بی بی کی برسی: کیا پی پی پی عوامی مقبولیت حاصل کر سکے گی؟
27 دسمبر 2019سابق وزیراعظم بے نظیر بھٹو کی 12ویں برسی کے موقع پر لیاقت باغ میں سجے پنڈال اور اس کے اردگرد موجود پی پی پی کے رہنماؤں اور کارکنان کا کہنا ہے کہ پی پی پی ایک بار پھر تیزی سے عوام میں مقبول ہورہی ہے لیکن ناقدین کا خیال ہے کہ پی پی پی اپنے کرپشن، بد عنوانی، نا اہل انداز حکمرانی اور اپنے سیاسی نظریے سے ہٹنے کی وجہ سے عوام میں غیر مقبول ہوگئی ہے۔ ناقدین کے مطابق اس بات کا بہت کم امکان ہے کہ پاکستان پیپلز پارٹی دوبارہ اپنی کھوئی ہوئی مقبولیت حاصل کر ے۔
پی پی پی کے بارے میں یہ ایک عام تاثر ہے کہ اس نے مالی بد عنوانی کو فروغ دیا اور عوامی مسائل کو نظر انداز کیا۔ بعض ناقدین پارٹی قیادت پر یہ الزام بھی لگا تے ہیں کہ اس نے بے نظیر کے قاتلوں کو سرگرمی سے تلاش نہیں کیا اور آج ان کی برسی کے موقع پر بھی نہ صرف قاتل آزاد ہیں بلکہ قانون کے شکنجے میں بھی نہیں ہیں۔ تاہم پارٹی کے سینئر رہنما تاج حیدر اس بات سے سخت اختلاف کرتے ہیں۔ ''جو ناقدین یہ کہتے ہیں کہ ہم نے بی بی کے قاتلوں کو نہیں پکڑا، وہ شاید اخبار بھی نہیں پڑھتے اور ہمارے بارے میں انتہائی ناقص معلومات رکھتے ہیں۔‘‘ تاج حیدر کے بقول ''حقیقت یہ ہے کہ ہم نے سارے قاتلوں کو پکڑا تھا لیکن عدالت نے انہیں رہا کر دیا۔ یہاں تک کہ ان ملزموں کو بھی رہا کیا گیا جنہوں نے اعترافی بیانات دیے تھے۔ ہم نے اس فیصلے کے خلاف سپریم کورٹ میں اپیل کی ہوئی ہے، جس کی ابھی تک سماعت نہیں ہوئی۔ تو نا انصافی تو ہمارے ساتھ ہوئی ہے۔‘‘
تاج حیدر نے اس الزام کو بھی رد کیا کہ پی پی پی کرپشن میں ملوث ہے۔ ''نااہل طرز حکمرانی ہماری سندھ میں عیاں ہونی چاہیے۔ اگر ہم وہاں کرپشن کرتے یا عوامی مسائل حل نہ کرتے تو ہمیں وہاں کیا بار بار ووٹ ملتے۔ عجیب بات ہے کہ ہم عوام کے مساءل حل نہیں کر رہے لیکن پھر بھی عوام ہمیں منتخب کر رہے ہیں۔ تو یہ کرپشن کا الزام بے بنیاد ہے اور اس کا حقیقت سے کوئی تعلق نہیں۔‘‘
جلسے میں موجود پاکستان کے زیر انتظام کشمیر سے تعلق رکھنے والے پارٹی کے سرگرم کارکن الطاف بشارت کا کہنا تھا کہ پی پی پی کے ساتھ ہمیشہ ظلم کیا گیا ہے۔ ''ہم پر مظلوم بننے کا ڈھونگ رچانا کا الزام لگایا جاتا ہے لیکن کیا یہ حقیقت نہیں کہ پہلے ہمارے لیڈر کو شہید کیا گیا، پھر بی بی کو شہید کیا گیا۔ ملک کی اسٹیبلشمنٹ نے ہمارے خلاف سازشیں کیں اور کئی مواقعوں پر سامراجی قوتوں نے بھی پارٹی کے خلاف سازشیں کیں۔ ہمارے مینڈیٹ کو چوری کیا گیا۔ ہمارے خلاف آئی جے آئی بنوائی گئی۔‘‘
الطاف بشارت کا مزید کہنا تھا کہ پی پی پی مظلومیت کے بیانیے پر نہیں بلکہ اپنے پروگرام پر کھڑی ہے۔ ''آج کے اس جلسے میں کم از کم پچاس ہزار افراد موجود ہیں۔ عوام کا جم غفیر آپ کمیٹی چوک سے یہاں تک دیکھ لیں۔ اگر پہلے بلاول کا راستہ نہ روکا جاتا اور پارٹی کے خلاف انتہا پسند اور اسٹیبلشمنٹ سازشیں نہیں کرتے تو ہم آج بھی ملک کی سب سے بڑی جماعت ہوتے۔ لیکن ہم اب بلاول بھٹو زرداری کی قیادت میں اس ہی طرف جارہے ہیں کیونکہ پی پی پی کے علاوہ اس ملک کے کسانوں، مزدورں اور غریبوں کے مسائل کوئی حل نہیں کر سکتا۔‘‘
