بےزبانی کا خاتمہ، فوجی حدبندی لائن پر ہاتھوں میں ہاتھ، تبصرہ
خالد حمید فاروقی
27 اپریل 2018
شمالی اور جنوبی کوریائی رہنماؤں کی تاریخی ملاقات ایک ایسی سمٹ تھی، جس کے شرکاء کا تعلق دو مختلف دنیاؤں سے تھا۔ ڈی ڈبلیو شعبہ ایشا کے سربراہ الیگزانڈر فروئنڈ کا جنوبی کوریائی دارالحکومت سیئول سے بھیجا ہوا تبصرہ:
اشتہار
مختلف دنیاؤں کے دو انسان، ایک جنوبی کوریا کے انسانی حقوق کے وکیل اور ملکی صدر مون جے اِن اور دوسرے شمالی کوریا کے رہنما کم جونگ اُن، جن کے بارے میں بین الاقوامی سیاست میں ایک خاص طرح کی سوچ پائی جاتی ہے۔ جنوبی کوریائی صدر ایک ایسے رہنما ہیں، جنہیں خود ماضی میں شمالی کوریا سے فرار ہونا پڑا تھا اور کمیونسٹ کوریا کے رہنما کم جونگ اُن ایک ایسے مطلق العنان حکمران جن کا خاندان پیونگ یانگ میں تین نسلوں سے اقتدار میں ہے۔
دونوں کوریائی ریاستوں کے مابین تمام تر اختلافات کے باوجود برف بہت تیزی سے پگھلی اور مشترکہ سرحدی علاقے میں فوجی حد بندی لائن پر دونوں نے ایک دوسرے کا خوش دلی سے استقبال کیا اور مسکراتے ہوئے ہاتھ ملائے۔
شمالی کوریائی رہنما اس سمٹ کے لیے جنوبی کوریا آئے، دراصل مشترکہ سرحد کے قریب پان مون جوم کے سرحدی گاؤں میں، جہاں انہوں نے ’ایوانِ امن‘ نامی عمارت میں جنوبی کوریائی صدر سے مذاکرات کیے۔ لیکن اس بات چیت کے آغاز سے قبل علامتی طور پر ایک خوش کن بات یہ بھی تھی کہ دونوں صدور کم جونگ اُن کی خواہش پر ایک دوسرے کے ہاتھ پکڑے بہت تھوڑی دیر کے لیے فوجی حد بندی لائن پار کر کے شمالی کوریا بھی چلے گئے۔
جنوبی کوریائی صدر مون کے مطابق یہی وہ فوجی لکیر ہے، جو آج دونوں برادر کوریائی ریاستوں کے مابین تقسیم کی علامت ہے لیکن جسے مستقبل میں کشیدگی کی نہیں بلکہ امن کی علامت بن جانا چاہیے۔ کم جونگ اُن بھی اس دورے کے دوران بہت پرسکون اور خوش مزاج دکھائی دیے۔
اپنی ہمیشرہ کے ساتھ مل کر انہوں نے دنیا بھر کے ذرائع ابلاغ کے کیمروں کے سامنے پھول پیش کرنے والے بچوں کے ساتھ مختصر سے خوش گپیاں بھی کیں اور اپنے ہمراہ آئی اپنی ہمشیرہ سے مذاقاﹰ یہ بھی کہا کہ آج کھانے (سمٹ کے موقع پر اہتمام کردہ ضیافت) میں دونوں کوریائی ریاستوں کے لذیذ ترین پکوان پیش کرنے کی تیاریاں کی گئی ہیں۔
یہ سربراہی ملاقات واقعی ایک تاریخی لمحہ تھی۔ جب دونوں رہنماؤں نے غیر متوقع طور پر ایک دوسرے سے انتہائی خوش مزاجی سے ملاقات کی تو دنیا بھر سے آئے ہوئے قریب تین ہزار صحافی بھی یکایک اس ملاقات کے ماحول کو سراہنے پر مجبور ہو گئے۔ اس سمٹ کا سب سے اہم پہلو یہ ہے کہ اطراف کے مابین امن کی بات نہ کرنے یا کسی حد تک بے زبانی کی کیفیت ختم ہو گئی ہے۔
جب اِن کی اُن سے ملاقات ہوئی
