سیاسی پناہ کی تلاش میں جرمنی کا رخ کرنے والے افراد میں سے کون پناہ کا مستحق ہے اور کون نہیں، یہ طے کرنا مہاجرت و ترک وطن کے وفاقی جرمن دفتر (بی اے ایم ایف) کی ذمہ داری ہے۔
اشتہار
بی اے ایم ایف کی کیا ذمہ داریاں ہیں؟
جرمنی میں اس وفاقی ادارے کا قیام سن 2005 میں عمل میں آیا تھا۔ اس سے قبل اس ادارے کا نام ’غیر ملکی مہاجرین کو تسلیم کرنے کا وفاقی ادارہ‘ ہوا کرتا تھا جو 1953 میں جنیوا کنونشن میں جرمنی کی شمولیت کے بعد قائم ہوا تھا۔ پچاس کی دہائی میں اس ادارے کے ملازمین کی تعداد محض چالیس تھی تاہم اس کے قیام کے پہلے عشرے میں پناہ کی تلاش میں جرمنی کا رخ کرنے والے افراد کی تعداد بھی نہایت کم تھی۔
تاہم سوویت یونین یونین کے خاتمے بعد یہ صورت حال تیزی سے بدل گئی اور بڑی تعداد میں پناہ کی تلاش میں جرمنی آنے والے افراد کی درخواستوں کا جائزہ لینے کے لیے اس ادارے نے ملک بھر اڑتالیس مراکز قائم کیے، اور ادارے کے ملازمین کی تعداد بھی چار ہزار کر دی گئی تھی۔
سن 2005 میں اس ادارے کی تنظیمِ نو کے بعد اسے بی اے ایم ایف کا نام دے دیا گیا اور اس کی ذمہ داریوں میں بھی توسیع کر دی گئی۔ ادارے کو سیاسی پناہ کی درخواستوں پر فیصلے کیے جانے کے علاوہ تارکین وطن کو جرمن زبان سکھانے اور ان کے سماجی انضمام کے لیے اقدامات کرنے کی اضافی ذمہ داریاں بھی سونپ دی گئیں۔ علاوہ ازیں پناہ کے مسترد درخواست گزاروں کی ملک بدری کے انتظامات کرنے کا کام بھی بی اے ایم ایف کو دے دیا گیا۔
جرمنی سے پاکستانیوں کی ملک بدریاں: کب، کتنے، کس قیمت پر؟
گزشتہ برس جرمنی سے بائیس ہزار افراد کو ملک بدر کیا گیا جن میں سے قریب نو ہزار کو خصوصی پروازوں کے ذریعے وطن واپس بھیجا گیا۔ ان میں کتنے پاکستانی تھے اور انہیں کب اور کس قیمت پر ملک بدر کیا گیا؟ جانیے اس پکچر گیلری میں۔
تصویر: picture-alliance/dpa/Seeger
26 جنوری 2017
اس دن جرمن شہر ہینوور کے ہوائی اڈے ایک خصوصی پرواز کے ذریعے سات پاکستانی تارکین وطن کو واپس پاکستان بھیجا گیا۔ اس فلائٹ میں چوبیس جرمن اہلکار بھی پاکستانی تارکین وطن کے ہمراہ تھے اور پرواز پر قریب سینتالیس ہزار یورو خرچ ہوئے۔
تصویر: picture-alliance/dpa/D. Maurer
7 مارچ 2017
ہینوور کے بین الاقوامی ہوائی اڈے سے اس روز خصوصی پرواز کے ذریعے چودہ پاکستانی ملک بدر ہوئے۔ ان کے ہمراہ وفاقی جرمن پولیس اور دیگر وفاقی اداروں کے اٹھائیس اہلکار بھی تھے جب کہ ملک بدری کے لیے اس فلائٹ کا خرچہ پینتالیس ہزار یورو رہا۔
