بی بی سی نے دستاویزی فلم کی ایڈیٹنگ پر ٹرمپ سے معافی مانگ لی
14 نومبر 2025
جمعرات کے روز برطانوی سرکاری نشریاتی ادارے بی بی سی نے بتایا کہ اس نے "پینوراما" دستاویزی پروگرام میں گمراہ کن ایڈیٹنگ کے باعث ٹرمپ سے معافی مانگی ہے، لیکن یہ بات تسلیم نہیں کی کہ معاملہ ہتکِ عزت کے مقدمے کی بنیاد بن سکتا ہے۔
ٹرمپ نے دھمکی دی ہے کہ وہ اس میڈیا کمپنی پر ایک ارب ڈالر کا مقدمہ کریں گے کیونکہ پروگرام نے یہ تاثر دیا کہ انہوں نے 6 جنوری 2021 کو، اس وقت جب کانگریس جو بائیڈن کی 2020 کی انتخابی فتح کی توثیق کرنے والی تھی، واشنگٹن ڈی سی میں اپنے حامیوں کے سامنے کی گئی تقریر میں فسادات بھڑکانے کی کوشش کی۔
پروگرام میں ٹرمپ کی تقریر کے دو حصوں کو، جو ایک دوسرے سے 50 منٹ کے وقفے پر تھے، اس طرح جوڑا گیا کہ ایسا لگا وہ کیپیٹل ہل ہنگامے پر لوگوں کو اکسا رہے ہوں۔
دستاویزی فلم، جو 2024 کے امریکی صدارتی انتخابات سے چند روز قبل نشر ہوئی تھی، میں اس حصے کو بھی نکال دیا گیا تھا جس میں ٹرمپ نے کہا تھا کہ وہ چاہتے ہیں ان کے حامی پُرامن طریقے سے مظاہرہ کریں۔
اس تنازع کی وجہ سے بی بی سی کے ڈائریکٹر جنرل ٹم ڈیوی اور ہیڈ آف نیوز ڈیبرہ ٹرنَس پہلے ہی استعفیٰ دے چکے ہیں۔
بی بی سی نے ٹرمپ کو خط میں کیا کہا؟
جمعرات کے روز جاری کیے گئے ایک بیان میں بی بی سی نے کہا کہ اس کے چیئرمین سمیر شاہ نے''وائٹ ہاؤس کو ایک ذاتی خط بھیجا ہے جس میں صدر ٹرمپ کو واضح طور پر بتایا گیا ہے کہ وہ اور کارپوریشن 6 جنوری 2021 کی صدر کی تقریر کی ایڈیٹنگ پر معذرت خواہ ہیں۔‘‘
بیان میں مزید کہا گیا،''ہم اس بات سے سختی سے اختلاف کرتے ہیں کہ ہتکِ عزت کے دعوے کی کوئی بنیاد موجود ہے۔‘‘
رات کی شام جاری کردہ ایک بیان میں بی بی سی نے کہا کہ وہ تسلیم کرتا ہے کہ اس ایڈیٹنگ نے''غیر ارادی طور پر یہ تاثر پیدا کیا کہ ہم تقریر کے ایک مسلسل حصے کو دکھا رہے تھے، نہ کہ تقریر کے مختلف حصوں سے منتخب کردہ جملے، اور اس سے یہ غلط تاثر ابھرا کہ صدر ٹرمپ نے براہِ راست پرتشدد کارروائی کی کال دی تھی۔‘‘
اس میں مزید کہا گیا کہ یہ پروگرام''اپنی موجودہ شکل میں بی بی سی کے کسی بھی پلیٹ فارم پر دوبارہ نشر نہیں کیا جائے گا۔‘‘
بی بی سی نے ٹرمپ کے ہتکِ عزت کے مقدمے کے بارے میں کیا کہا؟
خط میں، بی بی سی نے وہ وجوہات بیان کیں جن کی بنیاد پر اسے یقین ہے کہ ٹرمپ کے ہتکِ عزت کے الزامات لاگو نہیں ہوتے۔
ادارے نے وضاحت کی کہ اس نے'پینوراما‘ کی قسط اپنے امریکی چینلز پر نشر نہیں کی، اور نہ ہی اسے ایسا کرنے کے حقوق حاصل تھے۔
بی بی سی نے یہ بھی کہا کہ ایڈیٹنگ دانستہ بد نیتی کے تحت یا ناظرین کو گمراہ کرنے کے لیے نہیں کی گئی تھی بلکہ طویل تقریر کو مختصر کرنے کے لیے کی گئی تھی۔
مزید یہ کہ اس نے دلیل دی کہ دستاویزی فلم نے ٹرمپ کو وہ نقصان نہیں پہنچایا جیسا کہ امریکی صدر دعویٰ کرتے ہیں، کیونکہ بالآخر وہ دوبارہ منتخب ہو گئے تھے۔
بی بی سی نے یہ بھی نشاندہی کی کہ یہ کلپ تنہا دیکھنے کے لیے نہیں تھی بلکہ ایک گھنٹے کی طویل نشریات کا حصہ تھی، جس میں ٹرمپ کے حق میں متعدد آراء بھی شامل تھیں۔
ٹرمپ اس سے پہلے بھی کئی نمایاں میڈیا اداروں کو بڑے بڑے مقدمات کا نشانہ بنا چکے ہیں، جن میں ٹی وی نیٹ ورکس سی این این، اے بی سی اور سی بی ایس، نیز دی نیویارک ٹائمز اور وال اسٹریٹ جرنل کے مالک ادارے شامل ہیں، جن کے بارے میں وہ سمجھتے ہیں کہ انہوں نے ان کی منفی کوریج کی۔
بی بی سی کو کن نئے الزامات کا سامنا ہے؟
بی بی سی کی جانب سے معذرت اُس وقت سامنے آئی جب ادارے کو ایک اور پروگرام 'نیوز نائٹ‘ سے متعلق نئے الزامات کا سامنا کرنا پڑا۔ یہ پروگرام 'پینوراما‘ قسط سے دو سال پہلے نشر ہوا تھا۔ اس میں بھی ٹرمپ کی 6 جنوری کی تقریر کو اسی طرح گمراہ کن انداز میں ایڈٹ کیا گیا تھا۔
جون 2022 میں نشر ہونے والی 'نیوز نائٹ‘ کی قسط میں ٹرمپ کی تقریر کو اس طرح ایڈٹ کیا گیا کہ اس سے یہ تاثر ملا گویا وہ اپنے حامیوں کو واضح طور پر ہنگامہ آرائی اور کانگریس کی جانب سے بائیڈن کی انتخابی فتح کی توثیق کو روکنے پر اکسا رہے ہوں۔
تازہ الزامات، جنہیں برطانوی اخبار دی ڈیلی ٹیلیگراف سے منسلک ایک پوڈکاسٹ نے رپورٹ کیا، کے جواب میں بی بی سی نے کہا کہ وہ ''سب سے اعلیٰ ادارتی معیار برقرار رکھتا ہے‘‘ اور اس معاملے کو ''دیکھ رہا ہے‘‘۔
ادارت: صلاح الدین زین