1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

بے نظیر قتل کے حوالے سے راؤ انوار کے نئے انکشافات

27 دسمبر 2022

بے نظیر بھٹو کے خاندانی اور سیاسی لواحقین آج ان کی 15ویں برسی منا رہے ہیں۔ یہ سوال بہت شدومد سے سامنے آتا ہے کہ کیا پیپلز پارٹی میں بے نظیر کی سیاسی بصیرت اور ان کے قتل کی گتھی سلجھانے کی چاہ اب بھی موجود ہے؟

تصویر: picture alliance/dpa

بے نظیر بھٹو کو قتل ہوئے آج پندرہ برس بیت چکے ہیں۔ انہیں پاکستان کی ایک ذی شعور سیاسی رہنما کہا جاتا تھا۔ عالمی سطح پر ان کی سیاسی بصیرت اور جمہوری نظام کے لیے ان کی قربانیوں کے معترف افراد کی تعداد اب بھی بہت زیادہ ہے۔ بے نظیر کو اپنے سیاسی زندگی کے دوران اکثر یہ جملہ کہتے ہوئے سنا گیا کہ جمہوریت ہی بہترین انتقام ہے۔ کیا وجہ ہے کہ اتنی اہم رہنما کے قتل کی گتھی اب تک سلجھ نہیں سکی؟ حالانکہ ان کے قتل کے بعد سے ان کی اپنی جماعت دوسری مرتبہ مرکزی حکومت جبکہ صوبہ سندھ میں مسلسل بر سر اقتدار رہی ہے۔

راؤ محمد انوار کو بے نظیر بھٹو اور سابق صدر آصف زرداری کا نہایت بااعتماد ساتھی سمجھا جاتا ہےتصویر: picture-alliance/AP Photo/S. Adil

پیپلز پارٹی کو کوئی دلچسپی نہیں، راؤ انوار

سابق ایس ایس پی راؤ محمد انوار کو بے نظیر بھٹو اور سابق صدر آصف زرداری کا نہایت بااعتماد ساتھی سمجھا جاتا ہے۔ وہ بے نظیر بھٹو قتل کیس کی تفتیش کے لیے  بنائی گئی جوائنٹ انویسٹیگیشن ٹیم کے رکن بھی تھے۔ ان کے بقول پیپلز پارٹی کو قتل کا معمہ حل کرنے میں دلچسپی نہیں تھی، لہذا مسلسل پانچ سال تک وفاق میں پیپلز پارٹی کی حکومت بھی رہی اور آصف زرداری صدر مملکت بھی رہے لیکن یہ گتھی سلجھ نا سکی۔

راؤ انوار نے ڈوئچے ویلے سے گفتگو کرتے ہوئے بتایا، ''بے نظیر بھٹو کی سیکورٹی کے انچارج اور پھر وفاقی وزیر داخلہ بننے کے باوجود رحمان ملک نے ایک عرصے تک بے نظیر بھٹو کے موبائل فون کا فرانزک نہیں کرایا، پارٹی میں کوئی اس بات کو اہمیت ہی نہیں دیتا کہ اس معاملے کا کوئی نتیجہ نکلے۔‘‘

راؤ انوار کے بقول انہوں نے بے نظیر کے بلیک بیری ٹیلیفون حاصل کرنے کے لیے آصف زرداری تک سے رابط کیا تھا لیکن فون تفتیشی ٹیم کو نہ مل سکے، ''تفتیش ٹھیک انداز میں نہیں ہو رہی تھی کیونکہ نہ تفتیش کرنے والوں اور نہ ہی کروانے والوں کی کوئی دلچسپی دکھائی دے رہی تھی‘‘۔ راؤ انوار نے مزید کہا کہ اسی لیے انہوں نے جے آئی ٹی رپورٹ پر دستخط نہیں کیے تھے۔

