بےگھر شہری سے خیرات کے سکے چھیننے والے دو نوجوان گرفتار
23 اگست 2020
جرمنی میں ایک بےگھر شہری سے اسے خیرات میں دیے گئے تقریباﹰ دس یورو چھیننے والے دو نوجوان لڑکے گرفتار کر لیے گئے۔ یہ شخص ایک فٹ پاتھ پر سویا ہوا تھا اور خیرات کی رقم سکوں کی صورت میں اس کے سامنے ایک پیپر کپ میں پڑی تھی۔
اشتہار
یہ واقعہ جرمن صوبے نارتھ رائن ویسٹ فیلیا کے شہر ڈورٹمنڈ میں ہفتے اور اتوار کی درمیانی شب پیش آیا اور دونوں ملزمان کی عمریں سولہ سولہ سال بتائی گئی ہیں۔
پولیس نے بتایا کہ ان نوجوانوں نے دیکھا کہ ایک بےگھر شہری ایک سڑک کے کنارے سویا ہوا تھا اور اس کے سامنے رکھے ہوئے گتے کے ایک کپ میں تقریباﹰ دس یورو سکوں کی صورت میں پڑے تھے۔
ان لڑکوں نے پہلے تو اس سوئے ہوئے شخص کو جگایا اور پھر بظاہر اصلی نظر آنے والی اپنی نقلی پستول کا رخ اس کی طرف کر کے ایک پٹاخہ چلا دیا، جس سے یہ شخص ڈر گیا۔
پولیس نے اتوار تیئیس اگست کے روز بتایا کہ یہ دونوں نوجوان اس بے خانماں آدمی کے سامنے رکھے ہوئے پیپر کپ سے سکے نکال کر اپنے الیکٹرک رولر پر سوار ہو کر موقع سے فرار ہو گئے تھے۔
جرمن شہریوں کی غربت کی کہانیاں
بے گھر، کھانے پینے میں بچت اور بچوں کی ضروریات پوری کرنے کے لیے بھی پیسے نہیں۔ اعداد و شمار کو دیکھا جائے تو جرمنی میں ہر تیسرا شہری غربت سے متاثر ہے۔ ایسے افراد کی کہانیاں تصویروں کی زبانی۔
تصویر: DW/Shamsan Anders
غیر یقینی مستقبل
یہ تصویر جرمن وفاقی ریاست اور شہر بریمن کے غریب ترین سمجھے جانے والے علاقے کی ہے۔ بریمن میں ہر پانچویں شخص کو غربت کے خطرات لاحق ہیں۔ جرمنی میں غریب اسے تصور کیا جاتا ہے جس کی ماہانہ آمدنی درمیانے درجے کے جرمن شہریوں کی اوسط آمدنی سے ساٹھ فیصد سے کم ہو۔
تصویر: DW/Shamsan Anders
بھوک کے خلاف جنگ
بریمن میں تین ایسی غیر سرکاری تنظیمیں بھی سرگرم ہیں جنہوں نے غربت اور بھوک کے خلاف جنگ شروع کر رکھی ہے۔ یہ ادارے سپر مارکیٹوں اور بیکریوں سے بچا ہوا کھانا اور اشیائے ضرورت جمع کر کے ضرورت مند افراد میں تقسیم کرتے ہیں۔ ایسی ایک تنظیم ہر روز قریب سوا سو افراد کو کھانا مہیا کرتی ہے۔
تصویر: DW/Shamsan Anders
نسلی تفریق سے بالاتر
جرمن شہر ایسن میں ایک نجی تنظیم نے غیر ملکی افراد کو مفت خوراک مہیا نہ کرنے کا فیصلہ کیا تھا جس پر شدید تنقید سامنے آنے کے بعد انہیں فیصلہ تبدیل کرنا پڑا۔ بریمن میں سرگرم تنظیموں کا تاہم کہنا ہے کہ وہ ہر رنگ اور نسل سے تعلق رکھنے والے غریب افراد کی مدد کرتے ہیں۔
تصویر: DW/Shamsan Anders
بوڑھے بھی پیش پیش
اسی سالہ ویرنر ڈوزے رضاکارانہ طور پر غریبوں کو خوراک مہیا کرنے والی تنظیم بریمنر ٹافل کے لیے کام کرتے ہیں۔ کئی افراد ایک یورو فی گھنٹہ اجرت کے عوض اور بہت سے رضاکار طالب علم بھی ’غربت کے خلاف جنگ‘ کا حصہ ہیں۔
تصویر: DW/Shamsan Anders
ہالے میں اجڑے گھر
مشرقی جرمنی میں ہالے شہر کی رونقیں قابل دید تھیں لیکن اب ہالے نوئے اسٹڈ کا علاقہ ویرانی کا منظر پیش کرتا ہے۔ ہالے میں بے روزگاری کی شرح بھی زیادہ ہے اور روزگار ملنے کے امکانات بھی کم ہیں۔
تصویر: DW/Shamsan Anders
محروم طبقے کی مدد
