یہ اور ایسی بہت سی باتیں ہمارے معاشرے میں ان والدین کو سننا پڑتی ہیں، جو اپنی بیٹی کو نوکری یا کاروبار کرنے کی اجازت دیتے ہیں۔ بعض لوگوں کو یہاں لفظ اجازت پر اعتراض ہو سکتا ہے۔ ہمیں ان کے اعتراض کی چنداں پروا نہیں کہ حقیقت یہی ہے۔ ملک کا قانون کچھ بھی کہتا ہو، معاشرتی رواج اور طور طریقے لڑکیوں اور خواتین کو اپنے پیسے خود کمانے کی اجازت نہیں دیتے۔ انہیں نوکری یا کاروبار کرنے سے پہلے اپنے گھر والوں سے باقاعدہ اجازت لینا پڑتی ہے۔
اجازت کا قصہ بھی سن لیجیے! یہ ایسے ہی نہیں مل جاتی، اسے حاصل کرنے کے لیے ڈھیروں پاپڑ بیلنے پڑتے ہیں۔ ہزار تاویلیں گھڑنا پڑتی ہیں، تب کہیں جا کر اجازت ملتی ہے اور اس کے ساتھ خاندان بھر کی عزت کا ٹوکرا بھی مل جاتا ہے۔ تاکید کی جاتی ہے کہ خود بے شک تباہ و برباد ہو جاؤ لیکن اس ٹوکرے کو کچھ نہیں ہونا چاہیے ورنہ۔۔۔۔
ہم لڑکیاں اس ورنہ سے بہت ڈرتی ہیں۔ ہم کوشش کرتی ہیں کہ ایسی نوبت ہی نہ آئے لیکن وہ آتی ہے اور اسے لانے کا باعث ہم نہیں ہمارے اردگرد موجود لوگ بنتے ہیں۔
میں اپنی بات کروں تو مجھے اعلیٰ تعلیم کے حصول کے لیے بھی منتیں کرنا پڑی تھیں۔ ہمارے والدین بیٹیوں کو پڑھانے کے حق میں تھے لیکن کہاں تک؟ یہ انہوں نے ہمیں اس وقت بتایا، جب انہیں میرے لیے خاندان سے ایک رشتہ موصول ہوا۔ اس دن کہا گیا کہ مجھے سب کچھ چھوڑ کر بس اس رشتے کو پکا کرنے پر غور کرنا چاہیے۔ میں نے ایسا کرنے سے انکار کر دیا۔ انہوں نے اس انکار کو سننے اور سمجھنے میں دو سال لگا دیے۔
یہ معاملہ بالآخر ٹلا تو میں نے وہ پٹاری کھولی، جس کے ہونے کی انہیں توقع بھی نہیں تھی۔
میں نے کہا میں اپنا کرئیر بنانا چاہتی ہوں۔ انہوں نے حیرت سے پوچھا وہ کیا ہوتا ہے؟ میں نے کہا بس اپنی پہچان بنانا چاہتی ہوں، کچھ کرنا چاہتی ہوں۔ اپنے پیروں پر کھڑا ہونا چاہتی ہوں۔ انہوں نے کہا چاہتے تو ہم بھی بہت کچھ ہیں لیکن سب کچھ ہوتا نہیں ہے۔ تم بس کسی کا ساتھ چاہو۔ اس عمر میں لڑکیوں کو یہی چاہنا چاہیے۔ میں نے کہا وہ بھی چاہتی ہوں اور یہ بھی چاہتی ہوں۔
کہانی مختصر، مجھے ”اُس سلسلے" کے شروع ہونے تک ”اِس سلسلے" کو شروع کرنے اور جاری رکھنے کی اجازت مل گئی۔ مجھے ایک بڑے سے ٹی وی چینل میں ایک چھوٹی سی نوکری مل گئی۔ میں خوشی خوشی وہ نوکری کرنے لگی۔ کچھ مہینے بعد میں پورے خاندان میں آوارہ، بد چلن اور ہمارے والدین ''بے غیرت‘‘ مشہور ہو گئے۔