تصویر: Imago/epd
29 مارچ 2017
یونانی حکومت کے زیر انتظام ملک بدری کی یہ خصوصی پرواز بھی ہینوور ہی سے روانہ ہوئی جس کے ذریعے پانچ پاکستانی شہریوں کو وطن واپس بھیجا گیا۔ اس پرواز میں اٹھارہ جرمن اہلکار بھی سوار تھے اور فلائٹ کا خرچہ ساڑھے بیالیس ہزار یورو رہا۔
تصویر: picture-alliance/dpa/M. Balk
25 اپریل 2017
اس روز بھی خصوصی پرواز ہینوور کے بین الاقوامی ہوائی اڈے سے روانہ ہوئی جس کے ذریعے تین پاکستانی تارکین وطن کو ملک واپس بھیجا گیا۔ ان تارکین وطن کے ساتھ وفاقی جرمن پولیس کے گیارہ اہلکار بھی پاکستان گئے اور پرواز پر خرچہ اڑتیس ہزار یورو آیا۔
تصویر: picture-alliance/dpa/P.Seeger
7 جون 2017
جرمن دارالحکومت برلن کے شونے فیلڈ ہوائی اڈے سے روانہ ہونے والی اس خصوصی پرواز کے ذریعے چودہ پاکستانی تارکین وطن ملک بدر کیے گئے۔ پرواز میں 37 جرمن اہلکار بھی موجود تھے اور خرچہ تیس ہزار یورو رہا۔
تصویر: picture alliance/dpa/B. Wüstneck
19 جولائی 2017
تارکین وطن کی اجتماعی ملک بدری کی اس خصوصی پرواز کا انتظام بھی ایتھنز حکومت نے کیا تھا اور اس کے ذریعے نو پاکستانی پناہ گزینوں کو ملک بدر کیا گیا۔ ہینوور ہی سے اکیس اہلکاروں اور نو تارکین وطن کو پاکستان لے جانے والی اس فلائٹ پر برلن حکومت کے ساڑھے سینتیس ہزار یورو خرچ ہوئے۔
تصویر: picture-alliance/dpa/M. Balk
5 ستمبر 2017
آسٹرین حکومت کے زیر انتظام یہ پرواز ہینوور کے ہوائی اڈے سے ایک پاکستانی شہری کو وطن واپس لے گئی جس کے ہمراہ چار جرمن اہلکار بھی تھے۔
تصویر: picture alliance/dpa/S. Willnow
20 ستمبر 2017
اسی ماہ کی بیس تاریخ کو ہینوور ہی سے ایک خصوصی پرواز گیارہ تارکین وطن کو واپس پاکستان لے گئی اور ان کے ہمراہ بیس جرمن اہلکار بھی تھے۔ اس پرواز کے لیے جرمن حکومت نے ساڑھے سینتیس ہزار یور خرچ کیے۔
تصویر: picture-alliance/dpa/M. Balk
7 نومبر 2017
اس روز بھی آسٹرین حکومت کے زیر انتظام ایک خصوصی پرواز میں جرمن شہر ہینوور سے پانچ پاکستانیوں کو ملک بدر کیا گیا۔ بیس جرمن اہلکار بھی ان کے ساتھ تھے اور پرواز پر خرچہ تیس ہزار یورو رہا۔
تصویر: picture alliance/dpa/M.Balk
6 دسمبر 2017
برلن سے روانہ ہونے والی اس خصوصی پرواز کے ذریعے 22 پاکستانی پناہ گزینوں کو ملک بدر کیا گیا۔ وفاقی جرمن پولیس کے 83 اہلکار انہیں پاکستان تک پہنچانے گئے۔ پرواز کا انتظام برلن حکومت نے کیا تھا جس پر ڈیڑھ لاکھ یورو خرچ ہوئے۔
تصویر: picture-alliance/dpa/Seeger
