1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

تاج برطانیہ کی حقداری، نئے مجوزہ قوانین کی وجہ سے بے چینی

14 جنوری 2013

برطانیہ میں شہزادہ ولیم اور ان کی بیوی شہزادی کیتھرین کے ہاں پہلی اولاد کی پیدائش اس سال موسم گرما میں متوقع ہے لیکن تاج برطانیہ کی وراثتی حقداری سے متعلق مجوزہ قوانین ابھی سے بے چینی کا باعث بن رہے ہیں۔

تصویر: picture-alliance/dpa

برطانیہ میں جو نئے قوانین منظور کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے، ان کے مطابق شاہی خاندان میں ولی عہد کے بچوں کے بادشاہ یا ملکہ بننے سے متعلق صورت حال قطعی طور پر تبدیل ہو جائے گی۔ یہ موضوع ملکی انتظامیہ میں ان دنوں شدت سےزیر بحث ہے۔

اس سلسلے میں پہلی وارننگ موجودہ ملکہ الزبتھ کے بیٹے اور ولی عہد شہزادہ چارلس نے دی تھی، جس میں فوری طور پر سرکردہ سیاستدان اور اعلیٰ ملکی شخصیات بھی شامل ہو گئی تھیں۔ ان تنبیہات میں کہا گیا تھا کہ جو نئے قوانین منظور کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے، ان کے برطانیہ میں بادشاہت اور چرچ آف انگلینڈ پر بہت گہرے اثرات مرتب ہوں گے۔

برطانیہ میں شہزادہ ولیم اور ان کی بیوی شہزادی کیتھرینتصویر: Getty Images

برطانوی حکومت میں شامل کئی وزراء اس بارے میں ایک نیا قانون منظور کروانے کی پوری کوشش کر رہے ہیں کہ کسی بھی برطانوی بادشاہ یا ملکہ کے بچوں میں سے تاج برطانیہ کی حقداری کے سلسلے میں سب سے بڑے بیٹے کو ترجیح دینے کی روایت ختم کی جائے۔ اس کا مستقبل میں ایک نتیجہ یہ بھی نکل سکتا ہے کہ اگر شہزادہ ولیم اور شہزادی کیتھرین کے ہاں چند ماہ بعد پیدا ہونے والی پہلی اولاد بیٹی ہوئی، تو پھر چاہے بعد میں اس کا کوئی چھوٹا بھائی بھی پیدا ہو، تخت پر بیٹھنے کا حق اسی سب سے بڑی اولاد کو حاصل ہو گا۔ دوسرے لفظوں میں سب سے بڑی اولاد بیٹی ہونے کے باوجود تاج برطانیہ کی حقدار ہو گی۔

تاج برطانیہ کی وراثتی حقداری کے موجودہ قوانین میں اس مجوزہ تبدیلی کو برطانوی عوام کی وسیع تر حمایت حاصل ہے۔ اس قانونی تبدیلی پر برطانوی دولت مشترکہ کے رکن ملکوں کے رہنماؤں نے بھی اتفاق کر لیا تھا۔ یہ اتفاق رائے اکتوبر 2011 میں ہوا تھا جبکہ شہزادہ ولیم کی بیوی شہزادی کیتھرین کے حاملہ ہونے کی تصدیق گزشتہ سال دسمبر میں ہوئی تھی۔

ڈیوڈ کیمرون کے بقول بکنگھم پیلس کے ساتھ اتفاق رائے سے ساری بات طے ہو چکی ہےتصویر: Reuters

کہا جا رہا ہے کہ برطانوی شاہی خاندان میں تخت کے وارث کے تعین سے متعلق قوانین میں اس آئندہ تبدیلی کے ساتھ برطانوی بادشاہت خود کو اکیسویں صدی کے تقاضوں سے ہم آہنگ بنا رہی ہے۔ اس حوالے سے برطانوی شاہی محل کی طرف سے گزشتہ بدھ کے روز کیا جانے والا یہ اعلان بھی بہت اہم ہے کہ شہزادہ ولیم اور شہزادی کیتھرین کے ہاں جتنے بھی بچے پیدا ہوں گے، وہ سب کے سب شہزادے اور شہزادیاں کہلائیں گے، نہ کہ صرف پہلے پیدا ہونے والا بیٹا اکیلا ہی شہزادہ کہلائے۔

اب یہ نیا قانون برطانوی پارلیمان میں پہنچ چکا ہے۔ اس پر بحث اور رائے شماری ہاؤس آف کامنز میں بائیس جنوری کے لیے طے ہے۔ لیکن برطانوی ریاستی مشینری میں اس مجوزہ قانون پر تنقید بھی کی جا رہی ہے اور تحفظات کا اظہار بھی کیا جا رہا ہے۔

اس نئے قانون کے تحت تاج برطانیہ کی وارث شخصیات پر کسی رومن کیتھولک مسیحی باشندے سے شادی کرنے پر عائد پابندی بھی ختم کر دی جائے گی۔ یہ پابندی برطانیہ میں کسی بھی ولی عہد پر اب تک لاگو ہونے والی وہ شرط ہے، جو اس وقت رکھی گئی تھی جب مسیحی عقیدہ کیتھولک اور پروٹسٹنٹ فرقوں میں تقسیم ہوا تھا۔ اس وقت برطانوی تاج کی وارث کسی شخصیت کے لیے کسی مسلمان، ہندو یا کسی دوسرے مذاہب کے پیرو کار سے شادی کرنا منع نہیں ہے۔

برطانوی ملکہ الزبتھ وزیر اعظم ڈیوڈ کیمرون کے ہمراہ، فائل فوٹوتصویر: Reuters

اس وجہ سے برطانیہ کے اس کے ان اتحادی ملکوں کے ساتھ کچھ مسائل پیدا ہو سکتے ہیں جہاں شاہی نظام رائج ہے لیکن جہاں کسی کیتھولک مسیحی کے بادشاہ یا ملکہ بننے پر پابندی ہے۔ اس پابندی کا مقصد برطانوی شاہی حکمران کی چرچ آف انگلینڈ کے سربراہ کے طور پر حیثیت کا تحفظ ہے، جو کہ عوام اور مذہبی پیروکاروں کی نظر میں ‘عقیدے کا محافظ‘ کہلاتا ہے۔

موجودہ برطانوی ولی عہد اور شہزادہ ولیم کے والد پرنس چارلس کے  ایک دوست کے حالیہ بیانات کے مطابق پرنس چارلس کو خدشہ ہے کہ حکومت نے اس مجوزہ قانون کی دستاویز تیار کرتے ہوئے اس کے غیر ارادی نتائج پر غور نہیں کیا۔ مثال کے طور پر اس طرح ریاست اور چرچ کے بہت نازک باہمی تعلقات کو نقصان پہنچ سکتا ہے۔ اس کے علاوہ یہ بات بھی اہم ہے کہ اس کے برطانوی اشرافیہ اور امراء پر کیا اثرات مرتب ہوں گے۔

برطانوی وزیر اعظم ڈیوڈ کیمرون نے گزشتہ بدھ کے روز لندن میں ارکان پارلیمان کو بتایا تھا کہ اس بارے میں کوئی ابہام موجود نہیں اور بکنگھم  پیلس کے ساتھ اتفاق رائے سے ساری بات طے ہو چکی ہے۔

(ij /ai  (AFP

ڈی ڈبلیو کی ٹاپ اسٹوری سیکشن پر جائیں

ڈی ڈبلیو کی ٹاپ اسٹوری

ڈی ڈبلیو کی مزید رپورٹیں سیکشن پر جائیں