’ بے بس و نالاں نابالغ مہاجر بچوں ميں خودکشی کا رجحان‘
4 ستمبر 2018
يونانی جزيرے ليسبوس کے موريا کيمپ ميں مہاجرين کو درپيش ابتر صورتحال کی رپورٹيں آتی ہی رہتی ہيں تاہم اب وہاں کی حالت اس قدر بگڑ چکی ہے کہ وہاں بچے خود کشی کی کوشش کر رہے ہيں۔
اشتہار
ليسبوس پر مہاجرين سے متعلق امدادی سرگرميوں کے کوآرڈينيٹر لوکا فونٹانا نے يہ انکشاف کيا ہے کہ موريا کيمپ ميں بچے خود کشی پر اتر آئے ہيں۔ ڈی ڈبليو سميت چند ديگر يورپی نشرياتی اداروں سے چلنے والی ويب سائٹ انفومائگرينٹس کو ديے اپنے ايک خصوصی انٹرويو ميں فونٹانا نے بتايا، ’’موريا کيمپ ميں بہت سے ايسے بچے ہيں جو خود کو جسمانی نقصان پہنچانے لگے ہيں اور چند ايسے بھی ہيں، جو خود کشی سے متعلق خيالات و رجحانات کے سبب پوری پوری رات سو نہيں پات۔‘‘ فرانسيسی امدادی تنظيم ’ڈاکٹرز ود آؤٹ بارڈرز‘ سے منسلک اس اہلکار نے موريا کيمپ کو ايک جنگل سے تعبير کرتے ہوئے بتايا کہ وہاں کے حالات دن بدن مزيد بگڑ رہے ہيں۔
لوکا فونٹانا نے بتايا کہ سب سے زيادہ نازک سمجھے جانے والے بچوں کو ان کے ادارے کی جانب سے نفسياتی مدد فراہم کی جا رہی ہے تاہم يہ ناکافی ہے کيونکہ ليسبوس پر نفسياتی ماہر يا سائيکالوجسٹ موجود نہيں اور چوں کہ ان بچوں کو دارالحکومت ايتھنز نہيں لے جايا جا رہا، انہيں مناسب مدد نہيں مل رہی۔
ذہنی امراض کے حل کے ليے ايم ايس ايف کی ايک کلينک ليسبوس کے صدر مقام ميتيلينی ميں ہے اور يہ اس پورے جزيرے کی واحد ايسی کلينک ہے، جو متاثرہ تارکين وطن کو اس قسم کی مدد فراہم کر رہی ہے۔ فونٹانا نے بتايا کہ ذہنی دباؤ کے شکار بچے اس کيمپ ميں اکثر ساتھ مل کر تصاوير بناتے ہيں اور يہ تصاوير ان مشکلات اور رکاٹوں کی عکاسی کرتی ہيں، جو ان بچوں نے اپنے ملکوں اور پھر پناہ کے دوران کے دوران ديکھيں۔ ’ڈاکٹرز ود آؤٹ بارڈرز‘ کے اس اہلکار نے بتايا کہ فی الحال کسی بھی بچے نے باقاعدہ خود کشی کی نہيں ہے ليکن اس کی وجہ صرف يہی ہے کہ کيمپوں ميں وہ بالکل تنہا نہيں ہوتے۔
موريا کيمپ ميں پناہ ليے ہوئے مہاجرين کی اکثريت کا تعلق شام، افغانستان، عراق، سوڈان اور کانگو سے ہے، گو کہ وہاں پاکستانی بھی درجنوں کی تعداد ميں موجود ہيں۔ يہ تارکين وطن مسائل سے اس قدر تھک چکے ہيں کہ ان ميں سے کئی کی خواہش ہے کہ وہ اپنے وطن واپس چلے جائيں۔ شامی قناہ گزين قاسم نے ايم ايس ايف سے کہا کہ اگر اس کے ملک ميں کہيں بھی امن ہو، تو وہ وہاں چلا جائے۔ دير الزور سے تعلق رکھنے والے قاسم کی خواہش ہے کہ شام دوبارہ پر امن ہو اور وہ اپنے ملک ميں ہی رہ سکے۔
لوکا فونٹانا نے بتايا کہ موريا کيمپ ميں تين ہزار پناہ گزينوں کی گنجائش ہے ليکن اس وقت وہاں قيام پذير افراد کی تعداد ساڑھے آٹھ ہزار سے زائد ہے۔ ان ميں لگ بھگ تين ہزار بچے ہيں اور يہ سب خيموں ميں گزر بسر کر رہے ہيں۔ ہر پچاس سے ساٹھ افراد کے ليے ايک بيت الخلاء کا انتظام ہے اور کھانے کے ليے کبھی کبھی تين تين گھنٹے قطاروں ميں کھڑا رہنا پڑتا ہے۔
مہاجر کيمپ ميں زندگی کيسی ہوتی ہے؟
ان دنوں شورش زدہ ملکوں سے تعلق رکھنے والے لاکھوں مہاجرين مختلف يورپی رياستوں ميں مہاجر کيمپوں ميں گزر بسر کر رہے ہيں۔ دنيا کے مختلف حصوں ميں مہاجر کيمپوں ميں زندگی کيسی ہوتی ہے، اس پر ڈی ڈبليو کی خصوصی پکچر گيلری۔
