پاکستان کی مقتولہ سیاستدان اور سابقہ وزیر اعظم بے نظیر بھٹو کی 65 ویں سالگرہ جمعرات اکیس جون کو منائی گئی لیکن کئی مبصرین کے مطابق پیپلز پارٹی نے آئندہ الیکشن کے لیے اپنی بھرپور مہم کے آغاز کا ایک اچھا موقع ضائع کر دیا۔
تصویر: dapd
اشتہار
ستّر کی دہائی کے اواخر میں پاکستان کے پہلے منتخب وزیر اعظم ذوالفقار علی بھٹو کی حکومت کے خاتمے کے بعد بےنظیر بھٹو نے خود کو نہ صرف اپنے والد کی صحیح جانشین ثابت کر دیا تھا بلکہ انہوں نے اس دور کے فوجی آمر اور اس کے ساتھیوں کا بڑی ہمت سے مقابلہ بھی کیا تھا۔
بے نظیر بھٹو پہلی مرتبہ 1988 میں اور دوسری مرتبہ 1993 میں پاکستان کی وزیر اعظم منتخب ہوئی تھیں۔ وہ اسلامی دنیا کی پہلی خاتون وزیر اعظم بھی تھیں لیکن ذوالفقار علی بھٹو کے برعکس بے نظیر بھٹو کی قیادت میں دونوں وفاقی حکومتیں کرپشن کے الزامات کے تحت برطرف کی گئی تھیں۔ ان الزامات کے باوجود عالمی سطح پر بے نظیر بھٹو کے سیاسی قد کاٹھ میں کوئی فرق نہیں آیا تھا بلکہ انہوں نے اپنی سیاست سے پاکستان کے اب تک کے آخری فوجی حکمران پرویز مشرف کو اس بات پر مجبور بھی کر دیا تھا کہ وہ ملک میں ’کنٹرولڈ‘ کے بجائے حقیقی جمہوریت کی بحالی کے لیے اقدامات کریں۔
بےنظیر بھٹو کے شوہر اور پاکستان کے سابق صدر آصف علی زرداریتصویر: Getty Images
متعدد تجزیہ نگاروں کی رائے میں بے نظیر بھٹو ذوالفقار علی بھٹو کی صرف بیٹی نہیں بلکہ بہترین سیاسی شاگرد بھی تھیں۔ انہوں نے اپنے والد سے جو کچھ سیکھا تھا، عملی سیاست میں اس پر مکمل عمل بھی کیا مگر کرپشن کے الزامات نے پاکستان میں ان کی سیاسی ساکھ کو کافی نقصان بھی پہنچایا تھا۔
اس بارے میں سینئر صحافی کے آر فاروقی کہتے ہیں کہ اپنے شوہر آصف علی زرداری کو پاکستانی سیاست میں لانا بےنظیر بھٹو کی ایک ’بڑی سیاسی غلطی‘ تھی۔ فاروقی کے مطابق، ’’جس دن سے آصف زرداری کی وجہ سے ہی بے نظیر بھٹو کی حکومتوں پر کرپشن کے الزامات لگے، اسی دن سے بے نظیر کو بھی سیاسی نقصان پہنچا اور ان کی جماعت پاکستان پیپلز پارٹی کو بھی۔‘‘
کے آر فاروقی نے ڈی ڈبلیو کے بتایا کہ بے نظیر بھٹو کے قتل کے بعد آصف علی زرداری نے پارٹی کی کمان اور پھر ملکی صدر بن کر اقتدار سنبھالا، تو ان کے قابل اعتماد افراد میں پارٹی کے پرانے وفادار کارکنوں اور رہنماؤں کے بجائے قریبی رشتہ دار، دوست اور کاروباری شراکت دار کہیں زیادہ تھے۔
مگر تمام تر کوتاہیوں اور غلطیوں کے باوجود کراچی کے علاقے لیاری اور وہاں رہنے والے غریب اور مزدوری پیشہ افراد کی اکثریت آج بھی بے نظیر بھٹو اور پارٹی کے ’جیالوں‘ میں شمار ہوتی ہے اور اب ان کی توقعات بے نظیر بھٹو کے بیٹے بلاول زرداری سے جڑی ہوئی ہیں۔
پاکستان میں گزشتہ نو ماہ میں سیاسی نااہلیاں
