مراکش کی فٹ بال ٹيم ورلڈ کپ کے سيمی فائنل کے ليے کواليفائی کرنے والی پہلی افريقی ٹیم بن گئی ہے۔ بيشتر مسلم ممالک ميں مراکش کی کاميابيوں کو سراہا جا رہا ہے اور اسے عرب مسلم ممالک کی کاميابی مانا جا رہا ہے۔
اشتہار
مراکش کی فٹ بال ٹيم عالمی کپ کے سيمی فائنل ميں پہنچنے والی بر اعظم افريقہ کی پہلی ٹيم تو ہے ہی مگر ساتھ ہی يہ ٹيم يورپ اور جنوبی امريکا کے باہر سے سيمی فائنل ميں پہنچنے والی تاريخ کی تيسری ٹيم بھی ہے۔ اس سے قبل سن 1930 ميں منعقدہ پہلے فٹ بال ورلڈ کپ ٹورنامنٹ ميں امريکا نے سيمی فائنل مقابلوں کے ليے کواليفائی کيا تھا جب کہ جنوبی کوريا کو سن 2002 ميں ايسا کرنے کا اعزاز حاصل ہوا تھا۔
اس بار بھی سيمی فائنل کے ليے کواليفائی کرنے والی چار ميں تين ٹيموں کا تعلق جنوبی امريکا اور يورپ سے ہے۔ فرانس اور کروشيا يورپ سے ہيں جبکہ ارجنٹائن جنوبی امريکا سے۔ ان کے علاوہ مراکش افريقہ سے کواليفائی کرنے والی اولين ٹيم بن گئی ہے۔
در اصل ٹورنامنٹ ميں آگے تک پہنچنے کا تعلق رقوم اور روايات سے جڑا ہوا ہے۔ داخلی سطح پر عمدہ فٹ بال سہوليات بہتر ٹيموں کی ضامن ہوتی ہيں۔ تاہم فٹ بال کا کھيل عالمی سطح پر مقبول ہوتا جا رہا ہے اور اب ايشيا، افريقہ اور شمالی امريکا ميں بھی نہ صرف ورلڈ کپ ديکھا جاتا ہے بلکہ مداح ديوانگی کی حد تک اپنی اپنی ٹيموں کی جيت کے ليے کوشاں دکھائی ديتے ہيں۔ ايسے ہی مداح اميد لگائے بيٹھے رہتے ہيں کہ دنيا کے ديگر حصوں سے بھی ٹيميں آگے آئيں، جس سے اس کھيل کو فائدہ پہنچے گا۔
يہ ورلڈ کپ ايک مسلم عرب ملک قطر ميں منعقد ہو رہا ہے۔ مراکش کو نہ صرف اپنے مداحوں کی بلکہ کئی عرب رياستوں سے حمايت مل رہی ہے۔ کوچ وليد رگروگی نے کہا، ''آپ کے پاس چاہے ٹيلنٹ کم ہو، کوالٹی محدود ہو اور رقوم کی بھی کمی ہو، مگر اگر آپ کے پاس اميد، محنت اور لگن ہے، مقابلہ کرنے کی صلاحيت اور سرخرو ہونے کا ايمان ہے ۔۔۔ تو آپ کچھ بھی کر سکتے ہيں۔‘‘
دوحہ قطر کا دارالحکومت ہے، جو اس سال فٹ بال ورلڈ کپ کی میزبانی کر رہا ہے۔ صحرا کی سیر سے لے کر شاندار فن تعمیر تک، اس شہر میں دیکھنے کے لیے بہت کچھ ہے۔
تصویر: nordphoto GmbH/PIXSELL/picture alliance
قطر کا ثقافتی مرکز، دوحہ
قطر ایک چھوٹی سی خلیجی ریاست ہے، جس کا رقبہ تقریباً 11,500 مربع کلومیٹر (4,468 مربع میل) ہے۔ اس کے مقابلے میں آئرلینڈ سات گنا بڑا ہے۔ صدیوں پرانی روایات اور ہائپر ماڈرن فن تعمیر کے اثرات اس وسطی مشرقی امارات میں ملتے ہیں، خاص طور پر اس کے دارالحکومت دوحہ میں۔ قطر کی آبادی کی اکثریت ملک کے مالیاتی، ثقافتی اور سیاحتی مرکز میں رہتی ہے۔
تصویر: nordphoto GmbH/PIXSELL/picture alliance
ڈاون ٹاؤن دوحہ، ویسٹ بے کی سیر