شمالی کوریائی رہنما کے بقول ماضی میں کی جانے والی غلطیوں کو نہیں دہرایا جائے گا۔ اپنے اولین دورہ جنوبی کوریا کے دوران انہوں نے کہا کہ خطے کو ایٹمی ہتھیاروں سے پاک بنانے کی خاطر بھرپور تعاون کیا جائے گا۔
تصویر: Reuters
پہلا قدم
کم جونگ اُن پہلے شمالی کوریائی رہنما ہیں، جنہوں نے کوریائی جنگ میں فائر بندی کے 65 برس بعد جنوبی کوریا کی سرزمین پر قدم رکھا۔ کم نے کہا کہ جنوبی کوریا داخل ہوتے ہی وہ ’جذبات کی ایک بڑی لہر میں بہہ نکلے‘۔ جنوبی کوریائی صدر مون جے اِن سرحد پر کم جونگ اُن کا استقبال کرنے کو موجود تھے۔ ان دونوں رہنماؤں کی سمٹ کو تاریخی قرار دیا جا رہا ہے۔
تصویر: KOCIS
نئے تعلقات کے آغاز کا عہد
کیمونسٹ رہنما کم جون اُن نے کہا کہ وہ ہمسایہ ملک جنوبی کوریا کے ساتھ دوستانہ تعلقات کی ایک نئی تاریخ رقم کرنا چاہتے ہیں۔ سن انیس سو ترپن میں کوریائی جنگ کے خاتمے کے بعد سے پہلی مرتبہ کسی شمالی کوریائی رہنما نے جنوبی کوریا کا دورہ کیا ہے۔ جب کم جونگ اُن نے جنوبی کوریا کی سرحد عبور کی تو جنوبی کوریائی صدر مون جے اِن نے ان کا استقبال کیا۔
تصویر: Reuters/Korea Summit Press Pool
تاریخی مصافحہ
جنوبی کوریا داخل ہونے پر اُن نے اِن سے ہاتھ ملایا۔ اس موقع پر کم نے کہا کہ یہ مصافحہ خطے میں قیام امن کی طرف ’افتتاحی قدم‘ ہے۔ کم جونگ اُن کی طرف سے جوہری اور میزائل پروگرام منجمد کرنے کے اعلان کے بعد جزیرہ نما کوریا پر کشیدگی کا خاتمہ ہوتا ممکن نظر آ رہا ہے۔ چین اور امریکا نے بھی دونوں کوریائی ممالک کے رہنماؤں کے مابین اس براہ راست ملاقات کو انتہائی اہم قرار دیا ہے۔
تصویر: Reuters/Korea Summit Press Pool
شمالی کوریائی وفد
جنوبی کوریا کا دورہ کرنے والے شمالی کوریائی رہنما کم جونگ اُن کے ساتھ ان کی ہمشیرہ اور قریبی مشیر کم یو جونگ کے علاوہ کمیونسٹ کوریا کے بین الکوریائی تعلقات کے شعبے کے سربراہ بھی تھے۔ اسی طرح جنوبی کوریائی صدر کے ہمراہ ان کے ملک کے انٹیلیجنس سربراہ اور چیف آف سٹاف بھی تھے۔
تصویر: KOCIS
’ہم ایک قوم ہیں‘
شمالی کوریائی رہنما کم جونگ اُن نے جنوبی کوریائی صدر مون جے اِن کے ساتھ سمٹ میں کہا، ’’اس میں کوئی منطق نہیں کہ ہم آپس میں لڑیں۔ ہم تو ایک ہی قوم ہیں۔ چند ماہ قبل کم جونگ اُن کی طرف سے ایسے کلمات سننے کی توقع بھی نہیں کی جا سکتی تھی۔ جنوبی کوریا میں کئی حلقے اس سمٹ پر محتاط انداز سے ردعمل ظاہر کر رہے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ اس خطے کو جوہری ہتھیاروں سے پاک بنانے میں کئی رکاوٹیں حائل ہو سکتی ہیں۔
تصویر: KOCIS
ایٹمی ہتھیاروں کا معاملہ
اس سمٹ کے پہلے دور میں دونوں لیڈروں نے ایٹمی ہتھیاروں کے خاتمے کے علاوہ قیام امن کے امکانات پر بھی بات چیت کی۔ میڈیا رپورٹوں کے مطابق جنوبی کوریائی صدر مُون جے اِن اور شمالی کوریا کے رہنما کم جونگ اُن نے جزیرہ نما کوریا کو غیر ایٹمی خطہ بنانے کے موضوع پر انتہائی سنجیدگی اور ایمانداری سے تبادلہ خیال کیا۔