ہالے میں محروم ترین طبقے کی مدد کے لیے انہیں کم داموں پر اشیائے خورد و نوش اور کپڑے فراہم کیے جاتے ہیں۔ ان ’سوشل مارکیٹوں‘ میں محروم ترین طبقے سے تعلق رکھنے والے بچوں اور معمر افراد کو ترجیحی بنیادوں پر یہ اشیا فراہم کی جاتی ہیں لیکن غریب ترین جرمن شہر ہالے میں ضرورت مندوں کی تعداد بڑھتی جا رہی ہے۔
تصویر: DW/Shamsan Anders
’زیادہ تر خریدار غیر ملکی‘
یہ تصویر ایک ایسے اسٹور کی ہے جہاں گھر کی اشیا سستے داموں فراہم کی جاتی ہیں۔ اسٹور کے ملازم کا کہنا ہے کہ خریداروں کی اکثریت غیر ملکیوں اور مہاجرین کی ہوتی ہے۔ ان کے بقول غریب جرمن شہری شاید استعمال شدہ اشیا خریدنے میں شرمندگی محسوس کرتے ہیں۔
تصویر: DW/Shamsan Anders
غربت میں پروان چڑھتے بچے
جرمنی میں قریب ایک ملین بچے غربت کا شکار ہیں۔ ایسے بچے نہ تو سالگرہ کی تقریبات منا پاتے ہیں، نہ کھیلوں کے کلبوں کا رخ کر سکتے ہیں۔ اعداد و شمار کے مطابق جرمنی میں ہر ساتواں بچہ حکومت کی فراہم کردہ سماجی امداد کا محتاج ہے۔
تصویر: DW/Shamsan Anders
’کوئی بچہ بھوکا نہ رہے‘
’شنٹے اوسٹ‘ نامی ایک تنظیم چھ سے پندرہ برس عمر کے پچاس بچوں کو اسکول کے بعد کھانا مہیا کرتی ہے۔ ادارے کی ڈائریکٹر بیٹینا شاپر کہتی ہیں کہ کئی بچے ایسے ہیں جنہیں ایک وقت کے لیے بھی گرم کھانا دستیاب نہیں ہوتا۔ اس تنظیم کی خواہش ہے کہ کوئی بچہ گھر بھوکا نہ جائے۔
تصویر: DW/Shamsan Anders
’ہم ایک خاندان ہیں‘
بیٹینا شاپر کا کہنا ہے کہ ضرورت مند بچوں کی تعداد بڑھتی جا رہی ہے جن میں مہاجر بچوں کی بڑی تعداد بھی شامل ہے۔ ان کی تنظیم بچوں کو کھانا مہیا کرنے کے علاوہ ہوم ورک اور روز مرہ کے کاموں میں بھی معاونت فراہم کرتی ہے۔ دانت صاف کرنے کا درست طریقہ بھی سکھایا جاتا ہے۔
تصویر: DW/Shamsan Anders
بڑھتی تنہائی
ایک اندازے کے مطابق قریب چھ ہزار بے گھر افراد برلن کی سڑکوں پر سونے پر مجبور ہیں۔ جرمن دارالحکومت کے ساٹھ فیصد بے گھر افراد غیر ملکی ہیں اور ان کی اکثریت کا تعلق مشرقی یورپی ممالک سے ہے۔
تصویر: DW/Shamsan Anders
بے گھروں کے چکنا چور خواب
ایک حادثے میں یورگ کی ایک ٹانگ ضائع ہو گئی تھی اور وہ گزشتہ چھ برس سے بے گھر ہے۔ یورگ کا کہنا ہے کہ برلن میں بے گھر افراد کی تعداد بڑھنے کے ساتھ ساتھ ایسے افراد میں آپسی مقابلہ بھی بڑھ رہا ہے۔ تعمیر کے فن میں مہارت رکھنے والے اڑتیس سالہ یوگ کی خواہش ہے کہ کسی دن وہ دوبارہ ڈرم بجانے کے قابل ہو پائے۔
تصویر: DW/Shamsan Anders
12 تصاویر1 | 12
موقع پر موجود چند افراد نے جب یہ منظر دیکھا تو فوراﹰ پولیس کو اطلاع کر دی۔ کچھ ہی دیر بعد پولیس نے ان دونوں نابالغ ملزموں کو پکڑ لیا مگر وہ مزاحمت پر اتر آئے تھے۔
بتایا گیا ہے کہ ان دونوں نوجوانوں کا رویہ کافی جارحانہ تھا اور بعد میں پتا چلا کہ وہ پہلے بھی ڈورٹمنڈ شہر میں عام لوگوں کو ڈرا کر ان سے چھوٹی موٹی رقوم چھین لینے کی چند وارداتوں کے مرتکب ہو چکے تھے۔
اس پر پولیس انہیں ہتھکڑیاں پہنا کر مقامی تھانے میں لے گئی، جہاں ان کے خلاف مقدمہ درج کر لیا گیا۔ اب انہیں عدالت میں اپنے خلاف کارروائی کا سامنا کرنا ہو گا۔
ان سے برآمد کیے گئے تقریباﹰ دس یورو کے سکے پولیس نے اس بےگھر شخص کو لوٹا دیے جس سے وہ چھینے گئے تھے۔
م م / ع آ (ڈی پی اے)
