بی جے پی کی جموں کشمیر حکومت سے علیحدگی، گورنر راج کا نفاذ
20 جون 2018
بھارت میں حکمران جماعت بھارتیہ جنتا پارٹی نے انڈیا کے زیر انتظام ریاست جموں و کشمیر کی مخلوط حکومت سے علیحدگی اختیار کر لی ہے۔ اس اقدام کے بعد یہ شورش زدہ ریاست براہ راست وفاق کے زیر انتظام آ جائے گی۔
اشتہار
ہندو قوم پرست جماعت بھارتی جنتا پارٹی نے سن 2015 میں اس مسلم اکثریتی متنازعہ ریاست میں مقامی سیاسی جماعت ’پیپلز ڈیمو کریٹک پارٹی‘ کے ساتھ مل کر مخلوط حکومت قائم کی تھی۔
بی جے پی کے ایک سینئیر رہنما رام مادھو کا کہنا ہے کہ علاقے میں تشدد کی کارروائیوں میں اضافے اور سلامتی کی بگڑتی ہوئی صورت حال کے باعث اب پیپلز ڈیموکریٹک پارٹی سے اُن کی جماعت کا اتحاد غیر مستحکم ہو گیا ہے۔
رام مادھو کے اس اعلان کے فوراﹰ بعد ہی ریاست کی وزیر اعلی اور پی ڈی پی کی لیڈر محبوبہ مفتی نے گورنر این این ووہرہ کو اپنا استعفےٰ پیش کر دیا۔
اُدھر نئی دہلی میں مادھو کا صحافیوں سے بات کرتے ہوئے کہنا تھا، ’’حکومت ریاست میں حالات بہتر بنانے کی اپنی ذمہ داری کو پورا کرنے میں ناکام رہی ہے۔ دہشت گردی، انتہا پسندی اور متشدد کارروائیاں اپنے عروج پر ہیں۔ شہریوں کے بنیادی حقوق یہاں تک کہ آزادی رائے اور زندہ رہنے کا حق بھی خطرے میں ہیں۔‘‘
مادھو نے مزید کہا کہ بھارتی سالمیت اور ملک کے وسیع تر مفاد کو ذہن میں رکھتے ہوئے اب وقت آ گیا ہے کہ ریاست جموں کشمیر میں گورنر راج نافذ کر دیا جائے۔
بی جے پی کے سینئیر رہنما رام مادھو نے یہ بھی کہا کہ ریاستی حکومت نے جموں اور لداخ کے اہم علاقوں میں ترقیاتی کاموں کو نظر انداز کیا ہے۔
جموں اور کشمیر کی ریاستی اسمبلی میں بی جے پی کے پچیس اور پی ڈی پی کے اٹھائیس ارکان ہیں جبکہ حکومت بنانے کے لیے پینتالیس اراکین کی اکثریت کا ہونا لازمی ہے۔
محبوبہ مفتی نے بھی صحافیوں سے بات کرتے ہوئے کہا کہ اُن کی پارٹی کا خیال ہے کہ یہاں طاقت کا استعمال منفعت بخش نہیں ہو گا اس لیے اُنہوں نے مذاکرات اور مفاہمت کی راہ اختیار کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔
امکان ہے کہ جلد ہی گورنر ووہرہ ریاستی اسمبلی تحلیل کرتے ہوئے جموں و کشمیر میں گورنر راج کے نفاذ کا اعلان کر دیں گے۔
واضح رہے کہ پی ڈی پی اور بھارتی جنتا پارٹی کے درمیان خلیج وفاقی حکومت کے اُس اعلان کے بعد وسیع ہو گئی تھی جس میں اُس نے مسلمانوں کے مقدس مہینے رمضان کے اختتام پر عسکریت پسندوں کے خلاف کارروائیاں بحال کرنے کا اعلان کیا تھا۔
ص ح/ ع ا / ڈی پی اے
’کشمیری‘پاک بھارت سیاست کی قیمت کیسے چکا رہے ہیں؟
بھارت اور پاکستان کشمیر کے موضوع پر اپنی لڑائی جاری رکھے ہوئے ہیں۔ ہمالیہ کے اس خطے کو گزشتہ تین دہائیوں سے شورش کا سامنا ہے۔ بہت سے کشمیری نئی دہلی اور اسلام آباد حکومتوں سے تنگ آ چکے ہیں۔
تصویر: Getty Images/AFP/T. Mustafa
بڑی فوجی کارروائی
بھارتی فوج نے مسلح باغیوں کے خلاف ابھی حال ہی میں ایک تازہ کارروائی کا آغاز کیا ہے۔ اس دوران بیس دیہاتوں کا محاصرہ کیا گیا۔ نئی دہلی کا الزام ہے کہ اسلام آباد حکومت شدت پسندوں کی پشت پناہی کر رہی ہے۔
تصویر: picture alliance/AP Photo/C. Anand
فوجیوں کی لاشوں کی تذلیل
بھارت نے ابھی بدھ کو کہا کہ وہ پاکستانی فوج کی جانب سے ہلاک کیے جانے والے اپنے فوجیوں کا بدلہ لے گا۔ پاکستان نے ایسی خبروں کی تردید کی کہ سرحد پر مامور فوجی اہلکاروں نے بھارتی فوجیوں کو ہلاک کیا ان کی لاشوں کو مسخ کیا۔
