بے نظیر بھٹو قتل میں پرویز مشرف کا بھی نام شامل
7 فروری 2011وفاقی تحقیقاتی ایجنسی (ایف آئی اے) کے وکیل چوہدری ذوالفقارعلی کا کہنا ہے کہ گرفتار ملزموں نے اس بات کا اعتراف کیا ہے کہ وہ بے نظیر بھٹو کے قتل والے دن یعنی ستائیس دسمبر دو ہزار سات کو اس وقت کے صدر جنرل مشرف کے احکامات پر براہ راست عملدرآمد کرتے رہے۔ وکیل کے مطابق ایک گرفتار آفیسر سعود عزیز کا سابق صدر مشرف نے گوجرانوالہ سے راولپنڈی تبادلہ کرایا تھا، جس سے واضح ہوتا ہے کہ وہ بے نظیر کے قتل کی سازش میں ملوث ہیں۔ عدالت نے اس مقدمے میں پہلے سے گرفتار ملزمان سابق سٹی پولیس افسر راولپنڈی سعود عزیز اور ایس پی خرم شہزاد کی ضمانت کی درخواستیں بھی مسترد کر دی ہیں۔
چوہدری ذوالفقار نے ذرائع ابلاغ سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ جنرل مشرف پراعانت قتل اور قتل کی سازش تیار کرنے جیسے الزامات عائد کئے گئے ہیں۔ جنرل مشرف کی گرفتاری کے حوالے سے سرکاری وکیل نے کہا کہ اگر عدالت نے ان کے وارنٹ جاری کئے تو پھر جنرل مشرف کو پیش کرنے کے لئے عدالتی احکامات کی تعمیل ہو گی۔
ایف آئی اے حکام کے مطابق وہ سابق صدر مشرف کو اس سلسلے میں پہلے ہی ایک سوالنامہ بھجوا چکے ہیں لیکن انہوں نے اب تک اس کا کوئی جواب نہیں دیا۔ سرکاری وکیل کے مطابق گرفتار پولیس افسران نے جنرل مشرف کے کہنے پر بے نظیر بھٹو کی سکیورٹی پر مامور اے ایس پی اشفاق انور کو ڈیوٹی سے ہٹایا اور جائے حادثہ کو بھی فوراً دھلوا دیا۔
ایف آئی اے نے پیر کے روز عدالت میں پیش کئے گئے چالان میں سابق وزیر اعظم بے نظیر بھٹو کے زیر استعمال بلیک بیری فون سیٹوں کا ریکارڈ بھی پیش کیا۔ دوسری جانب گرفتار ملزمان کے وکیل ملک وحید انجم نے کہا ہے کہ ان کے موکلوں کو سیاسی انتقام کا نشانہ بنایا جا رہا ہے جبکہ تحقیقات کے طریقہ کار میں بھی بہت سے جھول موجود ہیں۔ وحید انجم کے مطابق سیاسی دباؤ ہی کی بناء پر ان کے موکلوں کی درخواست ضمانت بھی منظور نہیں ہونے دی جا رہی۔
ادھر دو روز قبل پیپلز پارٹی کی سینٹرل ایگزیکیٹو کمیٹی کے اجلاس میں بھی بے نظیر قتل کیس کی پیش رفت پر ارکان نے تحفظات کا اظہار کیا تھا، جس کے بعد پاکستان پیپلز پارٹی کے سیکریٹری جنرل جہانگیر بدر کا کہنا تھا کہ پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو خود اس معاملے کی نگرانی کر رہے ہیں اور پاکستان آنے پر اس حوالے سے مزید بات چیت ہو گی۔ مبصرین کا کہنا ہے کہ جنرل مشرف کا نام چالان میں پیش ہونے سے اس مقدمے کا پروفائل اونچا ہو گیا ہے کیونکہ اس سے قبل بعض حلقے یہ تاثر دے رہے تھے کہ بااثر افراد پر ہاتھ ڈالنے کے بجائے محض پولیس افسروں کو قربانی کا بکرا بنایا جا رہا ہے۔
رپورٹ: شکور رحیم ، اسلام آباد
ادارت: عدنان اسحاق