بھارت کے صف اول کے کئی اداکاروں، لکھاریوں، ڈرامہ نویسوں، شاعروں، ادیبوں اور تاریخ دانوں نے ووٹروں سے انتہا پسندی کا پرچار کرنے والے سیاست دانوں، جماعتوں، تنظیموں اور نظریوں کو مسترد کرنے کی اپیلیں جاری کی ہیں۔
اشتہار
بیک وقت کئی زبانوں میں جاری کی جانے والی ان اپیلوں کے ذریعے نصیر الدین شاہ جیسے معروف اداکار اور رومیلا تھاپر جیسی لیجنڈ تاریخ نویس اور اروندتی رائے جیسی عالمی شہرت یافتہ ادیبہ کے ساتھ ساتھ 700 سے زائد تھیٹر اداکاروں، 200 سے زائد ادیبوں، شاعروں اور دانشوروں اور 100 سے زائد فلم فنکاروں نے کہا ہے کہ مذہبی رواداری اور مساوی شہری حقوق کی ضمانت دینے والی سیکولر ریاست اور جمہوری حکومت ہی بھارت کے محفوظ اور روشن مستقبل کی ضمانت دے سکتی ہے۔
قومی تاریخ کا فیصلہ کن دوراہا
آرٹسٹ یونائیٹ انڈیا نامی تنظیم کی جانب سے جاری کردہ اپیل میں بھارتی جمہوریت کو لاحق سنگین خطرات کی نشاندہی کرتے ہوئے کہا گیا ہے،’’آج ہم اپنی قومی تاریخ کے نازک ترین مقام پر کھڑے ہیں۔ گزشتہ چند برسوں کے دوران آزادی رائے پر انگنت حملے کیے گئے ہیں اور ملک پر ملوکیت نافذ کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔ منافرت ذدہ ہجوم کے ہاتھوں بے گناہ افراد کو قتل کرنے کے واقعات ہو رہے ہیں۔ بی جے پی کا ایجنڈہ یہ ہے کہ ایک پر تشدد ثقافتی یکسانیت قائم کر کے بھارت کے شاندار اور متنوع سماجی تانے بانے کو بکھیر دیا جائے۔‘‘
مزید یہ،’’نصاب تعلیم میں خطرناک تبدیلیاں کی گئی ہیں اور اعلی تعلیمی وتحقیقی اداروں کے مرکزی عہدوں پر آر ایس ایس کے نظریات سے وابستہ افراد کو تعینات کیا گیا ہے۔ ہندوتوا بریگیڈ کے لوگوں کو آرٹ اور کلچر کے اداروں کا اختیار دے دیا گیا ہے۔ آج بھارت میں مذہبی تقسیم عروج پر ہے، ذات برادری کی بنیاد پر ہونے والا تشدد روزمرہ کا معمول ہے۔ لو جہاد، گاؤ ہتیہ، ٹکڑے ٹکڑے گینگ اور اربن نکسل جیسی اصطلاحات پھیلائی گئی ہیں تاکہ دلتوں، مسلمانوں، دانشوروں، سماجی کارکنوں، فنکاروں، لکھاریوں اور کمزور طبقات کے خلاف تشدد کو ابھارا جائے۔ دوسری طرف منافرت پرست مجرموں کو قانون نافذ کرنے والے اداروں سے کوئی خطرہ نہیں۔‘‘
سیکولر آئینی جمہوریت یا ہندوتواِ؟
نصیر الدین شاہ، رتنا پاتھک شاہ، انوراگ کیشپ، کونکنہ سین شرما، للت دوبے اور مانو کول جیسے 700 سے زائد تھیٹر ایکٹروں کی جاری کردہ اپیل میں کہا گیا ہے،’’بھارت کے تھیٹر فنکاروں نے اپنی ڈیڑھ سو سالہ شاندار تاریخ میں ہمیشہ مذہبی منافرت، انتہا پسندی اور تنگ نظری کی مزاحمت کی ہے۔ ہم نے موسیقی، رقص، مزاح اور المیہ کے ذریعے ایک سیکولر، جمہوری اور منصفانہ معاشرے کے تصور کو فروغ دیا ہے، جو آج خطرے میں ہے۔ آج رقص و نغمہ اور قہقہہ خطرے میں ہے۔ آج ہمارا آئین خطرے میں ہے۔ ان اداروں کا گلا گھونٹ دیا گیا ہے جنہوں نے آزاد مکالمہ، اختلاف رائے اور دلیل و منطق کی آبیاری کرنا تھی۔ سوال کرنے، سچ بولنے اور جھوٹ کا پردہ چاک کرنے کو غداری قرار دے دیا گیا ہے۔ ہم اپنے ہم وطنوں سے اپیل کرتے ہیں کہ وہ بی جے پی اور اس کے اتحادیوں کے بجائے سیکولر، جمہوری اور روادار معاشرے کے قیام کے لیے ووٹ دیں۔‘‘
اسی طرح، ارون دتی را ئے، امیتابھ گھوش، الوک رائے، رومیلا تھاپر اور اسد زیدی جیسے صف اول کے 200 ادیبوں، دانشوروں اور تاریخ دانوں نے اپیل کی ہے،’’ہم نہیں چاہتے کہ فنکاروں، ادیبوں اور دلیل پسندوں کو ہراساں کیا جائے یا قتل کیا جائے۔ اس کے خلاف سب سے پہلی اور بنیادی مزاحمت یہ ہے کہ نفرت کی سیاست کو شکست دینے کے لیے تنوع اور مساوات کی قوتوں کو ووٹ دیں۔‘‘
بھارت کے مشہور ہندو مسلم جوڑے
بھارت میں ’لوّ جہاد‘ کا الزام عموماً اُن مسلمان نوجوانوں کو دیا جاتا ہے، جو ہندو لڑکیوں پر ڈورے ڈالتے ہیں۔ دوسری جانب کئی مشہور شخصیات بھی ایسی ہیں، جنہوں نے دوسرے مذہب سے تعلق رکھنے والوں کو اپنا شریکِ حیات منتخب کیا۔
تصویر: dapd
شاہ رخ خان - گوری خان
بالی وُڈ کا بادشاہ کہلانے والے شاہ رخ خان نے ایک پنجابی ہندو خاندان میں پیدا ہونے والی گوری چھبر سے 1991ء میں شادی کی، جس کے بعد وہ گوری خان بن گئیں۔ دونوں کے تین بچے ہیں۔
تصویر: AP
رتیک روشن - سوزین خان
اداکار رتیک روشن اور سوزین خان نے 2000ء میں شادی کی لیکن 2014ء میں علیحدگی کا بھی فیصلہ کر لیا۔ سوزین خان اداکار سنجے خان کی بیٹی ہیں۔ اس تصویر میں رتیک روشن کو اداکارہ پُوجا ہیج کے ساتھ دیکھا جا سکتا ہے۔
تصویر: Getty Images/AFP/P. Paranjpe
سلمان خان کا خاندان
سلمان خان تو غیر شادی شدہ ہیں لیکن ان کے خاندان میں مختلف مذاہب کے لوگوں کی شادیوں کی کئی مثالیں ہیں۔ اُن کی والدہ کا نام پہلے سُشیلا چرک تھا لیکن اُن کے والد سلیم خان کے ساتھ شادی کے بعد سلمیٰ خان بن گئیں۔ سلیم خان نے پارسی اداکارہ ہیلن سے بھی شادی کی۔ بھائیوں ارباز اور سہیل خان نے بھی ہندو لڑکیوں سے شادیاں کیں۔
تصویر: Getty Images/AFP/STR
سیف علی خان - امرتا سنگھ - کرینہ کپور
اداکار سیف علی خان اور امرتا سنگھ کی شادی تقریباً 13 سال چلی۔ 2004ء میں اُن میں علیحدگی ہو گئی۔ اس کے بعد انہوں نے 2012ء میں کرینہ کپور سے شادی کی۔
تصویر: dapd
عمران ہاشمی - پروین ساہنی
بالی وُڈ میں بوسے کے ایک منظر کے لیے مشہور اداکار عمران ہاشمی نے 2006ء میں پروین ساہنی سے شادی کی۔ یہ تصویر ’ڈرٹی پکچر‘ کی پروموشن کے وقت کی ہے، جس میں عمران ہاشمی اداکارہ ودیا بالن کے ساتھ دکھائی دے رہے ہیں۔
