1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں
سیاستتائیوان

تائیوان کے صدارتی اور پارلیمانی انتخابات میں ووٹنگ مکمل

13 جنوری 2024

مشرقی ایشیا کی جزیرہ ریاست تائیوان میں ہفتہ تیرہ جنوری کو ہونے والے صدارتی اور پارلیمانی انتخابات میں ووٹنگ کا عمل مکمل ہو گیا ہے۔ انتخابات سے پہلے کی سیاسی مہم پر چین اور تائیوان کے مابین شدید کشیدگی کے سائے چھائے رہے۔

دارالحکومت تائی پے میں ایک پولنگ اسٹیشن کے باہر قطار بنائے کھڑے ہوئے تائیوانی ووٹر
ان انتخابات کے حوالے سے چین کی کوشش رہی کہ وہ جنگی دھمکیوں اور اقتصادی دباؤ کے ساتھ الیکشن کے نتائج پر اثر اانداز ہو سکےتصویر: Chiang Ying-ying/AP/picture alliance

تائیوان کے دارالحکومت تائی پے سے ملنے والی رپورٹوں کے مطابق اس الیکشن میں ووٹ دینے کے اہل شہریوں کی تعداد تقریباﹰ 19.5 ملین تھی۔ ووٹنگ مقامی وقت کے مطابق صبح آٹھ بجے اور عالمی وقت کے مابین جمعے اور ہفتے کی درمیانی رات بارہ بجے شروع ہوئی، جو آٹھ گھنٹے جاری رہ کر مقامی وقت کے مطابق سہ پہر چار بجے مکمل ہو گئی۔

'تائیوان سے چین کا دوبارہ اتحاد ناگزیر ہے'، چینی صدر

تائیوان خود کو ایک آزاد ملک سمجھتا ہے جبکہ عالمی طاقتوں میں شمار ہونے والے ملک چین کے مطابق تائیوان اس کا ایک باغی صوبہ ہے۔ تائے پے اور چین کے مابین کشیدگی موجودہ عوامی جمہوریہ چین کے قیام کے وقت سے جاری ہے اور اسی تناظر میں آج ہونے والے صدارتی اور پارلیمانی انتخابات میں کامیابی جس بھی امیدوار اور پارٹی کو ملی، وہی یہ تعین کریں گے کہ مستقبل میں تائیوان کے چین کے ساتھ مستقل تنازعے میں کوئی بھی تبدیلی یا نئی پیش رفت کب، کیسے اور کس نوعیت کی ہو گی۔

ہفتہ تیرہ جنوری کے روز ان قومی انتخابات میں قریب ساڑھے انیس ملین تائیوانی ووٹروں کو اپنا حق رائے دہی استعمال کرنا تھاتصویر: Ann Wang/REUTERS

تائیوان کی کون سی جماعت چین کی نظر میں علیحدگی پسند

تائیوان میں ڈیموکریٹک پروگریسو پارٹی (ڈی پی پی) تائیوان کی مکمل آزادی اور خود مختاری کی حامی ہے۔ کمیونسٹ نظام حکومت والے چین کی قومی قیادت تاہم اس جماعت کو علیحدگی پسند قرار دیتی ہے۔ یہ جماعت اگرچہ ایسا کوئی ارادہ نہیں رکھتی کہ تائیوان کو جلد ہی باقاعدہ طور پر اپنی آزادی اور ریاستی خود مختاری کا اعلان کر دینا چاہیے۔

سمندری طوفان ہائیکوئی تائیوان کی ساحلی پٹی سے ٹکرا گیا

تائیوان کی موجودہ خاتون صدر سائی اِنگ وین نے آج ووٹنگ شروع ہونے کے کچھ ہی دیر بعد تائی پے میں ایک پولنگ اسٹیشن پر اپنا ووٹ ڈالا۔ اس موقع پر انہوں نے کہا، ''کسی بھی جمہوری ملک کے شہری اپنے ہاتھوں میں اپنے بیلٹ پکڑے ہوئے اپنے ملک کے مستقبل کا فیصلہ کر سکتے ہیں۔‘‘

ساتھ ہی خاتون صدر نے اپنے ہم وطن شہریوں سے یہ بھی کہا، ''میں تمام ووٹروں سے اپیل کرتی ہوں کہ وہ آئیں اور جلد از جلد اپنا ووٹ ڈالیں، ہر کسی کو یہ یاد رکھنا چاہیے کہ ایسا کرنا عوام کا حق بھی ہے اور فرض بھی۔‘‘

تائیوان کیا چین سے مسلح تنازعہ کا متحمل ہو سکتا ہے؟

02:45

This browser does not support the video element.

