بے نظیر قتل کیس: پاکستان میں کارروائیوں کا آغاز
21 اپریل 2010صدارتی ترجمان فرحت اللہ بابر نے خبررساں ادارے AFP کو بتایا کہ آٹھ اہلکاروں کو عہدوں سے ہٹا دیا گیا ہے جبکہ ایک سابق بریگیڈیئر کا سروس کانٹریکٹ بھی ختم کر دیا گیا ہے۔
انہوں نے بتایا کہ ان افراد کو بیرون ملک سفر سے روکنے کے لئے ان کے نام ایگزٹ کنٹرول لِسٹ میں شامل کر دیے گئے ہیں۔
فرحت اللہ بابر کا کہنا ہے کہ رپورٹ کے نتائج کے تناظر میں سابق فوجی حکمراں پرویز مشرف سے پوچھ گچھ کی کوشش کی جائے گی۔
پاکستان کے سرکاری خبررساں ادارے APPکے مطابق ان اہلکاروں میں اعلیٰ پولیس اہلکار عبدالمجید بھی شامل ہیں، جو بے نظیر کے قتل کی تفتیشی ٹیم کے سربراہ بھی رہے ہیں۔ ان میں راولپنڈی پولیس کے سابق سربراہ سعود عزیز اور ان کے تین سینئر ساتھی بھی شامل ہیں۔ انٹیلی جنس بیور کے سابق سربراہ بریگیڈیئر اعجاز شاہ کا نام بھی ایگزٹ کنٹرول لِسٹ میں شامل کر دیا گیا ہے۔
پاکستانی پنجاب میں ایک حکومتی اہلکار انجم زہرہ نے صوبے کے پانچ پولیس اہلکاروں کو عہدوں سے ہٹائے جانے کی تصدیق کی ہے۔
اقوام متحدہ کی جانب سے قائم کردہ تین رکنی کمیشن نے اپنی رپورٹ میں بتایا کہ خفیہ اداروں نے تفتیشی عمل کو بری طرح نقصان پہنچایا جبکہ اس وقت کی حکومت بے نظیر بھٹو کو مناسب سیکیورٹی فراہم کرنے میں ناکام رہی۔
اقوام متحدہ نے گزشتہ جمعرات کو رپورٹ جاری کی تھی، جس میں یہ بھی کہا گیا تھا کہ دسمبر 2007ء میں اسلام آباد میں گَن اور بم حملے میں بے نظیر بھٹو کی ہلاکت کو روکا جا سکتا تھا۔ یہ بھی کہا گیا کہ حکام قتل کی تفتیش میں دانستہ ناکام ہوئے۔
اوکسفورڈ گریجویٹ بے نظیر بھٹو دو مرتبہ پاکستان کی وزیر اعظم رہیں۔ وہ 2007ء کے اواخر میں انتخابات میں حصہ لینے کے لئے طویل جلاوطنی کے بعد وطن لوٹی تھیں، جب دارالحکومت اسلام آباد سے ملحقہ شہر راولپنڈی میں ایک عوامی جلسے کے بعد وہ ایک حملے میں ہلاک ہو گئیں۔
ان کی ہلاکت کے بعد پاکستان بھر میں پرتشدد کارروائیوں کا آغاز ہو گیا تھا جبکہ ان کی جماعت پاکستان پیپلز پارٹی پارلیمنٹیئرین کی قیادت ان کے شوہر آصف علی زرداری نے سنبھال لی تھی۔ فروری 2008ء کے انتخابات میں ان کی جماعت کامیاب رہی جبکہ آصف زرداری اب ملک کے صدر ہیں۔
رپورٹ: ندیم گِل
ادارت: عدنان اسحاق