پتہ چلا کہ ہمارے کچھ قریبی رشتے داروں سے میرا نوکری کرنا ہضم نہیں ہو رہا تھا۔ ان کے مطابق ہمارے والدین ''بے غیرتی‘‘ کی انتہا کو پہنچے ہوئے تھے۔ ہماری کمائی کھا رہے تھے اور اسی کی وجہ سے ہماری شادی نہیں کر رہے تھے۔ ہمارے والدین کو انہی باتوں کا خوف تھا۔ میری محبت میں انہوں نے نوکری کرنے کی اجازت تو دے دی تھی لیکن اسے دل سے قبول نہیں کر پائے تھے، کیا کرتے، وہ اسی معاشرے کا حصہ تھے۔ ان کی برداشت کچھ ہی عرصے میں جواب دے گئی۔ پھر میں تھی اور ان کی بے بسی۔ مجھے نوکری چھوڑنے کا کہا گیا، جس سے میں نے انکار کر دیا۔
میں نے انہیں کہا کہ انہیں میری طرح مضبوط بننے کی ضرورت ہے، لوگوں کا کام باتیں کرنا ہے، انہیں ان باتوں کو نظر انداز کرتے ہوئے بس اپنی اور اپنے بچوں کی خوشیوں کو اہمیت دینی چاہیے۔
میرے والدین کے بارے میں وہ لوگ باتیں کر رہے تھے، جنہوں نے میرے والدین کو بغیر کسی امتیاز کے اپنے بیٹوں اور بیٹیوں پر پیسے خرچ کرتے ہوئے دیکھا تھا لیکن جب میری باری آئی تو انہیں میرا پیسہ کمانا اور ان کا اپنے والدین پر خرچ کرنا برا لگ رہا تھا۔
کیسا عجیب سا معیار ہے؟ بیٹا بھی انہی والدین کا اور بیٹی بھی انہی والدین کی۔ بیٹا کما سکتا ہے پر بیٹی نہیں کما سکتی۔ والدین بیٹے کی کمائی حق سے مانگ سکتے ہیں لیکن بیٹی کے پیسوں کو کمائی کہنے سے پہلے وہ چلو بھر پانی میں ڈوب مرنے کو اپنے لیے بہتر سمجھتے ہیں۔
کیوں جی؟
ہم بیٹیوں کی کمائی میں ایسا کیا ہے؟ کیا ہمیں اپنے والدین پر کوئی حق حاصل نہیں؟ ہم کیوں اپنے والدین پر اسی طرح اپنے پیسے خرچ نہیں کر سکتے، جس طرح وہ ہم پر اپنے پیسے خرچ کرتے تھے؟
جب وہ قابلِ قبول تھا تو اس پر اعتراض کیوں؟
یہ ہماری زندگی ہے۔ ہم اسے جیسے چاہیں، ویسے گزارنے کا حق رکھتی ہیں۔ ہم چاہے نوکری کریں، چاہے کاروبار، یہ ہماری مرضی ہے۔ ہم اس سے حاصل ہونے والے پیسے کو آگ لگائیں یا اس کی اپنے والدین پر بارش کریں یہ بھی ہماری مرضی ہے۔
ہم لڑکیاں اس دنیا میں صرف اولاد پیدا کرنے نہیں آئیں۔ ہمارے پاس ایک عدد دماغ بھی ہے، جو ہم چلانے پر آئیں تو بہت اچھا چلا سکتی ہیں۔ ہم اس دماغ کا استعمال کرتے ہوئے اپنا نام بنا رہی ہیں اور اس کے بدلے میں پیسے کما رہی ہیں تو آپ کیوں جل رہے ہیں؟
آپ آرام سے اپنے گھروں میں بیٹھیں اور اپنے بیٹوں کی کمائی میں اضافے کی دعا مانگیں، آپ کو وہ مبارک، ہمیں یہ مبارک!
نوٹ: ڈی ڈبلیو اُردو کے کسی بھی بلاگ، تبصرے یا کالم میں ظاہر کی گئی رائے مصنف یا مصنفہ کی ذاتی رائے ہوتی ہے، جس سے متفق ہونا ڈی ڈبلیو کے لیے قطعاﹰ ضروری نہیں ہے۔