علاقائی حکام کو پناہ کی درخواستوں پر فیصلوں سے روک دیا گیا
23 مئی 2018
جرمن وزیر داخلہ ہورسٹ زیہوفر نے جرمنی کے وفاقی دفتر برائے مہاجرت اور ترک وطن (بی اے ایم ایف) کے وفاقی ریاست بریمن میں علاقائی دفتر کو تارکین وطن کی سیاسی پناہ کی درخواستوں پر فیصلے کرنے سے روک دیا۔
اشتہار
یہ فیصلہ ملکی تاریخ میں سیاسی پناہ دینے میں بدعنوانی کے سب سے بڑے اسکینڈل کے باعث پیدا ہونے والے دباؤ کے تحت کیا گیا ہے۔ بی اے ایم ایف کی بریمن شاخ کے اعلیٰ اہلکار پر الزام تھا کہ انہوں نے قواعد و ضوابط کی خلاف ورزی کرتے ہوئے سینکڑوں تارکین وطن کی سیاسی پناہ کی درخواستیں منظور کی تھیں۔
اس فیصلے کا اعلان کرتے ہوئے وفاقی وزیر داخلہ کی جانب سے جاری کردہ بیان میں کہا گیا، ’’بریمن میں سیاسی پناہ کی درخواستوں پر فیصلوں کے معیار پر اعتماد شدید متاثر ہو چکا ہے۔‘‘ انہوں نے وفاقی دفتر برائے مہاجرت اور ترک وطن کی داخلی رپورٹ کا حوالہ دیتے ہوئے یہ بھی کہا کہ بریمن میں سیاسی پناہ کی درخواستوں پر فیصلے کرتے ہوئے قانونی تقاضوں اور کو پیش نظر نہیں رکھا گیا تھا۔
بارہ سو سے زائد تارکین وطن کو خلاف ضابطہ پناہ دیے جانے کے الزامات کی تحقیقات کی جا رہی ہیں۔ وزیر داخلہ نے مقامی شاخ کو مزید کیسوں پر فیصلے سنانے سے روکنے کا اعلان کرتے ہوئے یہ بھی کہا کہ سن 2013 سے لے کر سن 2016 تک کے عرصے کے دوران کیے گئے ان مبینہ غیر قانونی فیصلوں کا از سر نو جائزہ لیا جا رہا ہے۔
علاوہ ازیں وزارت داخلہ کا یہ بھی کہنا ہے کہ ملک بھر ميں وفاقی دفتر برائے مہاجرت اور ترک وطن کے جانب سے سیاسی پناہ کی درخواستوں پر کیے گئے ہر دسویں فیصلے کی جانچ پرکھ بھی کی جا رہی ہے۔
ش ح/ ع ص (ڈی پی اے، روئٹرز)
کس جرمن صوبے میں سیاسی پناہ ملنے کے امکانات زیادہ ہیں
بی اے ایم ایف کے مطابق پناہ کی تلاش میں جرمنی آنے والے تارکین وطن کو پناہ ملنے یا نہ ملنے کا انحصار دیگر کئی پہلوؤں کے ساتھ ساتھ اس بات پر بھی ہے کہ ان کی پناہ کی درخواستیں کس جرمن صوبے میں جمع کرائی گئی تھی۔
تصویر: picture-alliance/dpa/D. Karmann
برانڈنبرگ
گزشتہ برس جرمنی میں سیاسی پناہ کی سب سے کم درخواستیں جرمن صوبے برانڈنبرگ میں منظور کی گئیں۔
تصویر: picture-alliance/dpa/B. Settnik
باویریا
وفاقی ریاست باویریا میں سی ایس یو برسراقتدار ہے جس کے سربراہ ہورسٹ زیہوفر نئی جرمن حکومت میں وزیر داخلہ کا عہدہ سنبھال رہے ہیں۔ زیہوفر جرمن بھر سے تارکین وطن کی ملک بدری میں اضافہ کرنے کا عندیہ بھی دے چکے ہیں۔ گزشتہ برس ان کے صوبے میں پناہ کی درخواستیں قبول کیے جانے کی شرح 31.8 فیصد رہی۔
