بےنظیر بھٹو کا قتل: تحقیقاتی کمیشن کی مدت میں توسیع
1 جنوری 2010اس تین رکنی کمیشن کو چھ ماہ تک چھان بین کے بعد اپنی رپورٹ اکتیس دسمبر کو پیش کرنا تھی۔ تاہم عالمی ادارے کے مطابق اسے ابھی مزید تین ماہ کا عرصہ درکار ہے۔
یہ امکانات انتہائی کم ہیں کہ اقوام متحدہ کا یہ کمیشن بےنظیر بھٹو کے مبینہ قاتلوں کے ناموں کی نشاندہی بھی کرے گا۔ اس کا دارومدار پاکستانی حکام کی جانب سے کی جانے والی تحقیقات پر ہوگا۔ کمیشن کے سربراہ ایرالڈو مُنیوس البتہ کہہ چکے ہیں کہ اُن کی طرف سے کی گئی تحقیقات پاکستانی حکام کے لئے یقینی طور پر مددگار ثابت ہوگی۔
اقوام متحدہ میں چلی کے سفیر Heraldo Munoz کی سربراہی میں قائم یہ کمیشن ان عوامل کا جائزہ لے رہا ہے جو راولپنڈی میں انتخابی ریلی کے دوران دو مرتبہ پاکستان کی وزیر اعظم رہ چکی بےنظیر بھٹو کے قتل کے ممکنہ اسباب ہوسکتے ہیں۔
اقوام متحدہ کی جانب سے جاری کردہ ایک بیان کے مطابق پاکستان سے حاصل شدہ معلومات کو پرکھنے کے عمل میں کافی کام ابھی باقی ہے، جس کی بنا پر کمیشن کے ارکان نے مزید وقت دئے جانے کی درخواست کی تھی۔
اقوام متحدہ کے سیکریٹری جنرل بان کی مون نے پاکستانی حکومت کو اس کمیشن کو دی گئی میعاد میں اضافے سے آگاہ کر دیا ہے۔ عالمی ادارے کا یہ تحقیقاتی کمیشن اب اس سال اکتیس مارچ تک اپنی رپورٹ پیش کرے گا۔
عالمی ادارے کے سیکریٹری جنرل نے پاکستان کے مطالبے پر یہ تحقیقاتی کمیشن تشکیل دیا تھا۔ کمیشن کے دیگر دو عہدیداروں میں انڈونیشیا کے سابق اٹارنی جنرل مارزُوکی دارُسمان اور آئرلینڈ میں پولیس کے سابق سربراہ پیٹر فٹزجیرالڈ شامل ہیں۔
اِس وقت پاکستان میں حکمران جماعت پیپلز پارٹی کی مقتول سربراہ بے نظیر بھٹو جب ستائیس دسمبر دو ہزار سات کی شام ایک خودکش حملے کا نشانہ بنی تھیں تو پاکستان میں شدید بے یقینی اور گہرے افسوس کے علاوہ پر تشدد احتجاج کا سلسلہ بھی کئی دنوں تک جاری رہا تھا۔
ابتدائی طوپر خودکش حملہ آور کی جانب سے داغی گئی گولی کو ہلاکت کا سبب قرار دیا گیا تھا، تاہم بعد کی تفتیش میں خودکش حملے کے باعث بےنظیر بھٹو کے سر کے پچھلے حصے کا انتہائی شدت سے گاڑی سے ٹکرا جانا اُن کے لئے جان لیوا قرار دیا گیا تھا۔
طویل جلاوطنی کے بعد اٹھارہ اکتوبر دو ہزار سات کو اپنے آبائی وطن میں قدم رکھنے کے چند گھنٹے بعد بھی ان پر ایک جان لیوا حملہ کیا جا چکا تھا جس میں وہ محفوظ رہی تھیں۔ بے نظیر بھٹو کے قتل میں، اب خود بھی مارے جا چکے طالبان کمانڈر بیت اللہ محسود کو بھی ملوث قرار دیا جاتا تھا جبکہ درپردہ طور پر سابقہ حکومت کے چند اعلیٰ عہدیداروں کے نام بھی لئے جاتے رہے۔ البتہ حتمی حقائق ابھی تک غیر واضح ہیں۔
رپورٹ : شادی خان
ادارت : مقبول ملک