28 جولائی 2017 کو پاکستان کے اُس وقت کے وزیر اعظم نواز شریف کو نااہل قرار دے دیا گیا تھا۔ گزشتہ نو ماہ میں چار سیاسی رہنماؤں کی نااہلیوں کے عدالتی فیصلوں کی تفصیلات اس پکچر گیلری میں۔
تصویر: Getty Images/AFP/A. Qureshi
نواز شریف
پاکستان کی سپریم کورٹ نے پاناما لیکس کیس میں فیصلہ سناتے ہوئے نواز شریف کو جولائی 2017 میں نا اہل قرار دے دیا تھا۔ اسی تناظر میں نواز شریف کو وزیر اعظم کا عہدہ چھوڑنا پڑا تھا۔ اس فیصلے نے پاکستان کے سیاسی حلقوں میں ہلچل مچادی تھی۔
تصویر: Reuters/F. Mahmood
جہانگیر ترین
مسلم لیگ ن کے رہنما حنیف عباسی نےعمران خان، درمیان میں، اور جہانگیر ترین، تصویر میں انتہائی دائیں جانب، کے خلاف پٹیشن دائر کی تھی، جس میں عدالت سے استدعا کی گئی تھی کہ ان دونوں کو اثاثے چھپانے، جھوٹ بولنے اور دوسرے ممالک سے فنڈز لینے کی وجہ سے نا اہل قرار دیا جائے۔ اس کیس کا فیصلہ دسمبر 2017 میں سنایا گیا تھا جس میں جہانگیر ترین کو تا حیات نا اہل قرار دے دیا گیا تھا۔
تصویر: picture alliance/ZUMA Press
نہال ہاشمی
اس سال فروری میں پاکستان کی اعلیٰ ترین عدالت نے حکمران جماعت پاکستان مسلم لیگ نون سے تعلق رکھنے والے سینیٹر نہال ہاشمی کو پانچ سال کے لیے نا اہل قرار دے دیا تھا۔ اس فیصلے میں سپریم کورٹ نے نہال ہاشمی کو عدلیہ کو دھمکانے کا مجرم قرار دیتے ہوئے انہیں ایک ماہ سزائے قید بھی سنائی تھی۔
تصویر: picture-alliance/Zuma/
نواز شریف پر تاحیات پابندی بھی
اس سال اپریل میں پاکستانی سپریم کورٹ نے نواز شریف کے سیاست میں حصہ لینے پر تاحیات پابندی بھی عائد کر دی تھی۔ یہ فیصلہ سپریم کورٹ کے ایک پانچ رکنی بینچ نے سنایا تھا۔ اس وقت 68 سالہ سابق وزیراعظم نواز شریف تین مرتبہ وزارت عظمیٰ کے منصب پر فائز رہ چکے ہیں۔
تصویر: picture-alliance/AP Photo/Pakistan Muslim League
خواجہ آصف
اسلام آباد ہائی کورٹ نے 26 اپریل کو پاکستان مسلم لیگ نون کے رکنِ قومی اسمبلی اور اب تک وزیر خارجہ چلے آ رہے خواجہ آصف کو پارلیمنٹ کی رکنیت کے لیے نا اہل قرار دے دیا۔ عدالت نے خواجہ آصف کو بھی پاکستانی دستور کے آرٹیکل 62(1)(f) کی روشنی میں پارلیمنٹ کی رکنیت سے محروم کر دیا۔ سپریم کورٹ کے مطابق اس آرٹیکل کے تحت نااہلی تاحیات ہوتی ہے۔
تصویر: picture-alliance/Anadolu Agency
5 تصاویر1 | 5
کئی مبصرین کے مطابق ذوالفقار علی بھٹو، بے نظیر بھٹو اور آصف علی زرداری نے لیاری کو کچھ نہیں دیا۔ کراچی کا یہ علاقہ آج بھی پینے کے صاف پانی، صحت، تعلیم اور روزگار کی بنیادی ضروریات اور سہولیات سے محروم ہے۔ اب تک ہزاروں نوجوانوں کی زندگیاں وہاں گینگ وار کی بھینٹ چڑھ چکی ہیں، منشیات فروشی عام ہے لیکن پھر بھی اگر کسی مقامی شہری سے پوچھا جائے کہ وہ ووٹ کس کو دے گا، تو جواب ہوتا ہے: ’ووٹ بے نظیر کا‘۔