سائی اِنگ وین خود امیدوار نہیں ہیں

تائیوان کی ڈیموکریٹک پروگریسو پارٹی سے تعلق رکھنے والی خاتون صدر سائی اِنگ وین اس مرتبہ صدارتی عہدے کے لیے خود امیدوار نہیں ہیں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ وہ اس وقت اپنے صدارتی منصب کی دوسری مدت کے لیے فرائض انجام دے رہی ہیں اور قانون کے مطابق تیسری مرتبہ اس عہدے پر فائز نہیں ہو سکتیں۔

چینی صدر شی جن پنگ 'ڈکٹیٹر' ہیں، جو بائیڈن

ان کی جگہ صدارتی عہدے کے لیے ڈی پی پی کے امیدوار ولیم لائی ہیں، جن کا زیادہ تر مقابلہ دو بڑے حریف صدارتی امیدواروں سے ہیں۔ یہ امیدوار قدامت پسند کومنتانگ پارٹی اور تائیوان پیپلز پارٹی کے سیاست دان ہیں، جو چین کے ساتھ زیادہ قریبی کاروباری، سیاحتی اور ثقافتی روابط کی بحالی کے حق میں ہیں، مگر اس شرط پر کہ تائیوان میں جمہوریت محفوظ رہے۔

تائیوان پیپلز پارٹی کے صدارتی امیدوار کو وین جے نے بھی اپنا ووٹ تائی پے کے ایک پولنگ اسٹیشن پر ڈالا۔ انہوں نے اس موقع پر کہا، ''پہلے وہ کام کیجیے جو آپ کو آج کرنا ہے، اس کے بعد آئندہ کے کسی دوسرے مرحلے کے لیے منصوبہ بندی کیجیے۔‘‘

تائیوان کے گرد سمندر میں چین کی جنگی مشقیں جاری

تائی پے اور بیجنگ کے رابطے کب منقطع ہوئے

چین اور تائیوان کے مابین ماضی میں برسوں تک رابطے رہے ہیں لیکن موجودہ صدر سائی اِنگ وین کے پہلی مدت کے لیے انتخاب کے بعد 2016ء میں بیجنگ نے تائی پے کے ساتھ اپنے تمام رابطے منقطع کر دیے تھے جو ابھی تک بحال نہیں ہوئے۔

تائیوان نے گزشتہ کئی عشروں سے اپنی ریاستی خود مختاری کا کوئی باضابطہ اعلان تو نہیں کیا، تاہم وہاں جمہوری طور پر منتخب اور خود مختار حکومتیں گزشتہ کئی دہائیوں سے کام کرتی آئی ہیں۔

چین کی دھمکیوں کے درمیان تائیوان کی صدر کا دورہ امریکہ

تائیوان میں اب تک صدارتی منصب پر فائز سائی اِنگ وین کی جماعت ڈی پی پی کو ہی گزشتہ پارلیمان میں قطعی اکثریت حاصل تھی۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ ملکی عوام نے نئے صدر اور نئی پارلیمان کے نومنتخب اراکین کے طور پر کس کی حمایت کی ہے۔

ابتدائی غیر سرکاری انتخابی نتائج آج ہفتے کو رات گئے ہی ملنا شروع ہو جائیں گے۔

م م / م ا (ڈی پی اے، اے پی، اے ایف پی)

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ سیکشن پر جائیں

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ

ڈی ڈبلیو کی مزید رپورٹیں سیکشن پر جائیں