تصویر: KOCIS
عالمی برداری خوش
1953ء میں کوریائی جنگ میں فائر بندی کے بعد سے مجموعی طور پر یہ تیسرا موقع ہے کہ شمالی اور جنوبی کوریائی رہنماؤں کی آپس میں کوئی ملاقات ہوئی۔ جاپان، چین اور روس نے اس ملاقات کو خطے میں قیام امن کے لیے اہم قرار دیا ہے۔
تصویر: Reuters
مذاکرات جاری رہیں گے
اس سمٹ کے مشترکہ اعلامیے کے مطابق دونوں ممالک تمام شعبوں میں مذاکراتی عمل جاری رکھیں گے اور اختلافات کو دور کرنے کی کوشش کی جائے گی۔ دونوں ممالک کے مابین طے پانے والے تمام بین الاقوامی معاہدوں پر عملدرآمد یقینی بنایا جائے گا اور دونوں ریاستوں کے مابین سفری پابندیوں کو ختم کرنے کی کوشش بھی کی جائے گی۔
تصویر: Reuters/Korea Summit Press Pool
ماضی کی غلطیاں نہیں دہرائی جائیں گی، کم
شمالی کوریائی رہنما کم جونگ اُن نے کہا ہے کہ ان کا ملک ماضی میں کی جانے والی غلطیوں کو نہیں دہرائے گا۔ اس سمٹ کے مشترکہ اعلامیے کے مطابق کم جونگ اُن نے کہا ہے کہ خطے کو ایٹمی ہتھیاروں سے پاک بنانے کے لیے پیونگ یانگ حکومت مکمل تعاون کرے گی۔ طے پایا ہے کہ دونوں ممالک اس تناظر میں جامع مذاکرات کا عمل شروع کریں گے۔ تاہم اس بارے میں تفصیلات عام نہیں کی گئیں۔
تصویر: KOCIS
مون جے اِن شمالی کوریا جائیں گے
اس سمٹ کے بعد جنوبی کوریائی صدر کے دفتر کی طرف سے بتایا گیا کہ صدر مون جے اِن شمالی کوریا کا دورہ کریں گے۔ ممکنہ طور پر وہ رواں برس موسم خزاں میں یہ دورہ کریں گے، جہاں وہ شمالی کوریائی رہنما کے ساتھ ملاقات کریں گے۔ مون جے اِن کے اس آئندہ جوابی دورے کو بھی دونوں ممالک کے باہمی تعلقات میں بہتری کے لیے انتہائی اہم قرار دیا جا رہا ہے۔
تصویر: DW/Alexander Freund
مقامی آبادی خوش
کم جونگ اُن کی جنوبی کوریا آمد پر کوریائی باشندوں نے خوشی کا اظہار کیا۔ انہوں نے پہلی مرتبہ کم کو دیکھا اور براہ راست سنا۔ اس موقع پر کئی افراد نے خصوصی لباس بھی زیب تن کر رکھا تھا۔ دونوں سربراہان نے جنوبی کوریائی علاقے میں واقع سرحدی گاؤں پان مُون جوم میں قائم ’پیس ہاؤس‘ یا ’ایوان امن‘ میں ملاقات کی۔
تصویر: DW/A. Freund
11 تصاویر1 | 11
اس سمٹ کے اختتام پر اطراف نے ایک مشترکہ اعلامیے میں کہا کہ آئندہ ایک دوسرے کے خلاف اشتعال انگیز بیان بازی سے اجتناب کیا جائے گا، عسکری کشیدگی کم کی جائے گی، زیادہ سے زیادہ اعلیٰ سطحی باہمی ملاقاتوں کا اہتمام کیا جائے گا اور دونوں ممالک کے سربراہان حکومت کے مابین ایک براہ راست ٹیلی فون ہاٹ لائن بھی قائم کی جائے گی۔