تصویر: H. Naqash/AFP/Getty Images
ایک تلخ تنازعہ
1989ء سے بھارت کے زیر انتظام کشمیر میں مسلم باغی آزادی و خود مختاری کے لیے ملکی دستوں سے لڑ رہے ہیں۔ اس خطے کی بارہ ملین آبادی میں سے ستر فیصد مسلمان ہیں۔ اس دوران بھارتی فورسز کی کاررائیوں کے نتیجے میں 70 ہزار سے زائد کشمیری ہلاک ہو چکے ہیں۔
تشدد کی نئی لہر
گزشتہ برس جولائی میں ایک نوجوان علیحدگی پسند رہنما برہان وانی کی ہلاکت کے بعد سے بھارتی کشمیر میں حالات کشیدہ ہیں۔ نئی دہلی مخالف مظاہروں کے علاوہ علیحدگی پسندوں اور سلامتی کے اداروں کے مابین تصادم میں کئی سو افراد مارے جا چکے ہیں۔
تصویر: Reuters/D. Ismail
اڑی حملہ
گزشتہ برس ستمبر میں مسلم شدت پسندوں نے اڑی سیکٹر میں ایک چھاؤنی پر حملہ کرتے ہوئے سترہ فوجی اہلکاروں کو ہلاک جبکہ تیس کو زخمی کر دیا تھا۔ بھارتی فوج کے مطابق حملہ آور پاکستان سے داخل ہوئے تھے۔ بھارت کی جانب سے کی جانے والی تفتیش کی ابتدائی رپورٹ میں کہا گیا کہ حملہ آوروں کا تعلق پاکستان میں موجود جیش محمد نامی تنظیم سے تھا۔
تصویر: UNI
کوئی فوجی حل نہیں
بھارت کی سول سوسائٹی کے کچھ ارکان کا خیال ہے کہ کشمیر میں گڑ بڑ کی ذمہ داری اسلام آباد پر عائد کر کے نئی دہلی خود کو بے قصور نہیں ٹھہرا سکتا۔ شہری حقوق کی متعدد تنظیموں کا مطالبہ ہے کہ وزیر اعظم نریندر مودی کو چاہیے کہ وہ وادی میں تعینات فوج کی تعداد کو کم کریں اور وہاں کے مقامی افراد کو اپنی قسمت کا فیصلہ خود کرنے دیں۔
تصویر: Getty Images/AFP/T. Mustafa
انسانی حقوق کی خلاف ورزیاں
بھارتی حکام نے ایسی متعدد ویڈیوز کے منظر عام پر آنے کے بعد، جن میں بھارتی فوجیوں کو انسانی حقوق کی خلاف ورزیاں کرتے دیکھا جا سکتا ہے، کشمیر میں سماجی تعلقات کی کئی ویب سائٹس کو بند کر دیا ہے۔ ایک ایسی ہی ویڈیو میں دیکھا جا سکتا کہ فوج نے بظاہر انسانی ڈھال کے طور پر مظاہرہ کرنے والی ایک کشمیری نوجوان کواپنی جیپ کے آگے باندھا ہوا ہے۔
تصویر: Getty Images/AFP/
ترکی کی پیشکش
ترک صدر رجب طیب ایردوآن نے بھارت کے اپنے دورے کے موقع پر کشمیر کے مسئلے کے ایک کثیر الجہتی حل کی وکالت کی۔ ایردوآن نے کشمیر کے موضوع پر پاکستان اور بھارت کے مابین کشیدگی پر تشویش کا اظہار بھی کیا۔ بھارت نے ایردوآن کے بیان کو مسترد کر تے ہوئے کہا کہ مسئلہ کشمیر صرف بھارت اور پاکستان کے مابین دو طرفہ طور پر ہی حل کیا جا سکتا ہے۔
تصویر: Reuters/A. Abidi
غیر فوجی علاقہ
پاکستانی کشمیر میں جموں کشمیر لبریشن فرنٹ کے صدر توقیر گیلانی نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ’’وقت آ گیا ہے کہ بھارت اور پاکستان کو اپنے زیر انتظام علاقوں سے فوج ہٹانے کے اوقات کار کا اعلان کرنا چاہیے اور ساتھ ہی بین الاقوامی مبصرین کی نگرانی میں ایک ریفرنڈم بھی کرانا چاہیے‘‘
تصویر: picture-alliance/dpa/J. Singh
علیحدگی کا کوئی امکان نہیں
کشمیر پر نگاہ رکھنے والے زیادہ تر مبصرین کا خیال ہے کہ مستقبل قریب میں کشمیر کی بھارت سے علیحدگی کا کوئی امکان موجود نہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ کشمیر میں شدت پسندوں اور علیحدگی پسندوں سےسخت انداز میں نمٹنے کی بھارتی پالیسی جزوی طور پر کامیاب رہی ہے۔ مبصرین کے بقول، جلد یا بدیر نئی دہلی کو اس مسئلے کا کوئی سیاسی حل ڈھونڈنا ہو گا۔