1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں
کاریں اور نقل و حملیورپ

بی وائے ڈی کا ترکی میں الیکٹرک کاروں کی تیاری کا منصوبہ

20 جولائی 2024

یہ چینی سرمایہ کاری ایک ایسے موقع پر کی جاری ہے، جب الیکٹرک گاڑیوں کی عالمی مارکیٹ پر غلبے کے لیے چین اور مغربی ممالک کی کمپنیوں کے درمیان سخت مسابقتی دوڑ جاری ہے۔

China | Arbeiter im New Energy Vehicle (NEV) im Werk von BYD
تصویر: Li Jianan/XinHua/dpa/picture alliance

دنیا کی سب سے بڑی الیکٹرک کار ساز چینی کمپنی  بی وائے ڈی نے اپنی گاڑیوں کی تیاری کے لیے ترکی میں پلانٹ کھولنے کے سلسلے میں انقرہ حکومت کے ساتھ معاہدے پر دستخط کر دیے ہیں۔ ایک بلین ڈالر کی لاگت والے اس معاہدے سے چین کو یورپی یونین کے نئے محصولات سے بچنے میں مدد ملے گی۔

ترک حکومت اور بی وائے ڈی کے مابین معاہدے پر دستخطوں کی تقریب حال ہی میں ترکی کے صدر رجب طیب ایردوان کی موجودگی میں استنبول میں منعقد کی گئی۔  بی وائے ڈی کے سی ای او وانگ چوانفو اور ترکی کے صنعت و ٹیکنالوجی کے وزیر فاتح کاجر نے اس معاہدے پر دستخط کیے۔

ترک حکومت اور بی وائے ڈی کے مابین معاہدے پر دستخطوں کی تقریب صدر رجب طیب ایردوان کی موجودگی میں استنبول میں منعقد کی گئیتصویر: DHA

ترک وزارت صنعت و ٹیکنالوجی کے مطابق ریسرچ اور ڈویلپمنٹ سنٹر کے قیام کے ساتھ ساتھ یہ پلانٹ سالانہ ایک لاکھ پچاس ہزار گاڑیوں کی پیداوار کی سہولت فراہم کرے گا  اور یہ 5000 افراد کو براہ راست روزگار بھی فراہم کرے گا۔

یہ پیش رفت ایک ایسے وقت پر سامنے آئی، جب یورپی یونین کی جانب سے کی جانے والی تحقیقات کے نتیجے میں چینی الیکٹرک گاڑیوں پر 38 فیصد تک اضافی عارضی محصولات عائد کر دیے گئے۔ گزشتہ برس شروع کی گئی یورپی کمیشن کی تحقیقات میں یہ نتیجہ اخذ کیا گیا تھا کہ چین کی الیکٹرک کارساز کمپنیوں کے لیے چینی ریاستی سبسڈی غیر منصفانہ طور پر یورپی حریفوں کو نقصان پہنچارہی ہے۔

استنبول کے نزدیک واقع مرمرے ریجن دنیا کی آٹو موبائل انڈسٹری کے اہم مراکز میں سے ایک ہے جبکہ ترک ساختہ گاڑیوں کو سن 1995 سے کسٹمز یونین معاہدے کے تحت یورپی یونین تک سود مند  رسائی حاصل ہے۔

سن 1970 کی دہائی کے آغاز میں فیاٹ اور رینالٹ سمیت بڑے کارسازوں نے یورپ، ایشیا اور مشرق وسطیٰ کے سنگم پر واقع ترکی کی پوزیشن کا فائدہ اٹھاتے ہوئے یہاں پلانٹ کھولے ، اس کے ساتھ ساتھ فورڈ، ٹویوٹا اور ہنڈائی بھی یہاں اپنے پیداواری پلانٹ لگانے والی غیر ملکی کار ساز کمپنیوں میں شامل ہیں۔

بی وائے ڈی امریکی کمپنی ٹیسلا کو پیچھے چھوڑتے ہوئے حال ہی میں الیکٹرک گاڑیاں بنانے والی دنیا کی سب سے بڑی کمپنی بن گئیتصویر: TANG KE/Avalon/Photoshot/picture alliance

ترک زبان میں شائع ہونے والے اخبار  یانی شفق کی ایک رپورٹ کے مطابق  ترکی کے بندرگاہی شہر ازمیر کے شمال میں واقع منیسا شہر میں فوکس ویگن کے پلانٹ کے لیے جو زمین مختص کی گئی تھی وہ اب چینی کمپنی کو دی جائے گی۔

الیکٹرک گاڑیوں کی مارکیٹ پر نظر رکھنے والے ایک ماہر لیونٹ ٹیلان نے خبر رساں ادارے اے ایف پی کو بتایا کہ بی وائے ڈی تکنیکی اور پیداواری معیار کے لحاظ سے الیکٹرک گاڑیاں بنانے والا دنیا کا سب سے جدید ادارہ ہے۔ یہ ادارہ ترکی کی مارکیٹ میں سالانہ بیس سے پچیس ہزارگاڑیاں فروخت کرنے اور یورپی یونین کو پچیس ہزار گاڑیاں برآمد کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔

اس کے ساتھ ساتھ غیر ملکی سرمایہ کاری کی حوصلہ افزائی کے لیے ترکی کے نئے ضوابط کے تحت بی وائے ڈی اس اضافی 40 فیصد ٹیرف سے بھی مستثنیٰ ہوگی، جو ترکی نے چین سے درآمد کی جانے والی الیکٹرک گاڑیوں پر گزشتہ ماہ عائد کیا تھا۔

بین الاقوامی توانائی ایجنسی کی سالانہ رپورٹ گلوبل ای وی آؤٹ لک کے مطابق چین الیکٹرک گاڑیوں کی پیداوار کے بڑھتے ہوئےعالمی رجحان کی قیادت کررہا ہے۔ اس کی سڑکوں پر 2030 تک چلنے والی  ہر تین میں سے ایک گاڑی الیکٹرک ہوجائے گی۔

 

جرمنی کے شہر میونخ میں گزشتہ برس ہونے والے بین الاقوامی کار شو کے شرکا بی وائے ڈی کے تیار کردہ ایک ماڈل کا جائزہ لیتے ہوئے تصویر: Zhang Fan/XInhua/picture-alliance

چینی کارساز کمپنیوں نے اپنی برآمدات میں اضافہ کیا ہے، جس کے بعد بہت سے دیگر ممالک بھی اپنے کارسازوں کے تحفظ کے لیے اقدامات کر رہے ہیں۔ چینی کارسازوں نے گاڑیوں کی مانگ پوری کرنے کے لیے بیرون ملک پیداوار کے لیے اقدامات کرنا شروع کر دیے ہیں۔

بی وائے ڈی نے جولائی کے مہینے میں تھائی لینڈ میں بھی اپنی ایک  فیکٹری کھولی ہے اور ہنگری میں بھی اپنی پہلی یورپی فیکٹری کھولنے کے منصوبے کا اعلان کر چکی ہے۔ 

اس کے ساتھ ساتھ بیجنگ نے خبردار کیا ہے کہ یورپی یونین کے ٹیرف کے اقدام سے تجارتی جنگ چھڑ سکتی ہے۔

ح ف ⁄  ش ر (اے ایف پی)

جرمن گاڑیوں کی صنعت کا نیا وژن

01:41

This browser does not support the video element.

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ سیکشن پر جائیں

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ

ڈی ڈبلیو کی مزید رپورٹیں سیکشن پر جائیں