اس کے علاوہ یہ بھی طے پا گیا کہ جنوبی کوریائی صدر مون جے اِن بھی ممکنہ طور پر اسی سال موسم خزاں میں شمالی کوریا جائیں گے، جو دراصل کم جونگ اُن کے اس دورے کا خیرسگالی جواب ہو گا۔ سیئول اور پیونگ یانگ اب کوشش یہ کریں گے کہ عشروں پہلے کی کوریائی جنگ میں فائر بندی کی بجائے اب ایک ایسا امن معاہدہ طے کیا جائے، جو جزیرہ نما کوریا پر سلامتی اور امن کی ضمانت بن سکے اور دونوں ممالک میں منقسم خاندانوں کے ارکان کو بھی آئندہ زیادہ تواتر سے آپس میں ملاقاتوں کا موقع مل سکے۔
اس سمٹ میں یہ طے پانا کہ دونوں ممالک مل کر جزیرہ نما کوریا کو غیر ایٹمی خطہ بنانا چاہتے ہیں، اس کا مطلب یہ ہے کہ مستقبل میں امریکا کو وہاں سے اپنے اسٹریٹیجک جوہری ہتھیار ہٹانا ہوں گے۔ اِن اور اُن کا ایک اعلانیہ ہدف پہلے کی طرح یہی ہے کہ دونوں کوریاؤں کا مستقبل میں دوبارہ اتحاد عمل میں آنا چاہیے۔ توقعات سے بہت بڑھ کر اور بڑی حوصلہ افزا بات اس سمٹ میں کم جونگ اُن کا یہ کہنا تھا: ’’ہماری زبان ایک ہے، خون ایک ہے، تاریخ ایک ہے۔ ہم ایک قوم ہیں۔ ہمیں آپس میں لڑنے کے بجائے دوبارہ اتحاد کی بات کرنا چاہیے۔‘‘
ٹرمپ اور شمالی کوریائی رہنما کارٹونسٹوں کے ’پسندیدہ شکار‘
امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ اور شمالی کوریائی رہنما کِم جونگ اُن ایک دوسرے کو جوہری حملوں کی دھمکیاں دیتے ہوئے خوف اور دہشت پھیلا رہے ہیں لیکن کارٹونسٹ ان دونوں شخصیات کے مضحکہ خیز پہلو سامنے لا رہے ہیں۔
تصویر: DW/Gado
’میرا ایٹمی بٹن تم سے بھی بڑا ہے‘
بالکل بچوں کی طرح لڑتے ہوئے شمالی کوریا کے رہنما نے کہا کہ ایٹمی ہتھیار چلانے والا بٹن ان کی میز پر لگا ہوا ہے۔ جواب میں ٹرمپ نے ٹویٹ کرتے ہوئے کہا کہ ’میرے پاس بھی ایک ایٹمی بٹن ہے اور وہ تمہارے بٹن سے بڑا ہے‘۔
تصویر: Harm Bengen
ہیئر اسٹائل کی لڑائی
دونوں رہنماؤں کے ہیئر اسٹائل منفرد ہیں اور اگر ایک راکٹ پر سنہری اور دوسرے پر سیاہ بال لگائے جائیں تو کسی کو بھی یہ جاننے میں زیادہ دقت نہیں ہو گی کہ ان دونوں راکٹوں سے مراد کون سی شخصیات ہیں۔
تصویر: DW/S. Elkin
اگر ملاقات ہو
اگر دونوں رہنماؤں کی ملاقات ہو تو سب سے پہلے یہ ایک دوسرے سے یہی پوچھیں گے، ’’تمہارا دماغ تو صحیح کام کر رہا ہے نا؟ تم پاگل تو نہیں ہو گئے ہو؟‘‘
تصویر: A. B. Aminu
ماحول کو بدبودار بناتے ہوئے
اس کارٹونسٹ کی نظر میں یہ دونوں رہنما کسی اسکول کے ان لڑکوں جیسے ہیں، جو ماحول کو بدبودار کرنے کے لیے ایک دوسرے سے شرط لگا لیتے ہیں۔
تصویر: tooonpool.com/Marian Kamensky
4 تصاویر1 | 4
ان تمام تر حوصلہ افزا باتوں کے ساتھ ساتھ یہ بھی سچ ہے کہ کوریائی ریاستوں کے مابین مستقبل میں بہت بڑی عملی پیش رفت کے بارے میں ماہرین میں کچھ کم امیدی بھی پائی جاتی ہے۔ اس لیے کہ دونوں ممالک کی سربراہی ملاقاتیں تو 2000ء اور 2007ء میں بھی ہوئی تھیں، جن میں اعتماد سازی کے لیے اقدامات پر اتفاق کیا گیا تھا۔
