1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

بیٹی کی طلاق کا غم یا اس کی موت کا سوگ؟

سعدیہ احمد
17 جولائی 2020

اپنی ایک عادت کچھ عجیب سی ہے کہ جی چاہتا ہے جب تحریر لکھیں، وہ تب ہی چھپ جائے۔ اگر دیر ہو جائے تو ایسا لگتا ہے کہ بات حالات حاضرہ کی تھی لیکن اب تاریخ بن گئی۔

DW Urdu Blogerin Sadia Ahmed
تصویر: privat

جیسے روٹی ہمیشہ توے سے اتری مزہ دیتی ہے، ایسے ہی کچھ موضوعات ایسے ہوتے ہیں، جن پر اسی وقت بات ہو جانی چاہیے۔ مجھے علم نہیں کہ یہ کالم آپ تک کب پہنچے گا۔ لیکن چلیے جب بھی پہنچا یہ موضوع ایسا ہے جو غالبا مستقل بعید میں بھی پرانا نہیں ہونے والا۔ کیونکہ ہماری کچھ حقیقتیں اور مسائل شاید مسلمہ ہیں۔ ان پر کڑھا تو ضرور جا سکتا ہے لیکن ان کے حل کی فوری امید رکھنا عبث ہے۔

کچھ دن پہلے سوشل میڈیا پر ایک افسوس ناک واقعہ خاصا زیر بحث رہا۔ صدف زہرا نامی ایک خاتون کو مبینہ طور پر صحافی اور پروڈیوسر شوہر علی سلمان علوی نے جان سے مار دیا۔ ان کی شادی میں بظاہر سب بہت اچھا تھا۔ اندر کا جوار بھاٹا کوئی نہیں دیکھ سکتا تھا لیکن ہمارے ہاں کی دیگر شادیوں کی طرح اس میں بھی 'سب اچھا ہے‘ کا بینر آویزاں تھا۔ مبینہ طور پر ان کے شوہر ان کو مارتے پیٹتے تھے۔ دوسری خواتین میں نہ صرف دلچسپی رکھتے تھے بکہ وقتا فوقتا ان سے پیسے بھی اینٹھتے رہتے تھے۔ صدف زہرا کو اس بات کا علم ہو گیا اور بجائے اس کے کہ زندگی بدلتی یہ اپنی جان سے ہاتھ دھو بیٹھیں۔

کبھی بھی کوئی کہانی یا قصہ سنوں، سڑک پر چلتے پھرتے انجان لوگوں کو دیکھوں تو میرے ذہن میں ایک فلم چلنے لگتی ہے۔ یہ لوگ میرے لیے کردار بن جاتے ہیں، جن کا بچپن، لڑکپن، پہلی محبت، پہلا درد دل سب میرے ذہن میں ایک واضح شکل اختیار کرنے لگتا ہے۔ صدف زہرا کی ان کی بیٹی کے ساتھ تصویر دیکھی تو وہ فلم چلنے لگی۔ خیال آیا کہ کبھی یہ خود بھی اسی طرح اپنی والدہ کی گود میں ہوں گی۔ ان کی تصویر کھنچی ہو گی، جو شاید ان کی والدہ آج بھی آنسو بھر کر دیکھتی ہوں۔ ان کو پڑھانے پر ماں باپ نے کس قدر محنت کی ہو گی۔

صدف سے گھر کے کام نہیں کروائے جاتے ہوں گے کہ تعلیم سے دھیان بٹے گا۔ جو بچیاں گھر کے کاموں میں پڑ جائیں وہ کہاں پڑھ پاتی ہیں۔ سردیاں آتے ہی سویٹر نکالے جاتے ہوں گے کہ کہیں سینے کو ٹھنڈ نہ لگ جائے۔ صدف بیمار نہ پڑ جائے۔ گھر والے کئی بار خود اسکول کالج چھوڑنے جاتے ہوں گے، زمانہ خراب ہے۔ یوں بھی پڑھنے والے بچے کو رستے کی تھکان ڈھیر کر دے گی تو وہ پڑھے گا خاک؟

یہ بھی پڑھیے:

شادی تو خانہ آبادی ہوتی ہے!