10 تصاویر1 | 10
بی اے ایم ایف کے قیام کے بعد سے جرمنی مہاجرین اور تارکین وطن کو ابتدائی رجسٹرین کے مراکز میں آنا ہوتا ہے جہاں ان کا ابتدائی طبی معائنہ کیے جانے کے بعد ان کی شناختی دستاویزات کا جائزہ لیا جاتا ہے۔ بعد ازاں بی اے ایم ایف کے اہلکار ان تارکین وطن کا انفرادی انٹرویو بھی لیتے ہیں۔
ابتدائی انٹرویو کیوں ضروری ہے؟
جرمنی میں سیاسی پناہ کے درخواست گزاروں کا انفرادی طور پر انٹرویو کیا جانا قانونی طور پر لازمی ہے۔ پناہ کے متلاشی افراد بی اے ایم ایف کے اہلکاروں کے ساتھ انفرادی انٹرویو کے دوران حکام کو بتاتے ہیں کہ انہیں اپنے ملک میں کیا خطرات لاحق تھے اور انہیں جرمنی میں پناہ کی ضرورت کیوں ہے۔
وفاقی جرمن ریاست بریمن میں بی اے ایم ایف کے علاقائی دفتر نے اسی قانونی تقاضے پر عمل نہیں کیا تھا اور قریب بارہ سو تارکین وطن کو ابتدائی انٹرویو کے بغیر ہی مہاجر تسلیم کرتے ہوئے جرمنی میں پناہ دے دی گئی تھی۔
سن 2015 میں جرمنی میں لاکھوں مہاجرین کی آمد کے بعد بی اے ایم ایف کے اہلکاروں کے لیے ہر پناہ گزین کا مفصل انفرادی انٹرویو کرنا ایک مشکل مرحلہ تھا۔ ادارے پر کام کے اسی دباؤ کے باعث فرانکو اے نامی ایک جرمن شہری بھی خود کو بطور مہاجر رجسٹر کرانے میں کامیاب رہا تھا۔
بی اے ایم ایف کے اہلکار کتنے تربیت یافتہ ہیں؟
جرمنی میں پناہ کے درخواست گزاروں کی تعداد سن 2014 ہی میں بڑھنا شروع ہو گئی تھی اور سن 2015 میں قریب ایک ملین افراد نے جرمنی میں سیاسی پناہ کے حصول کے لیے درخواستیں جمع کرائی تھیں۔ تاہم وفاقی حکومت نے اس وقت بی اے ایم ایف کے اہلکاروں کی تعداد میں اضافہ نہیں کیا تھا جس کی وجہ سے درخواستیں نمٹانے میں زیادہ وقت صرف ہو رہا تھا۔
سن 2016 میں چانسلر میرکل نے فرانک یُرگن وائزے کو بی اے ایم ایف کا سربراہ تعینات کیا جو اس وقت جرمنی کے وفاقی دفتر روزگار کے سربراہ بھی تھے۔ انتظامی امور میں وسیع تجربہ رکھنے والے وائزے نے ادارے کی کارکردگی نمایاں طور پر بہتر بنائی۔
وفاقی حکومت نے بھی ادارے میں سات ہزار تین سو نئے ملازمین بھرتی کرنے کے علاوہ مختلف سرکاری اداروں سے تعلق رکھنے والے سولہ سو اہلکاروں کو عارضی طور پر بی اے ایم ایف میں تعینات کر دیا۔ وقت کی قلت اور درخواستوں کی بڑی تعداد کے پیش نظر ان تمام اہلکاروں کو پناہ کی درخواستوں پر فیصلے کرنے کے لیے باقاعدہ تربیت فراہم نہیں کی جا سکتی تھی، اس لیے انہیں صرف ’کریش کورس‘ کروا کر ہی پناہ کی درخواستیں نمٹانے کا مشکل کام سونپ دیا گیا۔