اس کے باوجود ماضی کے مقابلے میں خوش کن بات یہ بھی ہے کہ دونوں موجودہ کوریائی لیڈر اپنے اپنے پیش رو رہنماؤں سے زیادہ کامیاب رہے ہیں اور پھر قریب ایک ماہ بعد شمالی کوریا کے کم جونگ اُن کی امریکی صدر ٹرمپ کے ساتھ بھی ایک ملاقات متوقع ہے۔
اگر کِم ٹرمپ ملاقات بھی ہوئی اور کامیاب رہی تو تمام فریق ایک دوسرے پر اپنا کھویا ہوا اعتماد دوبارہ حاصل کر لیں گے اور پھر شاید ٹرمپ بھی اپنے پیش رو امریکی صدور سے زیادہ کامیاب رہیں گے، کم از کم کوریائی تنازعے کے حوالے سے۔
کوریائی جنگ کے ساٹھ برس
جزیرہ نما کوریا پر جنگ تین سالوں تک جاری رہی۔ اس دوران اقوام متحدہ اور امریکا نے جنوبی کوریا کا جب کہ چین اور سابقہ سوویت یونین نے شمالی کوریا کا ساتھ دیا۔ جنگ کے اختتام پر تقریباً پچاس لاکھ افراد ہلاک ہوئے تھے۔
تصویر: AP
تین سالہ جنگ کا آغاز
شمالی کوریا کی فوجیں 25 جون 1950ء کو جنوبی کوریا میں داخل ہو گئی تھیں۔ جنگ شروع ہونے کے چند دنوں بعد ہی جنوبی کوریا کے تقریبًا تمام حصے پر کمیونسٹ کوریا کی فوجیں قابض ہو چکی تھیں۔ تین سال جاری رہنے والی اس جنگ میں تقریباً 4.5 ملین افراد جاں بحق ہوئے تھے۔
تصویر: AFP/Getty Images
جنگ سے پہلے کی تاریخ
جزیرہ نما کوریا 1910ء سے لے کر 1945ء تک جاپان کے قبضے میں رہا اور دوسری عالمی جنگ کے بعد سے منقسم چلا آ رہا ہے۔ شمال کا حصہ سوویت کنٹرول میں چلا گیا جب کہ جنوبی حصے پر امریکی دستے قابض ہو گئے۔ اگست 1948ء میں جنوبی حصے میں ری پبلک کوریا کے قیام کا اعلان کر دیا گیا جب کہ اس کے رد عمل میں جنرل کم ال سونگ نے نو ستمبر کو عوامی جمہوریہ کوریاکی بنیاد رکھ دی۔
تصویر: picture-alliance / akg-images
اقوام متحدہ کا کردار
شمالی کوریا کی جانب سے سرحدی حدود کی خلاف ورزی کے بعد امریکا اور اقوام متحدہ نے فوری طور پر جنوبی کوریا کا ساتھ دینے کا فیصلہ کیا۔ بیس ممالک کے چالیس ہزار فوجیوں کو جنوبی کوریا روانہ کیا گیا، ان میں امریکی فوجیوں کی تعداد 36 ہزار تھی۔
تصویر: AFP/Getty Images
آپریشن ’ Chromite‘
15ستمبر 1950ء کو امریکی جنرل ڈگلس مک کارتھر کی قیادت میں اتحادی دستے ساحلی علاقے ’ Incheon ‘ پہنچے اور اس کے کچھ ہی گھنٹوں بعد سیول دوبارہ سے جنوبی کوریا کے زیر قبضہ آ چکا تھا۔
تصویر: picture alliance/AP Photo
ماؤ کے دستوں کی مدد
1950ء کے اکتوبر میں چین کی جانب سے اس تنازعے میں باقاعدہ مداخلت کی گئی۔پہلے چھوٹے چھوٹے گروپوں کی صورت میں اور بعد ازاں رضاکاروں کا ایک بہت بڑا دستہ شمالی کوریا کی مدد کو پہنچا۔پانچ دسمبر کو پیونگ یانگ اتحادی فوجوں سے آزاد کرا لیا گیا۔
تصویر: Claude de Chabalier/AFP/Getty Images
جوابی کارروائی