تصویر: DW
ممتاز - میور مادھوانی
ماضی کی مشہور اداکاراؤں میں سے ایک ممتاز کا تعلق ایک مسلم خاندان سے ہے۔ 1974ء میں انہوں نے ایک ہندو کاروباری شخصیت میور مادھوانی سے شادی کر کے اپنا گھر بسایا۔
تصویر: I. Mukherjee/AFP/Getty Images
نرگس دت - سنیل دت
ماں باپ نے نرگس کا نام فاطمہ راشد رکھا تھا۔ فلم کے پردے پر تو ان کی جوڑی راج کپور کے ساتھ تھی لیکن اصل زندگی میں انہوں نے سنیل دت کو اپنا ہمسفر بنایا۔
یہ تصویر فلم ’مغل اعظم‘ کی ہے، جس میں اداکار دلیپ کمار کو مسلمان اداکارہ مدھو بالا کے ساتھ دکھایا گیا ہے۔ مدھوبالا سے شادی گلوکار اور اداکار کشور کمار نے کی۔ مدھوبالا کا نام پہلے ممتاز جہان دہلوی تھا اور انہیں ہندی سنیما کی سب سے خوبصورت اداکاراؤں میں شمار کیا جاتا ہے۔ انہوں نے مغل اعظم میں انارکلی کے کردار کو لازوال بنا دیا۔
یہ ہیں ساٹھ اور ستر کی دہائیوں کی خوبرو اداکارہ شرمیلا ٹیگور، جنہوں نے اپنے جیون ساتھی کے طور پر بھارتی کرکٹ کے کپتان منصور علی خان پٹودی کو منتخب کیا۔ پٹودی 70 سال کی عمر میں 2011ء میں انتقال کر گئے۔
اپنی دلآویز مسکراہٹ اور شاندار اداکاری کے لیے مشہور وحیدہ رحمان نے 1974ء میں اداکار ششی ریکھی سے شادی کی، جو بطور اداکار كملجيت کے نام سے جانے جاتے تھے۔ طویل علالت کے بعد 2000ء میں ششی ریکھی کا انتقال ہو گیا۔
تصویر: STRDEL/AFP/GettyImages
استاد امجد علی خان - سبھا لكشمی
سرود کے سُروں سے جادو کرنے والے استاد امجد علی خان نے 1976ء میں کلاسیکی رقص کے لیے مشہور فنکارہ سبھا لکشمی سے شادی کی۔ ان کے دو بیٹے امان اور ایان بھی سرود بجاتے ہیں۔
تصویر: AFP/Getty Images
زرینہ وہاب - آدتیہ پنچولی
زرینہ وہاب 1980ء کے عشرے کی ایک مشہور اداکارہ ہیں۔ اُنہوں نے اداکار آدتیہ پنچولی کو اپنا شریک حیات بنایا۔ ان کے بیٹے سورج پنچولی نے فلم ’ہیرو‘ کے ساتھ بالی وُڈ میں قدم رکھا۔
تصویر: by/Bollywoodhungama
فرح خان - شریش كندر
ایک پارسی ماں اور ایک مسلمان باپ کی بیٹی فرح خان پہلے ایک کوریوگرافر ہوا کرتی تھیں اور بعد میں ایک فلم ڈائریکٹر کے روپ میں سامنے آئیں۔ اُنہوں نے 2004ء میں اپنی بطور ہدایتکارہ فلم ’میں ہوں ناں‘ کے ایڈیٹر شريش كندر سے شادی کی۔
تصویر: UNI
سنیل شیٹی - مانا شیٹی
اداکار سنیل شیٹی کی بیوی مانا شیٹی ایک مسلمان باپ اور ایک ہندو ماں کی اولاد ہیں۔ شادی سے پہلے ان کا نام منیشا قادری تھا۔ 1991ء میں دونوں نے ایک دوسرے کو اپنا شریک حیات چُن لیا۔
تصویر: UNI
منوج واجپائی- شبانہ رضا