جرمن صوبے باڈن ورٹمبرگ کا شمار بھی ان جرمن صوبوں میں ہوتا ہے جہاں تارکین وطن کو پناہ ملنے کے امکانات کم ہیں۔ گزشتہ برس اس صوبے میں پناہ کی 37.7 فیصد درخواستیں قبول کی گئیں۔
تصویر: picture-alliance/dpa/S. Schuldt
تھیورنگیا
گزشتہ برس وفاقی جرمن ریاست تھیورنگیا میں سیاسی پناہ کے 44.1 فیصد درخواست گزاروں کو پناہ ملی جب کہ دیگر درخواستیں مسترد کر دی گئیں۔
تصویر: epd-bild/M. Schuck
برلن
جرمن دارالحکومت برلن وفاقی ریاست بھی ہے۔ برلن میں گزشتہ برس 44.3 فیصد پناہ گزینوں کی درخواستیں منظور کی گئیں۔
تصویر: Imago/C. Mang
رائن لینڈ پلاٹینیٹ
اس وفاقی ریاست میں بھی سن 2017 کے دوران صرف 44.6 فیصد تارکین وطن کی پناہ کی درخواستیں منظور ہوئیں۔
تصویر: Fotolia/Matthias Wilm
نارتھ رائن ویسٹ فیلیا
آبادی کے لحاظ سے سب سے بڑے جرمن صوبے نارتھ رائن ویسٹ فیلیا کے حصے میں دیگر صوبوں کے مقابلے میں سب سے زیادہ تارکین وطن آئے۔ یہاں سیاسی پناہ کی درخواستوں کی منظوری کی شرح پینتالیس فیصد سے کچھ زائد رہی۔
تصویر: picture alliance/dpa/H. Ossinger
ہیمبرگ
جرمنی کے ساحلی شہر اور وفاقی ریاست ہیمبرگ میں قریب اڑتالیس فیصد پناہ کے درخواست گزاروں کو گزشتہ برس قیام کی اجازت ملی۔
تصویر: picture-alliance/dpa/Bildagentur-online
زیریں سیکسنی
گزشتہ برس جرمن صوبے زیریں سیکسنی میں 52.4 فیصد تارکین وطن کی پناہ کی درخواستیں منظور کی گئیں۔
تصویر: Fotolia/Thorsten Schier
شلسویگ ہولسٹائن
اس صوبے میں بھی زیریں سیکسنی کی طرح پناہ کی درخواستوں کی منظوری کی شرح 52.4 فیصد رہی۔
تصویر: picture-alliance/dpa
ہیسے
وفاقی جرمن ریاست ہیسے میں بھی تارکین وطن کو پناہ دیے جانے کے امکانات کئی دیگر صوبوں کی نسبت زیادہ ہیں۔ گزشتہ برس اس صوبے نے پناہ کے 53.2 فیصد درخواست گزاروں کو پناہ دی تھی۔
تصویر: picture-alliance/dpa/F. Rumpenhorst
بریمن
جرمنی کے شمال میں واقع شہر بریمن بھی برلن اور ہیمبرگ کی طرح وفاقی جرمن صوبہ بھی ہے۔ اس شمالی ریاست نے گزشتہ برس قریب ساٹھ فیصد تارکین وطن کی پناہ کی درخواستیں منظور کیں۔
تصویر: picture-alliance/K. Nowottnick
زارلینڈ
زارلینڈ جرمنی کے جنوب مغرب میں فرانسیسی سرحد کے قریب واقع ہے۔ گزشتہ برس یہاں تارکین وطن کو پناہ دیے جانے کی شرح تہتر فیصد رہی جو جرمنی کی دیگر ریاستوں کی نسبت سب سے زیاد ہے۔