دوحہ ایک جدید ترین شہر ہے، جو اپنی دولت کی خوب نمائش کرتا ہے۔ تیل اور گیس کے بے پناہ ذخائر قطر کے باشندوں کو دنیا میں سب سے زیادہ فی کس آمدنی 98 ہزار یورو فراہم کرتے ہیں۔ 2.8 ملین آبادی میں سے صرف دس فیصد قطری شہری ہیں۔ ویسٹ بے ڈسٹرکٹ میں فلک بوس عمارتیں تخلیقی فن تعمیر کا منظر پیش کرتی ہیں۔
تصویر: Kamran Jebreili/AP/dpa/picture alliance
ماضی کی سیر، کتارا کلچرل ویلیج
تاریخی دستاویزات سے پتہ چلتا ہے کہ قطر کو اصل میں 'کتارا' کہا جاتا تھا۔ مشرق وسطیٰ اور ایشیا کے درمیان اپنے جغرافیائی مقام کی وجہ سے یہ ملک خود کو ثقافتوں کے امتزاج کے طور پر دیکھتا ہے۔ سن 2010 میں کھولا گیا "کتارا کلچرل ویلیج" اپنے عجائب گھروں، گیلریوں اور تقریبات کے ساتھ یہی پیغام دینا چاہتا ہے۔ شہر کے مرکز سے صرف 10 منٹ کی ڈرائیو پر یہاں پہنچا جاسکتا ہے۔
تصویر: Marina Lystseva/TASS/dpa/picture alliance
مذہب، جب اذان کی آواز گونجتی ہے
قطر ایک اسلامی ریاست ہے اور یہاں بسنے والے زیادہ تر افراد سنی مسلمان ہیں۔ دن میں پانچ مرتبہ اذان کی پکار لوگوں کو خوبصورت مساجد کی جانب متوجہ کرتی ہے۔ دوحہ میں واقع قطر کی قومی امام عبدالوہاب مسجد میں تیس ہزار افراد جمع ہو سکتے ہیں۔ غیر مسلم افراد نماز کے اوقات کے علاوہ مساجد کی سیر کر سکتے ہیں۔
تصویر: Nikku/Xinhua/dpa/picture alliance
شاپنگ مالز، ایک الگ دنیا
قطر میں شاپنگ مالز بہت بڑے پیمانے پر تعمیر کیے گئے ہیں اور ہر ایک مال کی اپنی ایک دنیا ہے۔ وہ نہ صرف خریداری کے لیے بنائے گئے ہیں — کچھ میں تھیم پارکس، سینما گھر اور ریستوراں بھی موجود ہیں۔ ایک مال میں آپ 'سنو مین' بنا سکتے ہیں جبکہ دوسرے میں آپ گونڈولیئر کے ساتھ کشتی میں سفر کر سکتے ہیں اور ایسا لگے گا کہ آپ وینس میں ہیں۔ یہ مالز 50 ڈگری درجہ حرارت میں گرمی سے بچنے کے لیے بہترین جگہیں ہیں۔
دوحہ میں واقع 'سوق واقف' قطر کی سب سے قدیم مرکزی مارکیٹ کی عکاسی کرتی ہے۔ اس کی اصل عمارت سن 2003 میں آگ لگنے سے تباہ ہو گئی تھی۔ اس کے باوجود تاجر یہاں ایک صدی سے زائد عرصے سے کپڑے، دستکاری، مصالحہ جات اور دیگر سامان فروخت کر رہے ہیں۔ یہ سووینئرز جمع کرنے یا شام کو ٹہلنے کے لیے بہترین جگہ ہے۔
تصویر: Igor Kralj/PIXSELL/picture alliance
نیشنل میوزیم، ریت اور سمندر کی شبیہ
قطر کے قومی عجائب گھر کا فوارہ، جس کی شکل موتیوں کی لڑی کی طرح ہے۔ پرل ڈائیونگ ملک کی تاریخی روایات میں سے ایک ہے۔ قطر کئی سالوں سے موتیوں کی تجارت کا مرکز تھا۔ یہ عمارت خود صحرائی گلاب کی شکل میں بنائی گئی ہے اور یہ معروف فرانسیسی معمار ژان نوویل نے تعمیر کی ہے۔ یہ قطر کے ثقافتی ورثے کے بارے میں جاننے کے لیے بہترین جگہ ہے۔
تصویر: Sharil Babu/dpa/picture alliance
فن تعمیر، فیکلٹی آف اسلامک اسٹڈیز