جنوری 1951ء میں چین اور شمالی کوریا نے مل کر ایک بڑی پیش قدمی شروع کی۔ اس میں چار لاکھ چینی اور شمالی کوریا کے ایک لاکھ فوجی شامل تھے۔ اس دوران شمالی کوریا کو بڑی کامیابیاں حاصل ہوئیں۔ امریکا نے چین پر جوہری بم سے حملہ کرنے کی تجویز کو بھی مسترد کر دیا۔
تصویر: picture-alliance/dpa
تھکاوٹ کا شکار
1951 ءکے آخر میں جنگ اسی مقام پر پہنچ چکی تھی، جہاں سے اس کی ابتدا ہوئی تھی یعنی فریقین جنگ سے پہلے والی پوزیشنوں میں اپنی اپنی سرحدوں میں موجود تھے۔ جولائی 1951ء میں فائر بندی مذاکرات شروع ہونے کے باوجود 1953ء کے موسم سرما تک دونوں وقفے وقفے سے ایک دوسرے کو نشانہ بناتے رہتے تھے۔
تصویر: Keystone/Getty Images
دو نظاموں کی جنگ
کوریائی جنگ کو سرد جنگ کے دوران مشرق اور مغرب کے درمیان پہلی پراکسی وار کہلاتی ہے۔ اقوام متحدہ کے دستوں میں امریکی فوجیوں کی تعداد سب سے زیادہ تھی جب کہ دوسری جانب شمالی کوریا کی پشت پناہی کے لیے چین اور روس کے لاکھوں سپاہی موجود تھے۔
تصویر: AFP/Getty Images
بے پناہ تباہی
اس جنگ میں امریکی افواج نے ساڑھے چار لاکھ ٹن بارود استعمال کیا۔ بمباری کا یہ عالم تھا کہ1951ء کے اواخر میں امریکی پائلٹوں نے یہ شکایات کی تھیں کہ شمالی کوریا میں اب کوئی ایسی چیز نہیں بچی ہے، جسے وہ ہدف بنا سکیں۔ شمالی کوریا کے تقریباً تمام بڑے شہر ملبے کا ڈھیر بن چکے تھے۔
تصویر: AFP/Getty Images
لاکھوں افراد ہلاک
1953ء میں جب اتحادی دستوں کا انخلاء شروع ہوا تو اس وقت تک کئی لاکھ افراد موت کے منہ میں جا چکے تھے۔ اس دوران اندازہ لگایا جاتا ہے شمالی اور جنوبی کوریا کے ملا کر پانچ لاکھ فوجی ہلاک ہوئے تھے۔ چار لاکھ چینی فوجی اور اس جنگ کے دوران مرنے والے اتحادی فوجیوں کی تعداد چالیس ہزار بتائی جاتی ہے۔
تصویر: Keystone/Getty Images
جنگی قیدیوں کا تبادلہ
1953ء میں اپریل کے وسط اور مئی کے آغاز میں فریقین کے مابین قیدیوں کا پہلی مرتبہ تبادلہ ہوا اور اسی سال کے اختتام تک تبادلے کا یہ سلسلہ جاری رہا۔ اقوام متحدہ کی جانب سے شمالی کوریا کے پچہتر ہزار اور تقریباً سات ہزار چینی قیدیوں کو رہا کیا گیا۔ دوسری جانب سے ساڑھے تیرہ ہزار قیدی رہا کیے گئے، جن میں تقریباً آٹھ ہزار جنوبی کوریا کے تھے۔
تصویر: Keystone/Getty Images
فائربندی سمجھوتہ
دس جولائی1951ء کو جنگ بندی کے لیے مذاکرات شروع ہوئے اور بالآخر دو سال بعد 27 جولائی کو معاملات طے پا گئے۔ تاہم اس سمجھوتے پر دستخط نہیں نہ ہونے کی وجہ سے دونوں ممالک ابھی تک حالت جنگ میں ہیں۔
تصویر: AFP/Getty Images
ساٹھ سال بعد بھی دشمن
اس جنگ کو ختم ہوئے ساٹھ برس گزر چکے ہیں لیکن ابھی بھی یہ دونوں ممالک کشیدگی کی حالت میں ہیں۔ ان دونوں ممالک کے درمیانی سرحد کی نگرانی انتہائی سخت ہے۔ ابھی بھی سرحد کے اطراف دونوں ملکوں کے سپاہی چوکنا کھڑے ہوتے ہیں۔