1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

بی ایس کالجز کے مسائل اور ایک استانی کی استدعا

6 جون 2024

ہائر ایجوکیشن کمیشن نے دو سالہ ایم اے ختم کر کے چار سالہ بی ایس ڈگری کو رائج کیا۔ اس کے لیے یونیورسٹیز میں حسب معمول ہر طرح کی سہولیات جو پہلے بھی موجود تھیں، ان میں اضافے کی کوشش جارہی ہے۔ لیکن اس سے مسائل بڑھے ہی ہیں۔

تصویر: Privat

ہائر ایجوکیشن کمیشن کی طرف سے پبلک سیکٹر یونیورسٹیز کو دی جانے والی فنڈنگ پر پابندی لگا دی گئی ہے اور ان اداروں کو اپنے وسائل خود پید اکرنے کے لیے آزاد کر دیا۔ اب یونیورسٹیز نے اپنی معاشی ضرورتیں پوری کرنے کے لیے اپنے اپنے علاقے میں واقع سرکاری اور نجی کالجز کو بھی دو سالہ ایسوسی ایٹ ڈگری، جو چار سمسٹرز پر مشتمل ہوتی ہے اور چار سالہ بی ایس ڈگری، جس میں آٹھ سمسٹرز شامل ہوتے ہیں، کی اجازت دینا شروع کردی۔ 

جن کالجز میں بی ایس ہو رہا ہے انہیں گریجویٹ کالجز کا نام دیا گیا اور ان تمام ملحق کالجز کو انگلش میں affiliated colleges اور اردو میں الحاق شدہ کالجزکا نام دیا گیا ہے۔ اب یہ الحاق شدہ کالجز چند بنیادی شرائط کے ساتھ ان یونیورسٹیز کو طے شدہ رقم ہر بی ایس پروگرام کے سالانہ اور سمسٹر فیس کی مد میں ادا کرتے ہیں۔

بظاہر یہ ایسے طلبا و طالبات کے لیے سنہری موقع ہوتا ہے، جو مہنگی ڈگریاں کرنے کے اہل نہیں ہوتے۔ انہیں سستی اعلی تعلیم کا موقع مل جاتا ہے اور وہ بھی مارکیٹ میں ملازمتوں کے مواقع حاصل کرنے کے قابل ہوجاتے ہیں۔ لیکن اس ڈیل کے بدلے میں سب سے پہلے دو سالہ ایم اے کی ڈگری کو قربان کر دیا گیا، جو بہت حوالوں سے بہت بہتر تھی۔  

اب  اے ڈی پی اور بی ایس میں ایک تو طالب علموں کو جب آٹھ سمسٹر دکھائی دیتے ہیں تو اکثر اوقات شروع کرنے سے پہلے ہی ہمت ہار جاتے ہیں۔ پھر ہوتا یوں ہے کہ کالجز میں اکثر بغیر کسی میرٹ کے کلاسز کا پیٹ بھرنے کے لیے آنے والے ہر طالب علم کا داخلہ کر لیا جاتا ہے۔ جو دوسرے تیسرے سیمسٹر تک جاتے جاتے یا تو ڈراپ ہوجاتے ہیں یا پھر ان کا مزاج بگڑ جاتا ہے اور وہ ڈگری ادھوری چھوڑ کر چلے جاتے ہیں۔

اب ایسے میں اگر کالجز میں داخل ہوتے وقت کی تعداد اور ڈگری مکمل کر کے جانے والوں کی تعداد کا موازنہ کریں تو  اندازہ ہوتا ہے کہ بہت سے پروگرامز راستے میں ہی کہیں دم توڑ جاتے ہیں۔ اب اس ڈراپ ہونے یا ادھورا چھوڑ جانے کی وجوہات پر توجہ دیں تو پہلا مسئلہ جو سمجھ آتا ہے وہ یہ ہے کہ لائبریریز، لیبارٹریز اور دیگر سہولیات جو یونیورسٹی کی طالب علموں کو ملتی ہیں ان کا عشر عشیر بھی کالجز میں زیر تعلیم بچوں کو نہیں ملتا۔ 

دوسرا بڑا مسئلہ نمبروں کی تقسیم کا ہے کہ چالیس یا پچاس فی صد نمبر کالج کے اساتذہ کے ہاتھ میں ہوتے ہیں جبکہ باقی  کے پچاس یا ساٹھ فی صد نمبر یونیورسٹی اپنے ہاتھ میں رکھتی ہے۔ اب ہوتا یہ ہے کہ جہاں یونیورسٹی کا استاد اپنی مرضی سے نصاب کم یا زیادہ کر کے پڑھا سکتا ہے اور اپنی مرضی سے امتحان کا سلیبس مختص کر سکتا ہے، ساتھ ہی ساتھ سو کے سو نمبر اس کے ہاتھ میں ہوتے ہیں تو وہ اپنے طالب علموں کو شاذ ہی فیل یا ڈراپ ہونے دیتا ہے لیکن کالج کے طالب علم یونیورسٹی کی طرف سے جاری کردہ نصاب  کو مکمل طور پر فالو کرنے کے باوجود بھی یونیورسٹی کی طرف سے منعقد کیے امتحان میں فیل ہوجاتے ہیں کیونکہ زیادہ تر پیپر سلیبس آوٹ لائن سے باہر ہی دیا جاتا ہے۔ اس طرح ان کی حوصلہ شکنی بھی ہوتی ہے اور وہ بار بار امتحان دینے کے اذیت ناک مرحلے سے بھی گزرتے ہیں۔

