا پتا کرنے کے لیے درانتی سے میری بہن اور اپنی حاملہ بیوی کا پیٹ ہی کاٹ دیا۔‘‘
پولیس نے بھی تصدیق کر دی کہ یہ بچہ، جو اس جرم کے ارتکاب سے پہلے تک ماں کے پیٹ میں زندہ تھا، اس حملے میں مارا گیا، ''ہسپتال میں ڈاکٹروں نے جب اسے اس کی ماں کے پیٹ سے نکالا، تو وہ مرا ہوا تھا۔‘‘
'بیٹیوں کو بوجھ سمجھنے والا معاشرہ‘
اس ہولناک جرم کے بارے میں ٹامسن روئٹرز فاؤنڈیشن نے اپنے مراسلے میں لکھا ہے کہ بھارت میں زیادہ تر غربت اور شادی کے وقت جہیز کے لیے ناکافی مالی وسائل کی وجہ سے بیٹیوں کو 'بوجھ‘ سمجھا جاتا ہے۔ اسی لیے پیدایش سے قبل اگر علم ہو جائے کہ نامولود بچہ کوئی لڑکی ہے، تو اکثر خاندانوں میں ایسے حمل ضائع بھی کرا دیے جاتے ہیں۔
اسی لیے بھارت میں اگر کوئی نامولود اولاد لڑکی ہو، تو ایسے حالات میں اسقاط حمل کروانا قانوناﹰ جرم ہے۔ اس جنوبی ایشیائی ملک میں ڈاکٹروں اور طبی کارکنوں پر بھی پابندی ہے کہ وہ کسی بھی نامولود بچے کے والدین کو یہ نہیں بتا سکتے کہ ان کے ہاں آئندہ پیدا ہونے والا بچہ کوئی بیٹا ہو گا یا بیٹی۔
م م / ا ا (ٹامس روئٹرز فاؤنڈیشن)
اگلے بیس برسوں میں مسلمان مائیں سب سے زیادہ بچے جنم دیں گی
دنیا بھر میں اس وقت سب سے زیادہ بچے مسیحی مائیں جنم دیتی ہیں۔ لیکن امریکی ریسرچ سینٹر ’پیو‘ کے ایک تازہ ترین آبادیاتی جائزے کے مطابق آئندہ دو عشروں میں مسلمان خواتین سب سے زیادہ بچے پیدا کریں گی۔
تصویر: Reuters/Muhammad Hamed
مسیحی مائیں دوسرے نمبر پر
پیو ریسرچ سینٹر کے مطابق مسیحی باشندوں کی آبادی میں کمی کی ایک وجہ یورپ کے بعض ممالک میں شرحِ اموات کا شرحِ پیدائش سے زیادہ ہونا ہے۔ اس کی ایک مثال جرمنی ہے۔
تصویر: imago/imagebroker
مسلم آبادی میں اضافہ
پیو ریسرچ سینٹر کی تحقیقاتی رپورٹ کے مطابق اگر عالمی آبادی میں تبدیلی کا یہ رجحان اسی طرح جاری رہا تو رواں صدی کے آخر تک دنیا بھر میں مسلمانوں کی تعداد مسیحی عقیدے کے حامل انسانوں کی مجموعی تعداد سے زیادہ ہو جائے گی۔
تصویر: Getty Images/AFP/A. Johnson
مسلم اور مسیحی آبادیوں میں شرحِ پیدائش میں فرق
پیو ریسرچ سینٹر کے اعداد و شمار کے مطابق ان دونوں مذاہب کی آبادیوں میں شرح پیدائش کے لحاظ سے سن 2055 اور سن 2060 کے دوران 60 لاکھ تک کا فرق دیکھنے میں آ سکتا ہے۔ سن 2060 تک مسلمان دنیا کی مجموعی آبادی کا 31 فیصد جبکہ مسیحی 32 فیصد ہوں گے۔
تصویر: Ahmad Al-Rubaye/AFP/Getty Images
سب سے بڑی مذہبی برادری
پیو ریسرچ سینٹر کا یہ جائزہ اس کے سن 2015 میں شائع کیے گئے ایک تحقیقی جائزے ہی کی طرز پر ہے۔ سن 2015 میں اس مرکز نے کہا تھا کہ آنے والے عشروں میں مسلم آبادی دنیا میں سب سے زیادہ تیزی سے بڑھنے والی بڑی مذہبی برادری بن جائے گی۔
تصویر: Getty Images/AFP/Y. Nagori
سب سے زیادہ بچے
سن 2010 سے سن 2015 کے درمیان دنیا بھر میں جتنے بچے پیدا ہوئے، اُن میں سے 31 فیصد بچوں نے مسلمان گھرانوں میں جنم لیا تھا۔ دو سال قبل پیو سینٹر کے ایک جائزے میں بتایا گیا تھا کہ سن 2050 تک مسلمانوں اور مسیحیوں تعداد تقریباﹰ برابر ہو جائے گی۔
تصویر: Ahmad Al-Rubaye/AFP/Getty Images
دیگر مذاہب آبادی کی دوڑ میں پیچھے
ہندوؤں اور یہودیوں سمیت دیگر مذاہب کے پیروکار انسانوں کی کُل تعداد میں سن 2060 تک اضافہ تو ہو گا تاہم یہ عالمی آبادی میں تیزی سے پھیلنے والے مذاہب کے افراد کی تعداد میں اضافے کے تناسب سے کم ہو گا۔