1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

 بیگمات کی جنگ میں شیخ حسینہ آگے

بینش جاوید AFP
24 دسمبر 2018

تازہ ترین سروے کے مطابق اس ہفتے بنگلہ دیش میں ہونے والے عام انتخابات میں ملکی وزیر اعظم شیخ حسینہ کامیابی حاصل کر سکتی ہیں جب کہ ان کے مخالفین کو ایک غیر یقینی صورتحال کا سامنا ہے۔

Bangladesh Wahl  Sheikh Hasina
تصویر: PID

نیوز ایجنسی اے ایف پی کی رپورٹ کے مطابق بنگلہ دیش کی ’جنگ لڑتی ہوئی بیگمات‘ گزشتہ تین دہائیوں سے سیاسی میدان میں ایک دوسرے کے مد مقابل ہیں۔ اس سال 71 سالہ شیخ حسینہ کو اپنی روایتی حریف 73 سالہ خالدہ ضیاء پر برتری حاصل ہے۔ خالدہ ضیاء بنگلہ دیش کے سابق فوجی آمر کی اہلیہ ہیں تو حسینہ کے والد بنگلہ دیش کے بانی کہلائے جاتے ہیں۔

ان خواتین نے 1990ء میں فوجی آمر حسین محمد ارشاد کا تختہ الٹنے اور ملک میں جمہوریت کی بحالی کے لیے ہاتھ ملائے تھے لیکن یہ بیگمات 1991ء میں ضیاء کے وزیر اعظم منتخب ہونے کے بعد سے ایک دوسرے کی سیاسی حریف بن گئیں۔ اس مرتبہ انتخابات میں کامیاب ہونے کی صورت میں شیخ حسینہ بنگلہ دیش کی قیادت چوتھی مرتبہ سنبھالیں گی۔ دوسری جانب خالدہ ضیاء بنگلہ دیش کی جیل میں مالی بدعنوانی کے الزمات پر سترہ سالہ سزا کاٹ رہی ہیں۔ ان کی سیاسی جماعت  بنگلہ دیش نیشلسٹ  پارٹی ( بی این پی) ان الزمات کو رد کرتے ہوئے کہتی ہے کہ ضیاء کے خلاف کیسز سیاسی نوعیت کے ہیں۔

ضیاء کے سیاسی زوال کا آغاز 2014ء کے انتخابات کا بائیکاٹ کرنے سے ہواتصویر: AP

جیل میں قید کا مطلب یہ بھی ہے کہ خالدہ ضیاء انتخابات میں حصہ نہیں لے سکتی۔ بی این پی نے پہلے ہی ان انتخابات کے منصفانہ ہونے پر سوال اٹھا دیے ہیں۔ اس جماعت کے مطابق حالیہ کچھ ماہ میں ہزاروں سیاسی کارکنان کو گرفتار کر لیا گیا ہے۔ 73 سالہ ضیاء  ذیابیطس اور جوڑوں کے درد کی مریضہ ہیں، وہ اپنا ایک گھٹنہ تبدیل کرا چکی ہیں اور اپنے ایک ہاتھ کو ہلانے سے بھی قاصر ہیں۔ مغربی سفارت کاروں کے مطابق ضیاء کا سیاسی سفر اب اختتام پذیر ہو گیا ہے۔ ڈھاکہ میں تعینات ایک مغربی ملک کے سفیر کا کہنا ہے،’’ضیاء سیاسی طور پر اب ختم ہو گئی ہیں، جیل سے فرار کا واحد راستہ یہی ہے کہ انہیں طبی بنیادوں پر ملک سے باہر بھجوا دیا جائے۔‘‘

ضیاء کے جیل میں ہونے کا گہرا اثر ان کے خاندان پر بھی پڑا ہے۔ ان کے سب سے چھوٹے بیٹے بینکاک میں جلا وطنی کی زندگی گزارنے کے دوران ہلاک ہوگئے جبکہ ان کے سب سے بڑے بیٹے طارق رحمان  2008ء سے لندن میں جلا وطنی کی زندگی گزار رہے ہیں۔ اس سال اکتوبر میں طارق رحمان کو 2004ء میں شیخ حسینہ کی ریلی پر گرینیڈ حملہ کرنے کے الزام میں بنگلہ دیش کی عدالت نے عمر قید کی سزا سنائی تھی۔ اس حملے میں قریب بیس افراد ہلاک ہو گئے تھے۔

خالدہ ضیا کو مزید سات برس قید کی سزا

انتخابات، بنگلہ دیش میں سخت گیر مسلمان کیوں مقبول ہو رہے ہیں؟

تجزیہ کاروں کی رائے میں ضیاء جیل میں ہونے کے باوجود انتخابی عمل پر گہرا اثر رکھ سکتی ہیں۔ ایلینائے اسٹیٹ یونیورسٹی کے پروفیسر  علی ریاض کے مطابق،’’خالدہ ضیاء اگر چہ انتخابات میں حصہ نہیں لے رہی لیکن ان کا نام اور ان کا اثر و رسوخ اب بھی باقی ہے۔‘‘

ضیاء کے سیاسی زوال کا آغاز 2014ء کے انتخابات کا بائیکاٹ کرنے سے ہوا۔ اس فیصلے کے بعد ہنگاموں میں50 افراد ہلاک ہو گئے تھے اور شیخ حسینہ کو وقت سے پہلے انتخابات کروانے پڑے تھے۔ بہت سے افراد کی رائے میں اس وقت شیخ حسینہ نے بی این پی کے کارکنان کے خلاف کریک ڈاؤن کروایا تھا۔ اس صورتحال میں شیخ حسینہ ایک فاتح کے طور پر ابھری تھیں۔ تاہم اب بھی یہ تصور کیا جاتا ہے کہ ضیاء خاندان بی این پی پر ایک بھاری گرفت رکھتا ہے اور ان کا اثر و رسوخ قائم رہے گا۔ اوسلو یونیورسٹی کے لیکچرار مبشر حسن کا کہنا ہے،’’ ایسے اشارے واضح ہیں جن سے پتا چلتا ہے کہ ضیاء خاندان اپنی سیاسی جماعت  میں کافی مظبوط پوزیشن پر ہے۔‘‘

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ سیکشن پر جائیں

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ

ڈی ڈبلیو کی مزید رپورٹیں سیکشن پر جائیں