اسٹیبلشمنٹ اس کے حق میں نہیں تھی، سینٹر تاج حیدر

پیپلز پارٹی کے سینیئر رہنماؤں میں راؤ انوار کے مؤقف کے برخلاف رائے پائی جاتی ہے اور یہ رہنما بلواسطہ یا بلاواسطہ اسٹیبلشمنٹ کو تفتیش کے بے نتیجہ ہونے کا ذمہ دار سمجھتے اور قرار دیتے ہیں۔پیپلز  پارٹی کے بانی ارکان میں سے ایک سینٹر تاج حیدر کہتےہیں کہ پاکستان کی بدقسمتی ہے کہ یہ سب کچھ اس لیے ہوا کہ یہاں بیک وقت دو سرکاریں پائی جاتی ہیں، ''ایک عوام کی اور دوسری اسٹیبلشمنٹ کی۔‘‘

پیپلز پارٹی بے نظیر بھٹو کے اصولوں سے بہت دور جا چکی ہے، ناہید خانتصویر: AP

ان کے بقول عوام نے اقتدار پیپلز پارٹی کو دیا اور عوام بے نظیر کے قاتلوں کو سزا پاتے دیکھنا چاہتے تھے لیکن اسٹیبلشمنٹ اس کے حق میں نہیں تھی۔

صوبائی وزیر سعید غنی نے ڈی ڈبلیو سے بات کرتے ہوئے کہا کہ بی بی کے قتل کے بعد پیدا ہونے والا خلا پر کرنا تو مشکل ہے لیکن پھر بھی پارٹی کی نئی قیادت نے بہت کچھ حاصل کیا ہے۔ سعید غنی مانتے ہیں کہ مزید بھی بہت کرنے کی گنجائش ہے لیکن پھر بھی ان کے بقول پارٹی نے اپنے اہداف بڑی حد تک حاصل کیے ہیں۔

عوامی جماعت کی مفاہمتی سیاست

غیر جانبدار مبصر اس بات کی طرف نشاندہی کرتے ہیں کہ اس وقت پارٹی کی قیادت عوامی سیاست سے بہت دور ہے۔ سینیئر صحافی اور تجزیہ کار مظہر عباس کا کہنا ہے کہ مفاہمت کی سیاست اپنانے سے پیپلز پارٹی کا عوام سے ناطہ ٹوٹ گیا ہے، ''روٹی، کپڑا اور مکان جس جماعت کا کبھی نعرہ تھا وہ اقتدار کے ایوانوں میں ہونے والی محلاتی سازشوں کے مقابلے سے ہٹ کر ان میں شراکت کا الزام کیسے جھیل رہی ہے؟‘‘

ناراض رہنماؤں کی بلاول سے امیدیں

بے نظیر بھٹو کی پرنسپل سیکریٹری اور پارٹی کی ناراض رہنما ناہید خان نے ڈوئچے ویلے سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ پیپلز پارٹی بے نظیر بھٹو کے اصولوں سے بہت دور جا چکی ہے۔ ان کی رائے میں بے نظیر بھٹو کے بعد پارٹی قیادت سنبھالنے والوں کے اہداف کچھ اور ہیں۔

ناہید خان پارٹی رہنماؤں سے ناراضگی کے باوجود جواں سال چیئرمین بلاول بھٹو زرداری کے حوالے سے پرامید ہیں، ''بلاول پیپلز پارٹی کو ایک بار پھر سے عوام میں مقبولیت دلا سکتے ہیں۔ ابھی پارٹی آصف علی زرداری کے ہاتھ میں ہے مگر مجھے یقین ہے کہ بلاول آگے چل کر پارٹی کو اپنی والدہ کے رہنما اصولوں پر لے آئیں گے۔"

اب تک کی تحقیقات سے یہ بات تو سامنے نہیں آسکی کہ سابق وزیر اعظم بے نظیر بھٹو کا قاتل کون ہے؟ یا ان کے قتل کے احکمات کس نے دیے ؟ ہو سکتا ہے کہ پاکستان پیپلز پارٹی کی موجودہ قیادت اپنی سابق چیئر پرسن کے قتل کا معمہ حل کرنے میں دلچسپی نہ رکھتی ہو لیکن عوامی سوچ اور احساسات اس کے بالکل برخلاف ہیں۔ عوام ہر قیمت پر سچ جاننا چاہتے ہیں۔

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ سیکشن پر جائیں

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ

ڈی ڈبلیو کی مزید رپورٹیں سیکشن پر جائیں