بیکرز کا ملک کی سماجی و سیاسی زندگی پر اثر
2 نومبر 2025
میکسیکو پر اسپین کے قبضے سے پہلے مقامی لوگ روٹی کے بارے میں کچھ نہیں جانتے تھے اور اس کی جگہ مکئی کھاتے تھے۔ ہسپانیوں نے یہاں گندم کاشت کی، اسے پیس کر آٹا بنایا اور آٹے میں انڈا اور چربی کا استعمال کر کے اسے ذائقہ دار بنایا۔ حکومت کی جانب سے یہ پابندی تھی کہ روٹی کا مقررہ وزن ہوگا اور اس پر قیمت لکھی جائے گی۔ قوانین کی خلاف ورزی پر سخت سزائیں تھیں۔ ہر بیکری کے لیے اسے شہر کے کئی حصوں میں تقسیم کر دیا گیا تھا۔
1821 میں جب میکسیکو آزاد ہوا تو اس کے ساتھ ہی سیاسی تبدیلی بھی آئی ہے۔ کالونیل حکومت نے بیکریز کے لیے جو قوانین بنائے تھے، اس کی پابندی نہیں کی گئی۔ روٹی کے وزن اور اس کی قیمت کی خلاف ورزی کرتے ہوئے منافع کمایا گیا ۔ بیکریز میں یہ دستور تھا کہ اس میں کام کرنے والے ملازم کے 24 گھنٹے کے ملازم ہوں گے یعنی وہاں رات کو قیام کریں گے اور دن میں 13 سے 14 گھنٹے مسلسل کام کریں گے اور انہیں کم سے کم معاوضہ دیا جائے گا۔
بیکریوں کی اندرونی حالت دیکھ کر اندازہ ہوتا تھا کہ صفائی ستھرائی کا کوئی خاطر خواہ انتظام نہیں کیا جاتا تھا۔ مزدوروں کے ہاتھ بھٹی میں روٹی بنانے کے سانچے جل جاتے تھے۔ بیکریز میں آکسیجن کی کمی کی وجہ سے مزدور طپ دق اور کئی دوسری بیماریوں میں مبتلاء ہو جاتے تھے، جن کا کوئی علاج نہیں ہوتا تھا۔
جب بیکری کے مزدور اپنے حقوق کے لیے ہڑتالیں اور مظاہرے کرتے تھے تو انہیں ملازمت سے نکال دیا جاتا تھا۔ بیکری کے مالک ان کی جگہ گاؤں اور دیہاتوں سے نوجوانوں کو لاتے تھے۔ مگر یہ نہ تجربہ کار ہونے کی وجہ سے یہ روٹی بنانے کا کام نہیں کر پاتے تھے۔ اس لیے بیکری کے مالکان پرانے ملازمین سے سمجھوتہ کر کے انہیں دوبارہ ملازمت پر رکھ لیتے تھے۔
میکسیکو میں ایک اہم تبدیلی یہ آئی کہ یورپ کے دوسرے ملکوں سے مہاجرین کی آمد شروع ہوئی۔ ان میں آسٹریلین، جرمن اور فرانسیسی شامل تھے۔ ان نئے آنے والوں نے بھی اپنی اپنی بیکریاں قائم کیں جن کی وجہ سے آپس میں مقابلے کی ابتداء ہوئی کچھ بیکری والوں نے اپنی تجارت کے فروغ کے لیے، نوجوان لڑکے اور لڑکیوں کو بطور پھیری والا رکھا۔ جو صبح سویرے تازہ روٹی گھر گھر جا کر فروخت کرتے تھے۔ اس موضوع پر Robert Weis نے "Bakers and Basques" کے عنوان سے کتاب لکھی ہے۔
Basques فرانس اور اسپین کا سرحدی علاقہ ہے۔ 1870 کی دہائی میں فرانس اور Basques کے شہری بڑی تعداد میں میکسیکو آئے۔ Basques کے شہری اپنے اہل و عیال کو بھی لائے۔ انہوں نے اور شعبوں میں کام کے ساتھ ساتھ بڑی تعداد میں بیکریاں کھولیں، جس کی وجہ سے مقامی بیکریوں اور ان کے درمیان مقابلہ شروع ہو گیا۔ اس کا اثر میکسیکو کی سیاست پر بھی ہو گیا اور یہ نعرہ لگایا جانے لگا کہ میکسیکو میکسیکن والوں کے لیے ہے۔
میکسیکو کی اندرونی سیاست بھی غیر مستحکم رہی۔ اسے اسپین اور امریکہ سے کئی جنگیں لڑنا پڑیں۔ ٹیکساس جو میکسیکو کا حصہ تھا اس پر امریکہ نے جنگ کے ذریعے قبضہ کر لیا۔ اس کی وجہ سے میکسیکو کے اندر سخت سیاسی انتشار پیدا ہوا۔ اس صورتحال کو خراب کرنے میں بیکریز کا بھی بڑا ہاتھ تھا۔ ایک بیکری کی عمارت کی چھت گرنے سے اس کے اندر موجود مزدور ہلاک ہو گئے اور اس واقعے کا اثر بھی حالات پر پڑا۔ بیکریز کے مالکان، جن کا مقصد منافع کمانا تھا انہوں نے مزدوروں کی حالت زار پر کوئی توجہ نہیں دی۔ لہذا ایک جانب تو مزدوروں میں سیاسی شعور آیا تو دوسری جانب ان کا وقت شراب نوشی اور لڑنے جھگڑنے میں صرف ہونے لگا۔ شراب کے نشے میں قتل کی وارداتیں بھی ہوئیں اور مزدوروں کی بڑی تعداد جیلوں میں پہنچ گئی۔
میکسیکو کی حکومت نہ تو ملک میں امن و امان قائم رکھ سکی اور نہ ہی بیکریوں پر کنٹرول حاصل کر سکی۔ جب روٹی بازار سے غائب ہو جاتی تھی یا مہنگے داموں ملتی تھی، تو اس کا اثر سب سے زیادہ نچلے طبقے پر ہوتا تھا۔ اس صورتحال پر کسی کا تبصرہ تھا کہ میکسیکو سٹی کی سڑکیں مزدوروں کے آنسوؤں سے دھوئی جاتی ہیں۔
میکسیکو اس لیے تاریخی طور پر اہمیت کا حامل ہے کیونکہ یہ اسپین کی کالونی رہا۔ آزادی کے بعد یہاں پر کبھی آمریت رہی اور کبھی جمہوریت۔ لیکن ملک کے حالات نہیں بدل سکے۔ اس لیے کہا جاتا ہے کہ سب سے زیادہ انقلاب میکسیکو میں آئے۔ مگر اس کے باوجود یہ میکسیکو میں کوئی بڑی تبدیلی لے کر نہیں آئے۔
نوٹ: ڈی ڈبلیو اردو کے کسی بھی بلاگ، تبصرے یا کالم میں ظاہر کی گئی رائے مصنف یا مصنفہ کی ذاتی رائے ہوتی ہے، جس سے متفق ہونا ڈی ڈبلیو کے لیے قطعاﹰ ضروری نہیں ہے۔