اس موقع پرپارٹی کے کچھ نظریاتی کارکنان کا خیال ہے کہ پارٹی کا 'پروپیگنڈہ سیل‘ بہت کمزور ہے۔ ان کا دعوی ہے کہ پارٹی سن 2013 اور 2018ء کے انتخابات میں اپنے کارناموں سے عوام کو آگاہ نہیں کر سکی۔ پارٹی کے نظریاتی کارکن سجاد مہدی کے خیال میں پارٹی کے کمزور ہونے کی ایک اور وجہ بین الاقوامی رجعت پسندانہ سیاسی ماحول ہے۔ ''پوری دنیا میں دائیں بازو کی انتہا پسند قوتیں سرگرم عمل ہیں۔ برطانیہ میں جرمی کوربن مقبول ہونے کے باوجود انتخابات ہار گئے۔ بھارت میں مودی کی فاشسٹ حکومت انتخابات جیت گئی۔ اٹلی، جرمنی، فرانس، پولینڈ اور ہنگری سمیت مغرب کے کئی ممالک میں رجعت پسند قوتیں طاقت پکڑ رہی ہیں۔ تو یہ بین الاقوامی ماحول ہے جس نے پی پی پی جیسی بائیں بازو کی جماعت کی سیاست کو متاثر کیا۔‘‘
سجاد مہدی کا کہنا تھا کہ پارٹی نے اپنے دور حکومت میں بہت سے شاندار کام کیے۔ "ہم نے اٹھارویں ترمیم پاس کرائی۔ سرکاری ملازمین کی تنخواہوں میں ایک سو پچیس فیصد اضافہ کیا۔ پانچ لاکھ سے زائد روزانہ اجرت پر کام کرنے والے اور کنٹریکٹ پر کام کرنے والے ملازمین کو مستقل کیا۔ لیکن بد قسمتی سے پارٹی ان کارناموں کو عوام میں مقبول نہیں کر سکی اور نتیجہ یہ ہوا کہ ایک ایسی حکومت وجود میں آئی جس نے پہلے نواز شریف کی شکل میں لوگوں کو بے روزگار کیا اور اب عمران خان کی شکل میں مہنگائی اور بے روزگاری کا طوفان لے کر آرہی ہے۔‘‘
تاہم ناقدین پی پی پی رہنماوں کی اپنے منہ میاں مٹھو بننے کی اس بات سے متاثر نظر نہیں آتے۔ ان کے خیال میں زرداری اور ان کے دوستوں نے پی پی پی کا جنازہ نکال دیا ہے۔ لاہور سے تعلق رکھنے والے تجزیہ نگار حبیب اکرم کا کہنا ہے کہ اگر پی پی پی نے اگلے انتخابات سے پہلے اپنے طرز حکمرانی کو بہتر نہیں کیا تو یہ صوبہ سندھ سے بھی ہار جائے گی۔ ''آپ لاڑکانہ جائیں اور وہاں جا کر کچرے کے ڈھیر دیکھیں۔ یہی حال سندھ کے تقریباﹰ سارے شہروں اور دیہی علاقوں کا ہے۔ اسی وجہ سے صوبائی اسمبلی کی ایک سیٹ پر لاڑکانہ میں بلاول بھٹو زرداری کی انتخابی مہم کام نہ آئی اور پی پی پی نے وہاں پر شکست کھائی۔ سابق صدر آصف زرداری اور ان کے ساتھی بڑی بڑی گاڑیوں میں گھوم رہے ہیں اور سندھ میں کھل کر کرپشن کی جارہی ہے۔‘‘
حبیب اکرم کا مزید کہنا تھا کہ انہوں نے دوہزار اٹھارہ کے انتخابات میں سندھ کے کئی حلقوں کا دروہ کیا تھا، جس میں لوگوں کا یہ واضح کہنا تھا کہ یہ پی پی پی کہ لیے آخری موقع ہے۔ ''لوگوں نے صرف بلاول بھٹو زرداری کی وجہ سے ووٹ دیا تھا اور وہ کارکردگی دیکھنا چاہتے تھے، جو پی پی پی ابھی تک نہیں دکھا سکی۔‘‘
پاکستان پیپلز پارٹی کے کئی سابق دیرینہ کارکن بھی حبیب اکرم کی اس بات سے اتفاق کرتے ہیں۔ بلوچستان کے علاقے گوادر سے تعلق رکھنے والے ذوالفقار علی بھٹو کے قریبی ساتھی عبدالرحیم ظفر کے خیال میں پی پی پی کے رہنماوں کی پالیسیوں سے پارٹی آج زوال کا شکار ہے۔ ''پی پی پی کی موجودہ قیادت فہم و فراست سے عاری ہے۔ اس نے اسٹیبلشمنٹ سے بار بار سودے بازی کی، جس سے پارٹی کی ساکھ کو زبردست نقصان ہوا۔ اس کے علاوہ کرپشن کی کہانیوں نے بھی پارٹی کو عوام میں غیر مقبول بنا دیا اور اب دور دور تک آثار نظر نہیں آتے کہ پارٹی دوبارہ اپنی کھوئی ہوئی طاقت حاصل کر سکے گی کہ نہیں۔‘‘