1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں
تنازعاتچین

تائیوان پر امریکہ اور چین کے درمیان پھر تلخ کلامی

29 جولائی 2022

امریکہ اور چین کے صدور نے دو گھنٹے سے زائد جاری رہنے والی ویڈیو کال کے دوران تائیوان کے مسئلے پر ایک دوسرے کو متنبہ کیا۔ چینی صدر نے اپنے امریکی ہم منصب سے کہا کہ جو، 'آگ سے کھیلتا ہے وہ راکھ ہو جاتا ہے۔'

Bildkombo Biden Xi Jinping
تصویر: Rod Lamkey/CNP/picture alliance--Shen Hong/picture alliance/Xinhua

چینی اور امریکی صدر کے درمیان ویڈیو کال کے ذریعے بات چیت امریکی کانگریس کی اسپیکر نینسی پیلوسی کے مجوزہ دورہ تائیوان پر پائے جانے والے خدشات کے پس منظر میں ہوئی، جو سوا دو گھنٹے سے بھی زیادہ دیر تک جاری رہی۔ 

دونوں رہنماؤں کے درمیان کئی معاشی و متنازعہ امور پر بھی تبادلہ خیال ہوا، تاہم اس کا مرکزی موضوع تائیوان کاتنازعہ تھا۔ چینی صدر شی جن پنگ نے بات چیت کے دوران اپنے امریکی ہم منصب جو بائیڈن سے کہا کہ چین تائیوان کی آزادی کے ساتھ ہی، کسی بھی بیرونی مداخلت کا بھی سخت مخالف ہے۔

'جو آگ سے کھیلتا ہے، راکھ ہو جاتا ہے'

امریکی صدر جو بائیڈن کے ساتھ وزیر خارجہ انٹونی بلنکن اور دیگر اعلیٰ امریکی حکام بھی اس فون کال میں شامل تھے اور وائٹ ہاؤس کے مطابق یہ بات چیت دو گھنٹے 17 منٹ تک جاری رہی۔ بعد میں ایک امریکی اہلکار نے بتایا کہ تائیوان کے بارے میں دونوں رہنماؤں کے درمیان ہونے والی گفتگو ''براہ راست اور ایماندارانہ تھی۔''

چین کے سرکاری میڈیا نے اس حوالے سے اپنے ایک بیان میں کہا کہ صدر شی جن پنگ نے جو بائیڈن کو تائیوان کے مسئلے پر ''آگ سے کھیلنے'' کے خلاف خبردار کیا اور انہیں بتا دیا ہے کہ امریکہ کو ''متحدہ چین کے اصول'' پر عمل کرنا چاہیے۔ ''چین تائیوان کی آزادی کے ساتھ ہی اس میں کسی بھی بیرونی طاقت کی مداخلت کا بھی سخت مخالف ہے۔''

چین کے سرکاری میڈیا نے بتایا کہ صدر شی جن پنگ نے اپنے امریکی ہم منصب جو بائیڈن کو متنبہ کر دیا ہے کہ ''جو لوگ آگ سے کھیلتے ہیں وہ جل کر رہ جائیں گے۔ (ہمیں) امید ہے کہ امریکی فریق اس بات کو واضح طور پر دیکھ سکے گا۔''

تصویر: Liu Bin/Xinhua/dpa/picture alliance

امریکہ نے کیا کہا؟ 

بات چیت کے بعد وائٹ ہاؤس کی جانب سے ایک بیان میں کہا گیا ہے کہ صدر بائیڈن تائیوان کے بارے میں امریکہ کی دیرینہ پالیسی کے پابند ہیں اور وہ ایسی کسی بھی کوشش کے سخت مخالف ہیں، جس سے ریاست تائیوان اور چین کے درمیان امن و استحکام کو نقصان پہنچنے کا خطرہ ہو۔

وائٹ ہاؤس کے بیان کے مطابق انہوں نے چین سے کہا ہے کہ تائیوان کے حوالے سے امریکی پالیسی میں کوئی تبدیلی نہیں آئی ہے اور دونوں صدور نے ''دو طرفہ تعلقات کے امور کے ساتھ ہی کئی دیگر اہم علاقائی اور عالمی مسائل پر بھی بات چیت کی۔''