زہا حدید، سر نورمین فوسٹر اور ریم کولہاس جیسی معروف فن تعمیر کی کمپنیاں قطر میں اپنی سنسنی خیز عمارتوں کے ساتھ تیزی سے آگے بڑھ رہی ہیں۔ یہ اسکول آف اسلامک اسٹڈیز کی خوبصورت عمارت کو لندن اور بارسلونا میں قائم مینگیرا یوار آرکیٹیکٹس نے ڈیزائن کیا ہے۔ اس تخلیقی فن پارے میں عربی خطاطی میں درج حروف ایک مستقبلی ڈیزائن میں ضم ہو رہے ہیں۔
تصویر: Kamran Jebreili/AP/dpa/picture alliance
میوزیم آف اسلامک آرٹ
دوحہ کے میوزیم آف اسلامک آرٹ کو چینی نژاد امریکی معمار آئی ایم پائی نے ڈیزائن کیا ہے۔ یہ جزیرہ نما عرب کے اہم ترین عجائب گھروں میں سے ایک ہے۔ سادہ لیکن خوبصورت عمارت، جو پانی پر تیرتی دکھائی دیتی ہے۔ یہاں اسلامی فن، قیمتی مسودے، سیرامکس، زیورات، ٹیکسٹائل اور بہت کچھ نمائش کے لیے پیش کیا جاتا ہے۔
تصویر: Norbert SCHMIDT/picture alliance
صحرا کی سیر
ملک کا زیادہ تر حصہ صحرائی مناظر پر مشتمل ہے۔ ڈیزرٹ سفاری کے لیے ریت کے ٹیلوں پر بہت سے سیاح اونٹ کی سواری یا جیپ کی سیر کا انتخاب کرتے ہیں۔ صحرا میں ایسے خاص خیمے بھی موجود ہیں، جہاں سیاح شب بسر کر سکتے ہیں۔
دوحہ میں سیر کے لیے صحرا سمیت طویل ساحلی پٹی موجود ہے۔ کٹارا بیچ کے نام سے یہاں ایک عوامی ساحل بھی ہے مگر یہاں نہانے کی اجازت صرف اس صورت میں ہے جب آپ نے مذہبی اعتبار سے مناسب لباس زیب تن کیے ہوں۔ اس کا مطلب ہے کہ خواتین کے لیے کوئی بکنی یا ون پیس باتھنگ سوٹ نہیں۔ آپ یہاں روایتی کشتیوں میں سوار ہو کر یا کارنیشے پر چہل قدمی کر کے سمندر سے لطف اندوز ہو سکتے ہیں۔
تصویر: Serdar Bitmez/AA/picture alliance
11 تصاویر1 | 11
سيمی فائنل تو کافی آگے کی بات ہے، کواٹر فائنل کے ليے بھی يورپ اور جنوبی امريکا کے بر اعظموں سے باہر کی ٹيميں شاذ و نادر ہی کواليفائی کر پاتی ہيں۔ اس بار مراکش کو يہ اعزاز حاصل ہوا۔ 2014ء ميں کوسٹا ريکا کی ٹيم کواٹر فائنل تک پہنچی تھی، جب انہيں پينلٹی ککس پر ہالينڈ کے ہاتھوں شکست کا منہ ديکھنا پڑ گيا تھا۔ سن 2010 ميں گھانا کی ٹيم بھی کواٹر فائنل تک پہنچی تھی۔ سن 2002 ميں سينيگال اور 1990ء ميں کيمرون بھی کواٹر فائنل تک پہنچ چکے ہيں۔
مراکش کی کاميابيوں کے سلسلے کی ايک وجہ يہ بھی ہے کہ اس بار ٹيموں کو چھبيس کھلاڑيوں پر مشتمل وفد ساتھ لانے کی اجازت ہے۔ کورونا کی وبا کے تناظر ميں اٹھايا گيا يہ قدم کئی مبصرين کے ليے مراکش کے ليے مثبت ثابت ہو رہا ہے کيونکہ کوچ کے پاس کھلاڑی چننے کے ليے زيادہ متبادل کھلاڑی ہيں۔
کیا قطر میں اسرائیلیوں کو سرد رویے کا سامنا ہے؟
02:17
ورلڈ کپ کے بقيہ ميچز
ورلڈ کپ ميں اب پہلا سيمی فائنل ميچ آئندہ ہفتے منگل تيرہ دسمبر کو ارجنٹائن اور کروشيا کی ٹيموں کے مابين کھيلا جائے گا۔ دوسرا سيمی فائنل چودہ دسمبر بدھ کے دن فرانس اور مراکش کی ٹيموں کے درميان ہو گا۔ پھر تيسری پوزيشن کے ليے ميچ سيمی فائنل ہارنے والی دو ٹيموں کے درميان ہفتہ سترہ دسمبر کو کھيلا جانا ہے جبکہ فائنل ميچ اتوار اٹھارہ دسمبر کو کھيلا جانا ہے۔