اگلے جنم موہے بٹیا نہ کیجو، صدف زہرا کی موت

 

صدف کی شادی پسند کی تھی۔ خدا جانے ماں باپ کی کیا مرضی ہو گی لیکن محبت کی فتح ہوئی۔ یوں بھی ماں باپ بچوں کی خوشی میں خوش ہو جاتے ہیں۔ اس کی محبت سے دمکتی آنکھیں والدین کا اطمینان ہوں گی۔ یہی صدف ماں بنی ہو گی تو اس کی اولاد سینے کی ٹھنڈک بن گئی ہو گی۔

صدف کی موت پر بہت سے لوگوں نے کہا کہ اس نے کسی کو بتایا کیوں نہیں، اس نے طلاق کیوں نہیں لے لی؟میرا سوال یہ ہے کہ کیا گھر والوں کو ایک بار بھی خیال نہیں آیا کہ ان کی بیٹی خوش نہیں تھی۔ کیا اس کی آنکھوں میں بستی کہانی ان کی نظروں سے دور رہی؟ ہم اپنی بچیوں کو جان سے لگا کر پالتے ہیں۔ انہیں ہتھیلی کا چھالہ بنا لیتے ہیں۔ اب تو بہت سے گھروں میں بیٹوں اور بیٹیوں میں کوئی تفریق بھی نہیں کی جاتی۔

لیکن ان ہی ناز سے پالی بچیوں کی شادی ہو جائے تو انہیں مرنے جینے کے لیے تنہا کیوں چھوڑ دیتے ہیں؟

جو بھی ہو بیٹی، تمہارا گھر یہی ہے۔ میری اچھی بیٹی، ماں باپ کی عزت تمہارے ہاتھ میں ہے۔ مرد جیسا بھی ہو عورت سب ٹھیک کر سکتی ہے۔ بس چند سال صبر کر لو پھر تمہاری ہی حکومت ہو گی۔ دو بچے ہو جائیں تو سب اچھا ہو جاتا ہے۔ جیسا بھی ہے گھر کی رانی تو تم ہی ہو۔

یہی گیان سنتے سنتے بہت سی عورتوں کی ساری عمر جلتے کڑھتے نکل جاتی ہے۔ ہمارے سامنے کئی گھریلو تشدد کے واقعات ہیں، جہاں خواتین جان سے ہاتھ دھو بیٹھیں۔ جو ذہنی تشدد دے بچ گئیں وہ جیتے جی مر گئیں۔

کسی کو ماں باپ کی عزت کا خیال سر نہیں اٹھانے دیتا تو کسی کے پاس جانے کی جگہ نہیں ہوتی۔ ورلڈ بینک کی رپورٹ کے مطابق پاکستان میں صرف 26 فی صد عورتیں نوکری یا کاروبار کرتی ہیں۔ ان میں سے بھی زیادہ تر معاشی طور پر خودمختار نہیں ہوتیں۔ جو ہوں بھی انہیں معاشرے کا خوف دکھائی دیتا ہے۔ جہاں دنیا کے ترقی یافتہ ممالک میں طلاق کی صورت میں عورت پچاس فی صد سے زائد اثاثوں کی مالک ہوتی ہے ہمارے ہاں طلاق کی صورت میں صرف رسوائی ہاتھ آتی ہے۔

ایسے میں اگر والدین اپنی بیٹیوں کو سپورٹ کریں، انہیں جہنم کو جنت بنانے کا سپنا نہ دکھائیں تو کیا خبر کوئی صدف زندہ بچ جائے، زندگی جئے، ہنسے مسکرائے۔ ایک ناکام شادی کو تلخ یاد کی طرح بھلا دے۔ آنے والی زندگی میں خوشیاں تلاش کرے۔

وہ بیٹیاں، جنہیں اس قدر ناز و اندام سے پالا ہو، ایک موقعے پر ان کی زندگی والدین کی عزت کے بوجھ تلے کیسے دب جاتی ہے؟ ہماری عقل سے بالاتر ہے۔ کہیں پڑھا تھا کہ مطلقہ بیٹی مردہ بیٹی سے بہتر ہے۔ بات تو ٹھیک تھی۔ اپنی بچیوں کی طرف دیکھیے! کیا آپ ان کو شادی کے بعد بے یار و مددگار چھوڑ دیں گے؟ یہ آپ کی آنکھوں کا تارہ ہیں، ان کا یہ رتبہ قائم رکھیے۔

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ سیکشن پر جائیں

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ

ڈی ڈبلیو کی مزید رپورٹیں سیکشن پر جائیں