بی اے ایم ایف کس کی نگرانی میں کام کرتا ہے؟
یہ وفاقی ادارہ ملکی وزارت داخلہ کے تحت کام کرتا ہے اور اس کی نگرانی کے لیے کوئی غیر جانب دار کمیٹی نہیں ہے۔ اس ادارے کو سیاسی پناہ کی درخواستوں پر فیصلوں کے بارے میں اپنی سالانہ رپورٹ لازمی طور پر برلن حکومت کو پیش کرنا پڑتی تھی تاہم سن 2013 میں وفاقی وزارت داخلہ نے اس ادارے کو سالانہ رپورٹ پیش کرنے سے استثنیٰ فراہم کر دیا۔
بریمن میں مبینہ طور پر رشوت لے کر اور خلاف ضابطہ پناہ دیے جانے کے واقعات سامنے آنے کے بعد اس استثنیٰ کو ختم کر دیا گیا ہے۔ وفاقی وزیر داخلہ ہورسٹ زیہوفر کے پارلیمانی سیکریٹری اسٹیفان مائیر کا کہنا ہے کہ بریمن اسکینڈل کے بعد سے بی اے ایم ایف میں کئی طرح کی اصلاحات متعارف کرا دی گئی ہیں۔ ستمبر سن 2017 کے بعد سے پناہ کی ہر درخواست پر کم از کم دو افراد فیصلہ کر رہے ہیں۔
بی اے ایم ایف کا مستقبل کیا ہے؟
بریمن میں مبینہ طور پر رشوت لے کر پناہ دیے جانے کے اسکینڈل کی تحقیقات کی جا رہی ہیں۔ وفاقی وزیر داخلہ کے مطابق اس کے علاوہ علاقائی دفتر کے قریب دو ہزار فیصلوں کا از سر نو جائزہ بھی لیا جا رہا ہے جب کہ بی اے ایم ایف بریمن شاخ کو تحقیقات مکمل ہونے تک مزید فیصلے کرنے سے بھی روک دیا گیا ہے۔
مؤقر جرمن جریدے ’اشپیگل‘ کے مطابق تحفظ آئین کے وفاقی جرمن ادارے اور جرائم کی تحقیقات کرنے والے وفاقی ادارے کو بھی بی اے ایم ایف کی بریمن شاخ میں کی جانے والی مبینہ بے ضابطگیوں کی تفتیش کرنے والی کمیٹی میں شامل کر لیا گیا ہے۔
تاہم موجودہ صورت حال میں بی اے ایم ایف بطور ادارہ اور اس کی سربراہ یوٹا کورڈٹ سمیت وفاقی جرمن حکومت کو بھی شدید دباؤ کا سامنا ہے۔
ش ح/ ص ح (یولیا ورجن، ڈی ڈبلیو)
2017ء: کس ملک کے کتنے شہری پناہ کی تلاش میں جرمنی پہنچے؟
جرمنی میں سن 2017 کے دوران مہاجرین اور تارکین وطن کی آمد میں نمایاں کمی دیکھی گئی۔ 2017 میں ایک لاکھ اسی ہزار، 2016 میں دو لاکھ اسی ہزار جب کہ سن 2015 میں قریب ایک ملین افراد پناہ کی تلاش میں جرمنی آئے تھے۔
تصویر: Getty Images/AFP/A. Messinis
۱۔ شام
2017ء میں بھی جرمنی میں سب سے زیاد مہاجرین خانہ جنگی کے شکار ملک شام سے آئے۔ بی اے ایم ایف کے مطابق سن 2017ء میں شام کے پچاس ہزار سے زائد شہریوں نے جرمنی میں سیاسی پناہ کی درخواستیں جمع کرائیں۔ قریب 92 فیصد شامیوں کو پناہ دی گئی۔
تصویر: Getty Images/AFP/A. Messinis
۲۔ عراق