اس بات چیت کے بعد تائیوان کی وزارت خارجہ نے جمعہ کی علی الصبح اپنے ایک بیان میں امریکہ کی حمایت کے لیے بائیڈن کا شکریہ ادا کیا اور کہا کہ وہ امریکہ کے ساتھ سیکورٹی سے متعلق اپنی شراکت داری کو مزید مضبوط کرتا رہے گا۔

امریکی اور چینی رہنماؤں کے درمیان یہ بات چیت ایسے وقت ہوئی جب دونوں ملکوں کے درمیان عالمی مسابقت، انسانی حقوق، عالمی صحت اور اقتصادی پالیسیوں کے حوالے سے اختلافات کے ساتھ ہی کشیدگی بھی پائی جاتی ہے۔ اس ماحول میں چین اور امریکہ ایک ساتھ کام کرنے کے نئے طریقے تلاش کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔

تصویر: Susan Walsh/AP/picture alliance

تائیوان بھی اہم مسئلہ کیوں ہے؟

چین اور تائیوان کا تنازعہ دہائیوں پرانا ہے اور چین کا کہنا ہے کہ چاہے طاقت کا ہی استعمال کیوں نہ کرنا پڑے، بیجنگ اسے اپنے ملک کے ساتھ ایک دن مکمل طور پر ضم کر کے رہے گا۔ یوکرین پر روس کے حالیہ حملے کی روشنی میں چین کی جانب سے ایسے خطرات اور خدشات بڑھتے جا رہے ہیں۔

حال ہی میں جب یہ خبر آئی کہ امریکی کانگریس کی اسپیکر نینسی پیلوسی تائیوان کا دورہ کرنے والی ہیں تو چین نے اس پر اپنے سخت رد عمل میں کہا

 کہ اگر انہوں نے جزیرے کا دورہ کیا تو اس کے سنگین نتائج بر آمد ہوں گے۔

نینسی پیلوسی ایک طویل عرصے سے چین کی ایک سخت ناقد کے طور پر جانی جاتی ہیں اور انہوں نے ملک میں انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کی مذمت بھی کی ہے۔

واشنگٹن ''ایک متحدہ چین'' کی پالیسی پر عمل پیرا ہے اور سفارتی طور پر تائی پے کے بجائے بیجنگ کو ہی تسلیم کرتا ہے، یعنی تائیوان کے امریکہ کے ساتھ کوئی سرکاری تعلقات نہیں ہیں۔ کیونکہ چین کا مطالبہ رہا ہے کہ دنیا کے ممالک بیجنگ یا تائی پے میں کسی ایک کے ساتھ ہی رسمی تعلقات رکھنے کا انتخاب کریں۔

تاہم، امریکہ تائیوان کو سیاسی اور فوجی سطح پر کافی مدد بھی فراہم کرتا ہے، جو ایک طرح سے اس کے ساتھ سفارتی تعلقات قائم کرنے کے ہی مترادف بھی ہے۔

چین کی وزارت خارجہ کے ترجمان ژاؤ لیجیان نے اس ہفتے کے اوائل میں نامہ نگاروں سے بات چیت میں کہا تھا کہ ''اگر امریکہ اپنے اس راستے پر گامزن رہتے ہوئے چین کی نچلی لائن کو چیلنج کرنے پر اصرار کرتا ہے، تو اسے یقیناً سخت رد عمل کا سامنا کرنا پڑے گا۔ اس سے پیدا ہونے والے تمام نتائج بھی امریکہ کو برداشت کرنا ہوں گے۔''

رواں برس جب امریکی کانگریس کے ایک وفد نے تائیوان کا دورہ کیا تھا تو اس وقت چینی وزیر دفاع نے بھی اپنے سخت رد عمل میں یہی کہا تھا کہ جو آگ سے کھیلتا ہے وہ جل جاتا ہے۔ تاہم فرق اتنا ہے کہ اس بار یہ بات خود چینی صدر نے جو بائیڈن سے براہ راست کہی ہے۔

ص ز/ ج ا (ڈی پی اے، اے ایف پی، روئٹرز، اے ایف پی)

چین اور لیتھوینیا کا تجارتی تنازعہ

03:01

This browser does not support the video element.

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ سیکشن پر جائیں

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ

ڈی ڈبلیو کی مزید رپورٹیں سیکشن پر جائیں