1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں
تنازعاتجرمنی

تائیوان کے اطراف میں چینی اقدامات سے کشیدگی میں اضافہ، جرمنی

13 اپریل 2023

جرمنی نے چین پر الزام لگایا کہ تائیوان کے اطراف میں اس کی حالیہ فوجی مشقوں سے کشیدگی میں اضافہ ہوا ہے اور اس سے غیر ارادی فوجی جھڑپوں کا خطرہ بڑھ گیا ہے۔ جرمن وزیر خارجہ کے دورہ بیجنگ سے عین قبل برلن نے یہ بیان جاری کیا۔

China Kampfjet-Pilot bei Militärübung vor Taiwan
تصویر: Mei Shaoquan/Xinhua/picture alliance

جرمن وزارت خارجہ نے بدھ کے روز کہا کہ چین نے جزیرہ تائیوان کے آس پاس اپنی فوجی مشقوں سے کشیدگی کو مزید ہوا دی ہے۔ برلن نے جرمنی کی وزیر خارجہ اینالینا بیئربوک کے دورہ بیجنگ شروع ہونے سے عین قبل یہ بیان جاری کیا۔ وہ آج ہی چین پہنچ رہی ہیں۔

تائیوان کے گرد سمندر میں چین کی جنگی مشقیں جاری

وزارت خارجہ نے کیا کہا؟

جرمن وزارت خارجہ کی ترجمان آندریا ساسے نے کہا کہ تائیوان کے قریب چین کی حالیہ فوجی مشقوں سے غیر ارادی یا حادثاتی جھڑپوں کا خطرہ بڑھ گیا ہے۔

یورپی یونین تائیوان پر آزاد خارجہ پالیسی پر عمل کرے، فرانسیسی صدر

ان کا مزید کہنا تھا: ''ہم آبنائے تائیوان کی صورتحال سے کافی فکر مند ہیں۔ ہم خطے کے تمام فریقوں سے استحکام اور امن کے لیے اپنا کردار ادا کرنے کی توقع رکھتے ہیں۔ یہی عوامی جمہوریہ چین پر بھی یکساں طور پر لاگو ہوتا ہے۔''

چین نے تائیوان کے اطراف میں جنگی جہاز تعینات کر دیے

ساسے نے کہا، ''ہمارا خیال یہ ہے کہ دھمکی آمیز عسکری اشاروں جیسے اقدامات... غیر ارادی فوجی جھڑپوں کے خطرے میں اضافہ کرتے ہیں۔'' انہوں نے مزید کہا کہ خطے میں کشیدگی کو کم کرنے کے لیے جرمنی اپنے بین الاقوامی شراکت داروں کے ساتھ مل کر کام کر رہا ہے۔

اہداف پر حملے اور ناکہ بندی

تائیوان کی صدر سائی انگ وین کے گزشتہ ہفتے کے دورہ امریکہ کے جواب میں چین نے تائیوان کے ارد گرد تین روزہ فوجی مشقیں شروع کی تھیں جو اس نے پیر کے روز ختم کر دیں۔ واشنگٹن میں سائی نے بعض قانون سازوں اور ایوان کے اسپیکر کیون میکارتھی سے ملاقات کی تھی۔

جرمن وزیر خارجہ انالینا بیئر بوک بدھ کی شام تین روز دورے کے لیے چین روانہ ہوئی تھیں، جہاں وہ یوکرین کی جنگ اور تائیوان کے آس پاس پنپنے والی کشیدگی پر چین کی وزارت خارجہ اور دفاع کے حکام کے ساتھ بات چیت کرنے والی ہیںتصویر: Irakli Gedenidze/REUTERS

فوجی مشقوں کے دوران چین کی پیپلز لبریشن آرمی نے اپنے اہداف پر حملوں کی مشق کرنے کے ساتھ ہی تائیوان کی ناکہ بندی بھی کی۔

چین اور تائیوان سن 1949 میں خانہ جنگی کے بعد الگ ہو گئے تھے اور بیجنگ اس جزیرے کو اپنے ہی علاقے کا ایک حصہ سمجھتا ہے۔ چین کے رہنماؤں نے بارہا اس جزیرے پر قبضہ کرنے اور اسے اپنے ملک کے ساتھ ضم کرنے کا عزم دہرایا ہے اور اس مقصد کے حصول میں طاقت کے استعمال کو بھی مسترد نہیں کیا ہے۔

بیئر بوک کے دورے کے مقاصد کیا ہیں؟

 جرمن وزیر خارجہ انالینا بیئر بوک بدھ کی شام تین روز دورے کے لیے چین روانہ ہوئی تھیں، جہاں وہ یوکرین کی جنگ اور تائیوان کے آس پاس پنپنے والی کشیدگی پر چین کی وزارت خارجہ اور دفاع کے حکام کے ساتھ بات چیت کرنے والی ہیں۔

ان کے اس دورے سے قبل فرانسیسی صدر ایمانوئل ماکروں اور یورپی یونین کی سربراہ ارزلا فان ڈیئر لائن نے بیجنگ کا دورہ کیا تھا۔ واضح رہے کہ فرانس کے صدر نے دورہ بیجنگ سے واپسی پر کہا تھا کہ تائیوان سے متعلق یورپی ممالک کے لیے امریکی پالیسیوں پر عمل کرنا ضروری نہیں ہے اور اس حوالے سے یورپ کو اپنی خود کی ایک آزادانہ خارجہ پالیسی پر عمل کرنا چاہیے۔

ماکروں کے اس بیان سے بعض مغربی اتحادی پریشان ہو گئے، جس میں انہوں نے کہا کہ تائیوان کے حوالے سے یورپ کو چین کی تشویش کو سمجھنے کی ضرورت ہے۔

بیئر بوک بیجنگ میں چینی وزیر خارجہ کن گینگ سے ملاقات کرنے کے ساتھ ہی جرمن کمپنیوں کے نمائندوں سے بھی ملیں گی۔

اس سے پہلے وزیر خارجہ نے اپنے ایک بیان میں چین کے ساتھ تجارت میں مزید احتیاط برتنے کی تاکید کی تھی اور خبردار کیا تھا کہ جرمنی کو روس پر حالیہ برسوں میں انحصار کی غلطی کو دہرانے سے گریز کرنا چاہیے۔

اس کے بعد بیئربوک جنوبی کوریا جائیں گی جہاں وہ غیر فوجی زون کا دورہ کرنے کے ساتھ ہی سیول میں سیاسی امور پر بات چیت کریں گی۔

 اس کے بعد اتوار کو وہ جاپان میں جی سیون کے وزرائے خارجہ کے اجلاس میں شامل ہوں گی۔

پہلے سے طے تھا کہ یوروپی یونین کی خارجہ پالیسی کے سربراہ جوسیپ بوریل بھی بیئربوک کے ساتھ دورہ چین پر جائیں گے، تاہم منگل کے روز وہ کووڈ انیس کے وائرس سے متاثر پائے گئے، اس لیے وہ اس دورے میں شامل نہیں ہو سکے۔

ص ز/ ج ا (ڈی پی اے، اے ایف پی)

چین کی تائیوان کے قریب فوجی مشقیں، تائیوانی ماہی گیر خوفزدہ

03:10

This browser does not support the video element.

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ سیکشن پر جائیں

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ

ڈی ڈبلیو کی مزید رپورٹیں سیکشن پر جائیں