امریکا میں غربت
امریکا میں مالیاتی مشکلات میں گھرے شہریوں کی پریشانیاں بڑھتی جا رہی ہیں۔ سماجی ناہمواری کے شکار یہ افراد اپنے مسائل کے حل کے لیے صدر باراک اوباما کی طرف دیکھ رہے ہیں۔
تصویر: Getty Images
لاس اینجلس میں بے گھر افراد
آٹھ جنوری 1964ء کو اس وقت کے امریکی صدر لِنڈن جانسن نے اپنے اسٹیٹ آف دا یونین خطاب میں امریکا میں غربت کے خلاف جنگ کا اعلان کیا تھا۔ تاہم اس بات کو 50 برس گزر جانے کے باوجود دنیا کی سب سے بڑی معیشت امریکا میں غربت کے خاتمے کا خواب آج بھی تعبیر سے کہیں دور ہے۔
تصویر: Frederic J. Brown/AFP/Getty Images
خوراک کے بغیر شہری
بھوک غربت کا نتیجہ ہوتی ہے۔ امریکا کے ’ہاؤسنگ اینڈ اربن ڈویلپمنٹ ڈیپارٹمنٹ‘ کی ایک تحقیق کے مطابق نیویارک میں بے گھر افراد کی تعداد میں 2013ء کے دوران اضافہ ہوا۔ صرف لاس اینجلس ہی بڑے امریکی شہروں میں سے ایک ایسا ہے جہاں بے گھر افراد کی شرح نیویارک کے مقابلے میں زیادہ تھی۔
تصویر: Getty Images
غریبوں کے لیے کھانے کی سہولت
امریکا میں غرباء کے لیے مفت خوراک کی طلب تیزی سے بڑھ رہی ہے۔ نیویارک شہر کا فوڈ بینک شہر میں قریب چار لاکھ مفت کھانے روزانہ تقسیم کرتا ہے۔
تصویر: Getty Images
مشکل وقت
امریکا کے ادارہ برائے مردم شماری کے مطابق 2009ء سے 2011ء کے عالمی اقتصادی بحران کے دوران ہر تین میں سے ایک امریکی شہری کم از کم دو ماہ تک غربت بھگت چکا ہے۔
تصویر: Frederic J. Brown/AFP/Getty Images
2013ء میں پریشانی کے اشارے
بہت سے ایسے لوگ بھی ہیں جن کے پاس ملازمت تو ہے مگر وہ اپنی ضروریات زندگی پوری نہیں کر پاتے۔ ان کو عام طور پر ’ورکنگ پؤر‘ یا برسرروزگار غرباء کا نام دیا جاتا ہے۔ امریکا میں اس وقت کم سے کم فی گھنٹہ تنخواہ 7.25 ڈالر ہے۔ 2013ء کے ایک گیلپ سروے کے مطابق امریکا کے 20 فیصد بالغ شہری سال کے کسی نہ کسی حصے میں عام اشیائے ضرورت کی خریداری کے لیے بھی مشکلات کا شکار رہتے ہیں۔
تصویر: Getty Images
ایک خاص دعوت
ایک مفت ٹرکی کے حصول کا یہ کوپن دراصل نیویارک کے غربت کے شکار رہائشیوں کے لیے مسائل کو کسی حد تک حل کرنے کی کوشش کا حصہ ہے۔ بھوک کے خلاف نیویارک شہر کا اتحاد نامی تنظیم کے مطابق نیویارک میں گھروں میں رہائش پذیر ہر چھ میں سے ایک فرد کو گزشتہ برس ناکافی خوراک کا سامنا رہا۔
تصویر: Getty Images
امید کی کِرن
امریکی دارالحکومت واشنگٹن میں ’مَنا فوڈ سنٹر‘ Manna Food Center ہر ماہ ضرورت مندوں کو مفت ماہانہ خوراک کے پیکج فراہم کرتا ہے۔ ان میں سے بہت سے خاندان ہوتے ہیں۔ دنیا کے امیر ترین ملک میں 16 ملین سے زائد بچے غربت کی زندگی بسر کر رہے ہیں۔ یہ تعداد دراصل امریکا میں غرباء کی غیر متناسب شرح کی نمائندگی کرتی ہے۔
تصویر: DW/Y. Zarbakhch
امداد کی طلب میں اضافہ
امریکا میں 2012ء کے دوران غربت سے متاثرہ افراد کی تعداد 47 ملین تھی جس میں 13 ملین بچے بھی شامل تھے۔ ملک میں جاری فوڈ سٹیمپ پروگرام کے تحت اطلاعات کےمطابق اقتصادی بحران سے قبل 26 ملین افراد کو مدد فراہم کی گئی تھی۔ اس کی طلب میں 2010ء کے بعد سے بہت تیزی سے اضافہ ہو رہا ہے۔ اس پروگرام کے تحت مستحق افراد کو طے شدہ اشیائے خوراک کے حصول میں مالی رعایت دی جاتی ہے۔