تجزیہ کار امین حسین کہتے ہیں کہ لیاری کے ووٹر پیپلز پارٹی کے ہاتھوں بلیک میل ہوتے آئے ہیں اور نہ جانے کب تک ہوتے رہیں گے؟ لیکن پیپلز پارٹی لیاری کے عوام کے ہاتھوں کبھی بلیک میل نہیں ہوتی۔ بلاول زرداری لاڑکانہ اور بنوں کے علاوہ لیاری کی نشست سے بھی انتخاب لڑ رہے ہیں۔ مگر انہوں نے یہ اعلان بھی ابھی سے کر دیا ہے کہ وہ الیکشن جیت کر لیاری سے پارلیمانی نشست خالی کر دیں گے اور اس نشست پر پھر ان کی بہن آصفہ زرداری ضمنی الیکشن لڑیں گی۔ اس کے باوجود جمعرات اکیس جون کو لیاری میں بے نظیر بھٹو کی 65 ویں سالگرہ کے موقع پر جشن کا سا جو سماں دیکھا گیا، وہ اپنے طور پر جیسے یہ اشارہ دے رہا تھا کہ آئندہ انتخابات میں کامیابی پیپلز پارٹی ہی کو ملے گی۔ لیکن لیاری پاکستان میں تو ہے مگر وہ پورا پاکستان نہیں ہے۔
دہشت گردی سے سب سے زیادہ متاثرہ دس ممالک
سن 2017 کے ’گلوبل ٹیررازم انڈیکس‘ کے مطابق گزشتہ برس پاکستان میں دہشت گردانہ حملوں میں ہلاکتوں کی تعداد سن 2013 کے مقابلے میں 59 فیصد کم رہی۔ اس انڈیکس کے مطابق دنیا بھر میں سب سے زیادہ دہشت گردی کےشکار ممالک یہ رہے۔
تصویر: STR/AFP/Getty Images
عراق
عراق دہشت گردی کے شکار ممالک کی فہرست میں گزشتہ مسلسل تیرہ برس سے سر فہرست ہے۔ رواں برس کے گلوبل ٹیررازم انڈیکس کے مطابق گزشتہ برس عراق میں دہشت گردی کے قریب تین ہزار واقعات پیش آئے جن میں قریب 10 ہزار افراد ہلاک جب کہ 13 ہزار سے زائد زخمی ہوئے۔ دہشت گرد تنظیم داعش نے سب سے زیادہ دہشت گردانہ کارروائیاں کیں۔ عراق کا جی ٹی آئی اسکور دس رہا۔
تصویر: picture-alliance/AP
افغانستان
افغانستان اس فہرست میں دوسرے نمبر پر رہا جہاں قریب ساڑھے تیرہ سو دہشت گردانہ حملوں میں ساڑھے چار ہزار سے زائد انسان ہلاک جب کہ پانچ ہزار سے زائد زخمی ہوئے۔ افغانستان میں دہشت گردی کے باعث ہلاکتوں کی تعداد، اس سے گزشتہ برس کے مقابلے میں چودہ فیصد کم رہی۔ زیادہ تر حملے طالبان نے کیے جن میں پولیس، عام شہریوں اور حکومتی دفاتر کو نشانہ بنایا گیا۔ افغانستان کا جی ٹی آئی اسکور 9.44 رہا۔
تصویر: Getty Images/AFP/S. Marai
نائجیریا
دہشت گردی سے متاثرہ ممالک کی فہرست میں جی ٹی آئی اسکور 9.00 کے ساتھ نائجیریا تیسرے نمبر پر ہے۔ اس افریقی ملک میں 466 دہشت گردانہ حملوں میں اٹھارہ سو سے زائد افراد ہلاک اور ایک ہزار کے قریب زخمی ہوئے۔ سن 2014 میں ایسے حملوں میں ہلاکتوں کی تعداد ساڑھے سات ہزار سے زائد رہی تھی۔
تصویر: Reuters/Stringer
شام
جی ٹی آئی انڈیکس کے مطابق خانہ جنگی کا شکار ملک شام دہشت گردی سے متاثرہ ممالک کی فہرست میں چوتھے نمبر پر ہے۔ شام میں دہشت گردانہ کارروائیوں میں زیادہ تر داعش اور النصرہ کے شدت پسند ملوث تھے۔ شام میں سن 2016 میں دہشت گردی کے 366 واقعات رونما ہوئے جن میں اکیس سو انسان ہلاک جب کہ ڈھائی ہزار سے زائد زخمی ہوئے۔ جی ٹی آئی انڈیکس میں شام کا اسکور 8.6 رہا۔