تیسرا مسئلہ یونیورسٹیز اور کالجز کے ماحول کا ہے، جس میں زمین آسمان کے فرق ہے۔ آپ بھلے کالجز میں سائنس کی اعلیٰ ڈگریاں ہی کیوں نہ آفر کر رہے ہوں مگر یہاں کے ماحول میں خوامخواہ کی پابندیاں سٹوڈنٹس میں وہ اعتماد اور شخصیت میں نکھار پیدا ہی نہیں ہونے دیتیں، جس کی وجہ سے ایک تعلیم یافتہ اور غیر تعلیم یافتہ شخص میں فرق پیدا ہوتا ہے۔

اب چوتھے اور سب سے اہم مسئلے کی طرف آتے ہیں کہ اساتذہ کو ایف اے اور بی ایس کی کلاسز میں پورا سال مصروف رکھا جاتا ہے۔ یونیورسٹیز اور کالجز کے داخلہ شیڈول میں بھی چونکہ فرق رکھا جاتا ہے اور امتحانات کے شیڈول میں بھی سمر اور ونٹر بریک بھی چھٹی نہ بچوں کو ملتی ہے نہ ٹیچرز کو۔ اس وجہ سے پورا سال مسلسل حاضر رہنے کی وجہ سے ان پروگرامز کے ساتھ جڑے ہوئے لوگوں کو عالمی معیار کے مطابق کارکردگی میں بہتری کے لیے ملنے والی بریک کا کوئی حق نہیں ملتا۔

جبکہ یونیورسٹیز اساتذہ کی تنخواہیں بھی کالج اساتذہ کے مقابلے میں زیادہ ہوتی ہیں۔ انہیں ملازمت کے بنیادی حقوق بھی حاصل ہوتے ہیں۔ ان کے شعبوں میں انہیں پراپر آفسز دیے جاتے ہیں۔ کلاسز میں فرنیچر اور ایئر کنڈیشنرز بھی موجود ہوتے ہیں  اس لیے ان آفس اوقات اگر زیادہ بھی ہوں تو انہیں باقاعدہ سہولتوں کے ساتھ کم مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔

اس کے برعکس کالجز کی مختصرعمارتیں اور گرمی سردی میں لوڈ شیڈنگ، فرنیچر کی اکثر مخدوش صورت حال اور اساتذہ کے بیٹھنے کے لیے باقاعدہ آفسز کی عدم موجودگی کے باعث ان کے لیے نئے موضوعات پر تحقیق اور مطالعہ تقریبا نا ممکن ہوتا ہے۔

لہٰذا ان کمیٹیوں سے درخواست ہے جو یونیورسٹیز کو کالجز کے ساتھ الحاق کی اجازت دیتی ہیں وہ ان مذکور مسائل کے حل کی طرف بھی غور فرمائیں تاکہ کالجز میں ہونے والی ڈگریوں کا فائدہ طالب علموں کو ویسے ہی ہو جیسے یونیورسٹیز سے فارغ التحصیل طلبا وطالبات کو ہوتا ہے۔

اور آخری بات یہ کہ تمام پروگرامز کو نئے تقاضوں سے ہم آہنگ کیا جائے، پیشہ ورانہ مہارتوں کو بھی نصاب کا حصہ بنایا جائے اور  ایسی تمام ڈگریوں کو جن کا تعلق سوشل سائنسز اور ہیومینیٹیز کے گروپ سے ہے، خاص طور پر ان میں ایسے علوم کو شامل کیا جائے تاکہ ڈگری یافتہ افراد ان اداروں سے جانے کے بعد روزگار حاصل کرنے میں کامیاب ہو سکیں۔

کیونکہ اکثر طالب علموں کا کہنا ہے کہ جو کچھ ہمیں نصاب میں پڑھایا جاتا ہے وہ فیلڈ میں تو کام ہی نہیں آتا۔ لہذا نصاب ترتیب دینے والوں سے بھی دس بستہ گزارش ہے کہ آپ ایک سٹوڈنٹ کا اچھا خاصا وقت اور پیسہ لگوانے کے بعد اسے مارکیٹ میں کام کے قابل تو بنا کر بھیجیں تاکہ اسے کوئی فائدہ بھی حاصل ہو۔

نوٹ: ڈی ڈبلیو اردو کے کسی بھی بلاگ، تبصرے یا کالم میں ظاہر کی گئی رائے مصنف یا مصنفہ کی ذاتی رائے ہوتی ہے، جس سے متفق ہونا ڈی ڈبلیو کے لیے قطعاﹰ ضروری نہیں ہے۔‍

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ سیکشن پر جائیں

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ

ڈی ڈبلیو کی مزید رپورٹیں سیکشن پر جائیں