تصویر: picture-alliance/AP/R, Adayleh
اميد کے منتظر
ايک شامی پناہ گزين ترکی کے ايک مہاجر کيمپ ميں پيدل چلتے ہوئے۔ شامی خانہ جنگی کے سبب قريب 2.7 ملين شامی پناہ گزين ترکی ميں پناہ ليے ہوئے ہيں۔ متعدد مرتبہ انقرہ حکومت کی يقين دہائيوں کے باوجود شامی شہريوں کو ايک عرصے تک ترکی ميں ملازمت کی اجازت نہ ملی، جس سبب ملازمت کے اہل مردوں ميں نا اميدی بڑھ رہی ہے۔
تصویر: Getty Images/C. Court
انسانی معيارات پر پورا اترنے والا پہلا فرانسيسی مہاجر کيمپ
تارکين وطن شمالی فرانس کے شہر ڈنکرک کے پاس گراندے سانتھ کے مقام پر تعمير کردہ نئے مہاجر کيمپوں ميں منتقل ہوتے ہوئے۔ ’انسانی معيارات پر پورا اترنے والے‘ پہلے فرانسيسی مہاجر کيمپوں ميں تارکين وطن کی منتقلی کا کام مارچ کے آغاز ميں شروع ہوا۔ امدادی تنظيم ’ڈاکٹر ود آؤٹ بارڈرز‘ (MSF) کی جانب اب تک ايسے دو سو کيبن تعمير کيے جا چکے ہيں، جبکہ منصوبہ 375 کيبنز کی تعمير کا ہے۔
تصویر: Reuters/P. Rossignol
اميد کا چہرہ
عراق سے تعلق رکھنے والی ايک تين سالہ کُرد بچی، لکڑی سے بنے کيبن ميں مسرت اور اميد بھری نگاہوں سے ديکھتی ہوئی۔ گراندے سانتھ ميں تعمير کردہ ان نئے کيبنز ميں رہنے والے زيادہ تر مہاجرين قبل ازيں گراندے سانتھ اور کيلے کے مقامات پر انتہائی خراب حالات ميں وقت گزار چکے ہيں۔
تصویر: Reuters/P. Rossignol
نہ آگے جانے کا راستہ، نہ واپسی کی کوئی راہ
يونان اور مقدونيہ کی سرحد پر اڈومينی شہر ميں ہزاروں پناہ گزين انتہائی ناقص حالات ميں گزر بسر کر رہے ہيں۔ چند بلقان ممالک کے حاليہ اقدامات کے سبب وہاں ہزاروں تارکين وطن پھنس گئے ہيں۔
تصویر: DW/D. Tosidis
چند لمحوں کی مسکراہٹيں
اڈومينی کے مقام پر بچے ايک کرتب دکھانے والے کی حرکتوں سے لطف اندوز ہوتے ہوئے۔ طبی ماہرين بارہا يہ تنبيہ کررہے ہيں کہ اس کيمپ ميں بچوں کے ليے حالات انتہائی ناساز ہيں اور سردی اور نمی کے باعث بچوں ميں بہت سے بيمارياں پيدا ہو رہی ہيں۔
تصویر: Getty Images/D. Kitwood
ايک گمنام زندگی گزارتے ہوئے
شمال مشرقی سوڈان ميں اريٹريا کے پناہ گزين واد شريفے کے مہاجر کيمپ ميں زير علاج۔
تصویر: Reuters/M. N. Abdallah
مضبوط بنيادوں کا قيام
الجزائر کی بلديات تندوف ميں واقع ايک مہاجر کيمپ ميں سہاواری قبيلے سے تعلق رکھنے والی ايک استانی بچوں کو پڑھاتے ہوئے۔ اس مقام پر کُل پانچ مہاجر کيمپ موجود ہيں، جن ميں ايک لاکھ پينسٹھ ہزار مہاجرين اپنے شب و روز گزارتے ہيں۔ وہاں ايک ديوار پر پيغام لکھا ہے، ’’اگر آپ کا آج دشوار ہے، تو مستقبل روشن ہو گا۔‘‘
تصویر: Reuters/Z. Bensemra
افغان مہاجرين پاکستان ميں : ايک ناگزير بوجھ
پاکستان ميں بسنے والے تقريباً 1.7 ملين رجسٹرڈ افغان مہاجرين ميں سے کچھ کے بچے ايک اسکول ميں تعليم حاصل کرتے ہوئے۔ اقوام متحدہ کا مسلسل يہ مطالبہ ہے کہ سالہا سال سے پاکستان ميں مقيم افغان تارکين وطن کے حوالے سے کوئی حتمی فيصلہ کيا جائے۔
تصویر: Reuters/C. Firouz
ہر حالت ميں خوش
يک شامی مہاجر بچہ اردن کے زاتاری مہاجر کيمپ ميں ايک گاڑی کے ٹائر کے ساتھ کھيلتا ہوا۔ يہ کيمپ سن 2012 ميں کھولا گيا تھا تاکہ شامی خانہ جنگی سے فرار ہونے والے يہاں آکر پناہ لے سکيں۔ اس وقت اس کيمپ ميں قريب ايک لاکھ افراد مقيم ہيں۔