’ستيا‘، ’شول‘، ’کون‘، ’ویر- زارا‘، ’علی گڑھ‘ اور ’سیاست‘ جیسی فلموں میں اداکاری کے جوہر دکھانے والے اداکار منوج واجپائی نے 2006ء میں شبانہ رضا سے شادی کی۔ شادی کے بعد شبانہ نے اپنا نام نیہا رکھ لیا۔
تصویر: Getty Images/AFP/STR
سچن پائلٹ - سارہ پائلٹ
کانگریس پارٹی کے نوجوان سیاستدان سچن پائلٹ کی بیوی کا نام سارہ پائلٹ ہے۔ سارہ بھارت کے زیر انتظام جموں و کشمیر کے سابق وزیر اعلیٰ فاروق عبداللہ کی بیٹی ہیں۔ دونوں کے دو بیٹے اران اور وہان ہیں۔
تصویر: UNI
عمر عبداللہ - پازیب ناتھ
بھارت کے زیر انتظام جموں و کشمیر کے سابق وزیر اعلیٰ عمر عبداللہ نے 1994ء میں پازیب ناتھ سے شادی کی لیکن 2011ء میں دونوں میں علیحدگی ہو گئی۔
تصویر: Getty Images/AFP/T. Mustafa
مختار عباس نقوی - حد نقوی
مختار عباس نقوی بھارتیہ جنتا پارٹی بی جے پی کے ایک رہنما اور پارٹی کا ایک اہم مسلم چہرہ ہیں۔ ان کی بیوی کا نام حد نقوی ہے، جن کا تعلق ایک ہندو خاندان سے رہا ہے۔
تصویر: DW
ظہیر خان - ساگریکا گھاٹگے
حال ہی میں بھارت کے مشہور کرکٹر ظہیر خان نے اداکارہ ساگریكا گھاٹگے کے ساتھ شادی کا اعلان کیا ہے۔ ساگریکا گھاٹگے ’چک دے‘، ’رش‘ اور ’جی بھر کے جی لے‘ جیسی کئی فلموں میں کام کر چکی ہیں۔
تصویر: picture alliance/dpa/AP Photo/R. Kakade
19 تصاویر1 | 19
سیکولر جمہوریت کا کوئی متبادل نہیں
دہلی سے تعلق رکھنے والی لکھاری اور امن پرست، اروشی بٹالیہ نے بھی اس اپیل پر دستخط کیے ہیں۔ ڈی ڈبلیو سے بات کرتے ہوئے انہوں نے کہا، ’’ہم اس نسل سے تعلق رکھتے ہیں، جس نے ایک سیکولر ہندوستان دیکھا ہے جہاں سب کے لیے احترام اور جگہ تھی، سب کو معلوم تھا کہ قانون کے دائرے میں، امن سے کس طرح رہنا ہے۔ لیکن گزشتہ چند برسوں میں جس طرح انتہا پسندی اور بدامنی پھیلی ہے تو ہمارے سامنے سوال کھڑا ہو گیا ہے کہ ہمارے ملک کا کیا بنے گا۔ اصل مسئلہ غربت ہے لیکن غریب آدمی کو جنونی بنایا جا رہا ہے۔ ہم جمہوری انتخابات کے حق میں ہیں، کوئی بھی جیتے لیکن مذہبی انتہا پسندی کی اجازت نہیں دی جا سکتی۔ مذہبی جنونیت کے خلاف سب کو آواز اٹھانی پڑے گی۔ اور ہم نے اسی لیے یہ اپیل جاری کی ہے۔‘‘
بھارت کے شہر چنائی سے تھیٹر کی معروف آرٹسٹ اور ڈائریکٹر، پرسنا راماسوامی نے ڈی ڈبلیو سے گفتگو کرتے ہوئے کہا،’’یہ بہت نازک وقت ہے۔ آج لوگوں کو سامنے آ کر واضح انداز میں آواز اٹھانا ہو گی۔ مذہبی بنیاد پرستی بھارتی معاشرے کے تاروپود بکھیر کر رکھ دے گی۔ اور اختلاف رائے کے حق پر سمجھوتہ نہیں ہو سکتا۔ حکومت کو یہ حق نہیں دیا جا سکتا کہ وہ اپنے شہریوں کے خیالات اور عقائد کا فیصلہ کرے۔ ہندوستانی عوام نے کبھی اپنے حق حکمرانی اور جمہوری آزادیوں پر سمجھوتہ نہیں کیا اور یہ اپیل بھی انہی جمہوری قدروں اور آزادیوں کے لیے اٹھائی گئی ایک آواز ہے۔‘‘
