1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

بیکنی یا پورا لباس: اسلامی یکجہتی گیمز تنازعے کا شکار

Ali Amjad20 ستمبر 2013

اسلامی یکجہتی گیمز 2013 ء کا آغاز 22 ستمبر سے انڈونیشیا میں ہو رہا ہے۔ مسلم ممالک کے کھلاڑیوں اور ایتھلیٹس پر مشتمل یہ ایونٹ اس بار خواتین ایتھلیٹس کی اسپورٹس بیکنی کے تنازعے کا شکار نظر آ رہا ہے۔

تصویر: AP

اسلامی یکجہتی گیمز میں شامل چند ممالک کا مطالبہ ہے کہ بیچ والی بال اور ایتھلیٹک گیمز، ٹریک اینڈ فیلڈ اور تیراکی وغیرہ میں حصہ لینے والی خواتین دوران کھیل ایسے لباس میں ملبوس ہوں جس سے اُن کا پورا جسم ڈھکا رہے۔ تاہم اس ایونٹ کی انتظامیہ نے ’ٹو پیسس اسپورٹنگ آؤٹ فٹ‘ یا بیکنی کو ترک کرنے سے انکار کر دیا ہے۔ اسلامی یکجہتی گیمز کی انتظامیہ کمیٹی کے ایک رکن ’جوکو پرامونو‘ نے اے ایف پی کو ایک بیان دیتے ہوئے کہا،’’ ہم نے اس ایونٹ میں بین الاقوامی قونین کے اطلاق پر اتفاق کیا ہے۔ اس میں ڈرس کوڈ بھی شامل ہے۔ جو ممالک بیکنی کا استعمال نہیں کرنا چاہتے وہ نہ کریں، تاہم دیگر ممالک جنہیں اس سے کوئی اعتراض نہیں ہے، ہم انہیں بیکنی کے استعمال کی اجازت دیں گے‘‘ ۔

ویک اینڈ سے انڈونیشیا میں شروع ہونے والے اسلامی یکجہتی گیمز 2013 ء میں شرکت کے لیے 44 مسلم اقوام کے ہزاروں ایتھلیٹس حصہ لے رہے ہیں۔ جوکو پرامونو کا کہنا ہے کہ خواتین ایتھلیٹس کے بیکنی پہننے پر اعتراض اُن ممالک کی طرف سے کیا گیا ہے جہاں اسلامی حکومتیں برسر اقتدار ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ایسی تمام حکومتوں نے مشترکہ طور پر بیکنی کے استعمال کی مخالفت کی ہے۔ تاہم انتظامیہ کمیٹی کے رکن جوکو پرامونو نے ان ممالک کا نام نہیں بتایا ہے۔ اس سال ان کھیلوں کا انعقاد دوسری بار ہو رہا ہے۔

سعودی عرب کی گھوڑسوار رُشدی ملہاستصویر: picture-alliance/dpa

اس سے قبل پہلی بار اس کا انعقاد سعودی عرب میں ہوا تھا جہاں نہ صرف خواتین ایتھلیٹس کے بیکنی پہننے پر پابندی تھی بلکہ مردوں اور خواتین کے مقابلے علیحدہ علیحدہ دن منعقد ہوئے تھے اور مردوں کو خواتین کی تیراکی کے مقابلوں کو دیکھنے کی اجازت نہیں تھی۔ چند ممالک نے اس بار بھی ان گیمز کی انتظامیہ سے مردوں اور خواتین کے مقابلوں کو علیحدہ علیحدہ دن منعقد کروانے کا مطالبہ کیا گیا تھا۔ تاہم انتظامیہ کمیٹی کے رکن جوکو پرامونو نے کہا کہ انہیں اس بات کا علم نہیں کہ کن ممالک نے بیکنی پہننے کا فیصلہ کیا ہے۔

ملیشیا، انڈونیشیا اور برونائی کی خواتین کھلاڑی ماضی میں متعدد مقابلوں میں بیکنی زیب تن کر چُکی ہیں۔ اس بار کے اسلامی یکجہتی گیمز کے انعقاد کے سلسلے میں کئی دشواریاں سامنے آئیں۔ اس مسلم ریاست میں بڑے اسپورٹس ایونٹس کے انعقاد کی تاریخ پُرانی ہے۔ اس بار اسلامی یکجہتی گیمز کئی ماہ تک مؤخر ہوتے رہنے کے بعد اتوار 22 ستمبر کو شروع ہو کر یکم اکتوبر تک جاری رہے گا۔ اس بار کے ان کھیلوں کے انعقاد کے مقام کے فیصلے میں بھی دو بار تبدیلی آئی اور اب یہ سماترا کے جزیرے پر واقع شہر پالمبانگ میں منعقد ہو رہے ہیں۔

جوڈو، کراٹے، ٹینس اور دیگر کھیلوں میں ایرانی خواتین صف اول میںتصویر: picture alliance / dpa

اس بار کا اصل میزبان شہر پیکن بارو تھا جہاں کے گورنر کرپشن کے متعدد اسکینڈلز کے سخت دباؤ میں ہیں اسی لیے جب اس کے اسٹیڈیم کو بلامعاوضہ کام کرنے والے مزدورں نے بند کر دیا تو گورنر اس کے خلاف کچھ نہ کر سکے۔ اس کے سبب دارالحکومت جکارتہ کو اس بار کے اسلامی یکجہتی گیمز کا میزبان بنانے کا فیصلہ کیا گیا جو قائم نہ رہ سکا اور آخر کار یہ میزبانی پالمبانگ شہر کو اُس وقت سونپ دی گئی جب سماترا حکام نے اس بات کی شکایت کی کہ منتظمین کو اتنے بڑے ایونٹ کی تیاری کے لیے محض دو مہینے کا وقت دیا گیا ہے۔

2011 ء میں ساؤتھ ایشین گیمز کے چند حصوں کا انعقاد بھی پالمبانگ کمپلیکس میں ہوا تھا تاہم تب فوڈ پوائزننگ کا ناخوشگوار واقعہ پیش آیا تھا جس کا شکار متعدد ایتھلیٹس ہوئے تھے۔ اس وجہ سے اس بار کے اسلامی یکجہتی گیمز کے پالمبانگ میں انعقاد پر اکثر لوگ تشویش ظاہر کر رہے ہیں۔

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں
ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ سیکشن پر جائیں

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ

ڈی ڈبلیو کی مزید رپورٹیں سیکشن پر جائیں