1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

بی بی سی کا تازہ بحران، دور رَس اثرات

17 نومبر 2012

آج کل عالمی ذرائع ابلاغ میں بی بی سی کے حوالے سے یہ سوال پوچھا جا رہا ہے کہ آیا یہ نشریاتی ادارہ اپنے تازہ بحران کو برداشت کر سکے گا یا یہ بحران برطانیہ کے پہلے سے کمزور ہو چکے میڈیا کے تابوت میں آخری کیل ثابت ہو گا؟

تصویر: Getty Images

’دِس از لندن‘، برطانیہ کو باقی دُنیا سے اور باقی دُنیا کو برطانیہ سے متعارف کروانے والی بی بی سی کی ورلڈ سروس ہر لمحہ بدلتی دنیا میں اب تک اپنی ایک مستقل اور قابل اعتماد موجودگی برقرار رکھنے میں کامیاب رہی ہے۔ غیر جانبداری اور قطعیت اس ادارے کا اثاثہ رہے ہیں یا کم از کم ہر شخص اس کے بارے میں سوچتا اسی انداز میں تھا۔

برطانوی میڈیا تھنک ٹینک ’دی انسٹیٹیوٹ آف آئیڈیاز‘ کی ڈائریکٹر کلیئر فاکس، جو صحافی اور تبصرہ نگار بھی ہیں، کہتی ہیں کہ آج کل یہ نشریاتی ادارہ ’تاش کے پتوں سے بنے گھر کی طرح‘ گرتا دکھائی دے رہا ہے۔

بی بی سی کے مستعفی ہونے والے ڈائریکٹر جنرل جارج اینٹ وسلتصویر: Getty Images

اس تازہ ترین بحران کی وجہ اس نشریاتی ادارے کا وہ رویہ بنا ہے، جو اُس نے اپنی ایک سٹار شخصیت Jimmy Sevileکے انتہائی سنگین سیکس اسکینڈل کے حوالے سے اختیار کیا۔ بالآخر اس اسکینڈل کے نتیجے میں نہ صرف بی بی سی کے حال ہی میں مقرر کردہ ڈائریکٹر جنرل جارج اینٹ وِسل کو بلکہ کئی دیگر سینئر مینیجرز کو بھی اپنی ملازمتوں سے ہاتھ دھونا پڑے۔

گزشتہ سال 84 برس کی عمر میں سیوائل کی وفات کے فوراً بعد بی بی سی کے نیوز نائٹ پروگرام کے صحافیوں نے سیوائل کے خلاف بچوں کے ساتھ جنسی زیادتی کے الزامات کی تحقیقات شروع کر دی تھیں تاہم اُن کی تحقیقات کا راستہ روک دیا گیا۔ یوں کرسمس کے موقع پر سیوائل کو ایک ایسے پروگرام کے ذریعے شاندار انداز میں خراج عقیدت پیش کیا گیا، جس میں بچوں کے ساتھ جنسی زیادتی کے اس مشہور ترین ملزم کو ہنستے گاتے اور اپنی شہرت سے لطف اندوز ہوتے دکھایا گیا تھا۔

بی بی سی کی سٹار شخصیت جمی سیوائل، جو اپنے انتقال کے ایک سال بعد جنسی زیادتی کے ایک بڑے اسکینڈل کی زَد میں ہےتصویر: AP

تبھی یہ قیاس آرائیاں شروع ہو گئیں کہ یہ ادارہ سیوائل کے جرائم پر پردہ ڈالنے کی کوشش کر رہا ہے۔ دیکھا جائے تو بی بی سی ہی نہیں بلکہ گزشتہ اٹھارہ مہینوں سے نیوز کارپوریشن کے سربراہ روپرٹ مرڈوک کے ایک جریدے نیوزآف دا ورلڈ کے ٹیلی فون ہیکنگ میں ملوث ہونے کے بعد سے پورے برطانوی میڈیا کو ہی ایک کے بعد ایک بحران کا سامنا رہا ہے۔

اب برٹش پریس کے حوالے سے ایک پبلک انکوائری ہو رہی ہے تاہم کلیئر فوکس کے خیال میں اس کے نتیجے میں سامنے آنے والے فیصلوں کے بعد شاید پریس کی آزادی محدود ہو کر رہ جائے گی۔

ٹرانسپیرنسی انٹرنیشنل کی برطانیہ شاخ کے صدر چندو کرشنن کو بھی برطانوی پریس کے حوالے سے تشویش ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ پریس کے حوالے سے جاری تحقیقات سے دو باتیں سامنے آئی ہیں: ایک یہ کہ میڈیا کے کچھ مخصوص حصوں اور سیاستدانوں کے درمیان تعلقات کچھ زیادہ ہی قریبی ہیں، دوسری یہ کہ میڈیا سے متعلق اداروں پر کچھ خاص حلقوں کی اجارہ داری ہے۔ انہوں نے امید ظاہر کی کہ بالآخر پریس کی آزادی کو محدود کیے بغیر میڈیا ریگولیشن کے حوالے سے کچھ اچھے فیصلے سامنے آ سکیں گے۔

E.Wallis/aa/ai

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ سیکشن پر جائیں

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ

ڈی ڈبلیو کی مزید رپورٹیں سیکشن پر جائیں