بھارت کے سیاسی افق کا نیا ستارہ، پریانکا گاندھی
پریانکا گاندھی واڈرا بھارت کے ایک ایسے سیاسی خاندان سے تعلق رکھتی ہیں، جس کے تین افراد ملک کے وزیراعظم رہ چکے ہیں۔ انہوں نے اب باضابطہ طور پر عملی سیاست میں حصہ لینے کا اعلان کیا ہے۔
تصویر: picture-alliance/AP Photo/R.K. Singh
جواہر لال نہرو
برصغیر پاک و ہند کی تحریک آزادی کے بڑے رہنماؤں میں شمار ہونے والے جواہر لال نہرو پریانکا گاندھی کے پڑدادا تھے۔ وہ آزادی کے بعد بھارت کے پہلے وزیراعظم بنے اور ستائیس مئی سن 1964 میں رحلت تک وزیراعظم رہے تھے۔ اندرا گاندھی اُن کی بیٹی تھیں، جو بعد میں وزیراعظم بنیں۔
تصویر: Getty Images
اندرا گاندھی
پریانکا گاندھی کی دادی اندرا گاندھی اپنے ملک کی تیسری وزیراعظم تھیں۔ وہ دو مختلف ادوار میں بھارت کی پندرہ برس تک وزیراعظم رہیں۔ انہیں اکتیس اکتوبر سن 1984 میں قتل کر دیا گیا تھا۔ اُن کے بیٹے راجیو گاندھی بعد میں منصبِ وزیراعظم پر بیٹھے۔ راجیو گاندھی کی بیٹی پریانکا ہیں، جن کی شکل اپنی دادی اندرا گاندھی سے ملتی ہے۔
تصویر: picture-alliance/united archives
راجیو گاندھی
بھارت کے چھٹے وزیراعظم راجیو گاندھی سیاست میں نو وارد پریانکا گاندھی واڈرا کے والد تھے۔ وہ اکتیس اکتوبر سن 1984 سے دو دسمبر سن 1989 تک وزیراعظم رہے۔ اُن کو سن 1991 میں ایک جلسے کے دوران سری لنکن تامل ٹائیگرز کی خاتون خودکش بمبار نے ایک حملے میں قتل کر دیا تھا۔ اُن کے قتل کی وجہ سن 1987 میں بھارت اور سری لنکا کے درمیان ہونے والا ایک سمجھوتا تھا، جس پر تامل ٹائیگرز نے ناراضی کا اظہار کیا تھا۔
تصویر: Imago/Sven Simon
سونیا گاندھی
پریانکا گاندھی واڈرا کی والدہ سونیا گاندھی بھی عملی سیاست میں رہی ہیں۔ وہ انیس برس تک انڈین کانگریس کی سربراہ رہی تھیں۔ اطالوی نژاد سونیا گاندھی بھارتی پارلیمنٹ کے ایوانِ زیریں لوک سبھا کی رکن رہتے ہوئے اپوزیشن لیڈر بھی تھیں۔
تصویر: picture-alliance/NurPhoto/R. Shukla
راہول گاندھی
بھارتی سیاسی جماعت انڈین کانگریس کے موجودہ سربراہ راہول گاندھی ہیں، جو پریانکا گاندھی واڈرا کے بڑے بھائی ہیں۔ انہوں نے سولہ دسمبر سن 2017 سے انڈین کانگریس کی سربراہی سنبھال رکھی ہے۔ وہ چھ برس تک اسی پارٹی کے جنرل سیکریٹری بھی رہے تھے۔ راہول گاندھی بھارتی پارلیمنٹ کے ایوان لوک سبھا کے رکن بھی ہیں۔
تصویر: Reuters/T. White
پریانکا گاندھی واڈرا
راجیو گاندھی کی بیٹی پریانکا بارہ جنوری سن 1972 کو پیدا ہوئی تھیں۔ وہ شادی شدہ ہیں اور دو بچوں کی ماں بھی ہیں۔ انہوں نے سینتالیس برس کی عمر میں عملی سیاست میں حصہ لینے کا اعلان کیا ہے۔ وہ بھارتی سیاسی جماعت کانگریس کی عملی سیاست کا فروری سن 2019 میں حصہ بن جائیں گی۔