تصویر: Getty Images/AFP
پاکستان
پاکستان اس فہرست میں پانچویں نمبر پر ہے جہاں گزشتہ برس 736 دہشت گردانہ واقعات میں ساڑھے نو سو افراد ہلاک اور سترہ سو سے زائد زخمی ہوئے۔ دہشت گردی کی زیادہ تر کارروائیاں تحریک طالبان پاکستان، داعش کی خراسان شاخ اور لشکر جھنگوی نے کیں۔ رپورٹ کے مطابق پاکستان میں دہشت گردی کے باعث ہلاکتوں کی تعداد سن 2013 کے مقابلے میں 59 فیصد کم رہی جس کی ایک اہم وجہ دہشت گردی کے خلاف ضرب عضب نامی فوجی آپریشن بنا۔
تصویر: Getty Images/AFP/A. Hassan
یمن
یمن میں متحارب گروہوں اور سعودی قیادت میں حوثیوں کے خلاف جاری جنگ کے علاوہ اس ملک کو دہشت گردانہ حملوں کا بھی سامنا ہے۔ مجموعی طور پر دہشت گردی کے 366 واقعات میں قریب ساڑھے چھ سو افراد ہلاک ہوئے۔ دہشت گردی کے ان واقعات میں حوثی شدت پسندوں کے علاوہ القاعدہ کی ایک شاخ کے دہشت گرد ملوث تھے۔
تصویر: Reuters/F. Salman
صومالیہ
دہشت گردی سے متاثرہ ممالک کی فہرست میں صومالیہ ساتویں نمبر پر رہا جہاں الشباب تنظیم سے تعلق رکھنے والے دہشت گردوں نے نوے فیصد سے زائد حملوں کی ذمہ داری قبول کی۔ الشباب کے شدت پسندوں نے سب سے زیادہ ہلاکت خیز حملوں میں عام شہریوں کو نشانہ بنایا۔ جی ٹی آئی انڈیکس میں شام کا اسکور 7.6 رہا۔
تصویر: picture alliance/dpa/AAS. Mohamed
بھارت
جنوبی ایشیائی ملک بھارت بھی اس فہرست میں آٹھویں نمبر پر ہے جہاں دہشت گردی کے نو سو سے زائد واقعات میں 340 افراد ہلاک جب کہ چھ سو سے زائد زخمی ہوئے۔ یہ تعداد سن 2015 کے مقابلے میں اٹھارہ فیصد زیادہ ہے۔ انڈیکس کے مطابق بھارت کے مشرقی حصے میں ہونے والی زیادہ تر دہشت گردانہ کارروائیاں ماؤ نواز باغیوں نے کیں۔ 2016ء میں لشکر طیبہ کے دہشت گردانہ حملوں میں پانچ بھارتی شہری ہلاک ہوئے۔
تصویر: Getty Images/AFP/N. Seelam
ترکی
دہشت گردی سے متاثرہ ممالک کی فہرست میں ترکی پہلی مرتبہ پہلے دس ممالک کی فہرست میں شامل کیا گیا۔ ترکی میں 364 دہشت گردانہ حملوں میں ساڑھے چھ سو سے زائد افراد ہلاک اور قریب تئیس سو زخمی ہوئے۔ دہشت گردی کے زیادہ تر حملوں کی ذمہ داری پی کے کے اور ٹی اے کے نامی کرد شدت پسند تنظیموں نے قبول کی جب کہ داعش بھی ترک سرزمین پر دہشت گردانہ حملے کیے۔
تصویر: Reuters/Y. Karahan
لیبیا
لیبیا میں معمر قذافی کے اقتدار کے خاتمے کے بعد یہ ملک تیزی سے دہشت گردی کی لپیٹ میں آیا۔ گلوبل ٹیررازم انڈیکس کے مطابق گزشتہ برس لیبیا میں 333 دہشت گردانہ حملوں میں پونے چار سو افراد ہلاک ہوئے۔ لیبیا میں بھی دہشت گردی کی زیادہ تر کارروائیاں دہشت گرد تنظیم ’اسلامک اسٹیٹ‘ سے منسلک مختلف گروہوں نے کیں۔ جی ٹی آئی انڈیکس میں لیبیا کا اسکور 7.2 رہا۔