عراقی مہاجرین دوسرے نمبر پر رہے اور گزشتہ برس تئیس ہزار چھ سو سے زائد عراقیوں نے جرمنی میں حکام کو پناہ کی درخواستیں دیں۔ چھپن فیصد سے زائد عراقی شہریوں کو پناہ کا حقدار سمجھا گیا۔
۳۔ افغانستان
گزشتہ برس افغان شہریوں کی جرمنی آمد اس سے گزشتہ برس کے مقابلے میں آٹھ فیصد کم ہونے کے باوجود افغان تارکین وطن اٹھارہ ہزار سے زائد درخواستوں کے ساتھ تعداد کے لحاظ سے تیسرے نمبر پر رہے۔ چوالیس فیصد افغان درخواست گزار پناہ کے حقدار قرار پائے۔
تصویر: picture-alliance/dpa/B. Thissen
۴۔ اریٹریا
افریقی ملک اریٹریا کے دس ہزار سے زائد شہریوں نے بھی جرمنی میں پناہ کی درخواستیں دیں۔ اریٹرین باشندوں کو جرمنی میں پناہ ملنے کی شرح 83 فیصد رہی۔
تصویر: picture alliance/dpa/U. Zucchi
۵۔ ایران
2017ء میں اسلامی جمہوریہ ایران کے نو ہزار سے زائد شہری پناہ کی تلاش میں جرمنی پہنچے اور ان کی درخواستوں کی کامیابی کا تناسب پچاس فیصد کے لگ بھگ رہا۔
تصویر: DW/R. Shirmohammadi
۶۔ ترکی
ترکی میں ناکام فوجی بغاوت کے بعد حکومتی کریک ڈاؤن کے بعد ساڑھے آٹھ ہزار ترک شہریوں نے جرمنی میں پناہ کی درخواستیں جمع کرائیں۔ ترک شہریوں کو پناہ ملنے کا تناسب اٹھائیس فیصد رہا۔
تصویر: Imago/Chromeorange/M. Schroeder
۷۔ نائجیریا
افریقی ملک نائجیریا سے بھی مزید آٹھ ہزار تین سو تارکین وطن گزشتہ برس جرمنی پہنچے۔ اس برس محض 17 فیصد نائجیرین باشندوں کو جرمنی میں پناہ ملی۔
تصویر: A.T. Schaefer
۸۔ صومالیہ
ساتویں نمبر پر ایک اور افریقی ملک صومالہ رہا، جہاں سے ساڑھے سات ہزار سے زائد نئے تارکین وطن گزشتہ برس پناہ کی تلاش میں جرمنی پہنچے۔ دیگر افریقی ممالک کے مقابلے میں صومالیہ کے شہریوں کو پناہ ملنے کا تناسب بھی زیادہ (اسی فیصد سے زائد) رہا۔
تصویر: picture-alliance/dpa/M. Skolimowska
۹۔ روس
سن 2017 میں روس سے تعلق رکھنے والے چھ ہزار شہری پناہ کی تلاش میں جرمنی آئے۔ تاہم روسی شہریوں کو پناہ ملنے کی شرح محض نو فیصد رہی۔
تصویر: Dimitriy Chunosov
۱۰۔ جن کی قومیت معلوم نہیں
اس برس دسویں نمبر پر ایسے تارکین وطن رہے جن کی قومیت شناخت کے بارے میں جرمن حکام کو علم نہیں۔ بی اے ایم ایف کے مطابق ایسے افراد کی تعداد قریب ساڑھے چار ہزار سے کچھ رہی۔
تصویر: picture-alliance/dpa/U. Deck
۱۱۔ پاکستان
سن 2011 کے بعد اس برس پاکستانی تارکین وطن تعداد کے اعتبار سے پہلی مرتبہ ٹاپ ٹین ممالک میں شامل نہیں تھے۔ سن 2017 میں قریب ساڑھے چار ہزار پاکستانیوں نے جرمنی میں حکام کو پناہ کی درخواستیں دیں۔