تصویر: Reuters/P. Kumar
سیاسی مہمات میں شمولیت
مختلف پارلیمانی انتخابات میں پریانکا گاندھی واڈرا نے رائے بریلی اور امیتھی کے حلقوں میں اپنے بھائی اور والد کی انتخابی مہمات میں باضابطہ شرکت کی۔ عام لوگوں نے دادی کی مشابہت کی بنیاد پر اُن کی خاص پذیرائی کی۔ گزشتہ کئی برسوں سے توقع کی جا رہی تھی کہ وہ عملی سیاست میں حصہ لینے کا اعلان کر سکتی ہیں اور بالآخر انہوں نے ایسا کر دیا۔
تصویر: DW/S. Waheed
عملی سیاست
پریانکا گاندھی واڈرا نے بدھ تیئس جنوری کو انڈین کانگریس کے پلیٹ فارم سے عملی سیاست میں حصہ لینے کا اعلان کیا۔ کانگریس پارٹی کی جانب سے برسوں انہیں عملی سیاست میں حصہ لینے کی مسلسل پیشکش کی جاتی رہی۔ امید کی جا رہی ہے کہ وہ مئی سن 2019 کے انتخابات میں حصہ لے سکتی ہیں۔
تصویر: Getty Images/AFP
کانگریس پارٹی کی جنرل سیکریٹری
انڈین نیشنل کانگریس پارٹی کی پریس ریلیز کے مطابق پریانکا گاندھی کو پارٹی کی دو نئی جنرل سیکریٹریز میں سے ایک مقرر کیا گیا ہے۔ اس پوزیشن پر انہیں مقرر کرنے کا فیصلہ پارٹی کے سربراہ اور اُن کے بھائی راہول گاندھی نے کیا۔ وہ اپنا یہ منصب اگلے چند روز میں سبھال لیں گی۔
بی جے پی کی تنقید
بھارتی وزیراعظم نریندر مودی کی ہندو قوم پرست سیاسی جماعت بھارتیہ جنتا پارٹی نے پریانکا گاندھی کو کانگریس پارٹی کی جنرل سیکریٹری مقرر کرنے پر تنقید کرتے ہوئے اسے خاندانی سیاست کا تسلسل قرار دیا۔
تصویر: DW/S. Wahhed
10 تصاویر1 | 10
ڈی ڈبلیو کے سوال کا جواب دیتے ہوئے، پاکستان کے معروف اجوکا تھیٹر کے شاہد محمود ندیم کا کہنا تھا، ’’جنوبی ایشیا کے فنکاروں نے ہمیشہ امن کے حق میں اور منافرت کے خلاف آواز اٹھائی ہے۔ یہ ایک شاندار روایت ہے۔ بھارت بہت بڑا ملک ہے اور وہاں کے امن پسند اور جمہوریت پسند حلقے بھی بہت طاقتور ہیں۔ مجھے یقین ہے کہ وہ اس عبوری بحران سے نکل آئیں گے۔‘‘
پاکستان کی عالمی شہرت یافتہ تھیٹر آرٹسٹ، رقاصہ اور انسانی حقوق کی کارکن، شیما کرمانی نے ڈی ڈبلیو سے بات کرتے ہوئے کہا،’’ہندوستان میں سینکڑوں نہیں، بلکہ ہزاروں لاکھوں لوگوں کو سامنے آنے کی ضرورت ہے۔ پاکستانی فنکاروں اور امن پسندوں کو صورت حال کی سنگینی کا احساس ہے کیونکہ ہم نے اپنے ملک میں یہی جنگ لڑی ہے۔ فاشزم کوئی بھی ہو، وہ سب سے پہلے معاشرے کے تخلیقی اظہار اور خواتین کے حقوق پر حملہ کرتا ہے کیونکہ انہی دو قوتوں سے اسے خطرہ ہوتا ہے۔ بھارت کے فنکار اور دانشور بھی مذہبی فاشزم کے خلاف مزاحمت کر رہے ہیں اور آخری فتح انہی کی ہو گی۔‘‘