تارکين وطن کے ليے يورپ کے ديہی علاقوں ميں بے پناہ مواقع
18 اپریل 2018
يورپی يونيورسٹی انسٹيٹيوٹ کی ايک تازہ تحقيق کے مطابق يورپ بھر کے ديہی علاقوں سے مقامی لوگ شہروں کی طرف منتقل ہو رہے ہيں اور ايسے ميں ان مقابلتاً کم آبادی والے علاقوں ميں مہاجرين کے ليے بے پناہ مواقع موجود ہيں۔
اشتہار
ايک طرف مشرق وسطیٰ، افريقہ اور ايشيا سے مہاجرين کی يورپ کی طرف ہجرت کا سلسلہ جاری ہے، تو دوسری جانب يورپ کے ديہی علاقوں سے بڑی تعداد ميں مقامی باشندے شہروں کی طرف نقل مکانی کر رہے ہيں۔ اس سے ایسے ديہی علاقوں کی مجموعی آبادی تو کم ہو ہی رہی ہے ليکن ساتھ ساتھ وہاں معاشی سرگرميوں کے ليے افرادی قوت بھی کم پڑتی جا رہی ہے۔
یورپی يونيورسٹی سے وابستہ ايک محققہ مِشیل نوری کے مطابق يورپ کے ديہی علاقوں ميں مہاجرين کے انضمام کے بہترين مواقع موجود ہيں۔ اس بارے ميں نوری کے مطالعاتی جائزے کے نتائج آبادی سے متعلقہ امور کی ويب سائٹ ’نيو ڈوموس‘ پر حال ہی ميں شائع ہوئے۔ اپنے اس مطالعے ميں نوری نے ديہی علاقوں ميں گھٹتی ہوئی آبادی اور زرعی شعبے ميں غير ملکی مزدوروں کی زیادہ ہوتی ہوئی تعداد کا جائزہ ليا۔
مِشيل نوری کے مطابق زرعی شعبے ميں متعارف کرائی گئی تبديليوں کے نتيجے ميں بہت سے یورپی علاقے نماياں ہو کر سامنے آئے ہیں اور ساتھ ہی ان علاقوں ميں پايا جانے والا سماجی عدم توازن بھی۔ سماجی اور اقتصادی محرکات کے جائزے سے واضح ہوتا ہے کہ ديہی علاقوں ميں رہائش پذير افراد کی تنخواہيں، شہری علاقوں کے باشندوں کے مقابلے ميں اوسطاً چاليس فيصد کم ہيں۔
اس کے علاوہ ديہی علاقوں ميں بنيادی ڈھانچے بھی کمزور ہوتے ہيں اور وہاں دستياب سہوليات کا معيار اور تنوع بھی محدود ہوتے ہيں۔ علاوہ ازيں ايسے علاقوں ميں سماجی اور پيشہ ورانہ سطح پر مواقع کا بھی فقدان ہے۔ يورپی يونيورسٹی انسٹيٹيوٹ کی تازہ تحقيق کے مطابق انہی وجوہات کی بنا پر يورپ بھر کے ديہی علاقے اب مقامی نوجوانوں کے ليے زيادہ پر کشش نہيں ہیں۔
نوری کے بقول يورپ ميں مہاجرين کی آمد سے اس صورتحال ميں تبديلی آئی ہے۔ ديہی علاقوں سے مقامی افراد کی نقل مکانی کے سبب وہاں افرادی قوت کی کمی کو مہاجرين کی وہاں منتقلی سے کچھ حد تک مدد ملی ہے۔ رجسرڈ اور غير رجسٹرڈ غير ملکيوں کی ديہی علاقوں ميں منتقلی نوٹ کی گئی ہے۔ وہ وہاں زرعی شعبے ميں افرادی قوت کی کمی کو پورا بھی کر رہے ہيں اور اب مقامی آبادی کا اہم حصہ بھی بنتے جا رہے ہيں۔ نوری نے بتايا کہ بيشتر علاقوں ميں مہاجرين پيداواری مراحل ميں کليدی کردار ادا کر رہے ہيں۔
اس مطالعے کے نتیجے میں يہ بھی کہا گيا ہے کہ ديہی علاقوں ميں انتظامی اور قانونی معاملات ميں بے ضابطگيوں کی گنجائش بھی بہت ہوتی ہے۔ اسی ليے اس سيکٹر ميں ايسے مہاجرين کو ترجيح دی جاتی ہے، جن کا اندراج نہ ہوا ہو کيونکہ یوں ایسے غير ملکیوں کی خدمات سے کم قیمت پر فائدہ اٹھانا مقابلتاً آسان ہو جاتا ہے۔ نوری کے بقول اس سيکٹر ميں کام کرنے والے متعدد غير ملکی ملازمين ملازمتوں کے قانونی معاہدے نہ ہونے، اپنے حقوق کی پامالی، کم اجرتوں اور کئی ديگر طرح کی شکايات کرتے دکھائی دیتے ہيں۔
اطالوی پہاڑوں کی آغوش ميں ايک نئی زندگی کا آغاز
جنوبی اٹلی ميں اسپرومونٹے پہاڑی سلسلے کی آغوش ميں ايک چھوٹا سا گاؤں جو کبھی تاريکی اور خاموشی کا مرکز تھا، آج نوجوانوں کے قہقہوں سے گونج رہا ہے۔ سانت آليسيو ميں اس رونق کا سبب پناہ گزين ہيں۔
تصویر: Getty Images/AFP/A. Solaro
گمنامی کی طرف بڑھتا ہوا ايک انجان گاؤں
کچھ برس قبل تک سانت آليسيو کی کُل آبادی 330 افراد پر مشتمل تھی۔ ان ميں بھی اکثريت بوڑھے افراد کی تھی۔ چھوٹے چھوٹے بلاکوں کی مدد سے بنی ہوئی تنگ گلياں اکثر وبيشتر خالی دکھائی ديتی تھيں اور مکانات بھی خستہ حال ہوتے جا رہے تھے۔ گاؤں کے زيادہ تر لوگ ملازمت کے بہتر مواقع کی تلاش ميں آس پاس کے بڑے شہر منتقل ہو گئے تھے۔
تصویر: Getty Images/AFP/A. Solaro
نئے مہمان، نئی رونقيں
سن 2014 ميں سانت آليسيو کی کونسل نے قومی سطح کے ’پروٹيکشن سسٹم فار ازائلم سيکرز اينڈ ريفيوجيز‘ (SPRAR) نامی نيٹ ورک کے تحت مہاجرين کو خالی مکانات کرائے پر دينا شروع کيے۔ آٹھ مکانات کو قريب پينتيس مہاجرين کو ديا گيا اور صرف يہ ہی نہيں بلکہ ان کے ليے زبان کی تربيت، سماجی انضام کے ليے سرگرميوں، کھانے پکانے اور ڈانس کلاسز کا انتظام بھی کيا گيا۔
تصویر: Getty Images/AFP/A. Solaro
ايک منفرد منصوبہ
يہ ايک خصوصی منصوبہ ہے، جس کے تحت ان افراد کو پناہ دی جا رہی ہے، جو انتہائی نازک حالات سے درچار ہيں۔ ان ميں ماضی میں جسم فروشی کی شکار بننے والی عورتيں، ايچ آئی وی وائرس کے مريض، ذيابيطس کے مرض ميں مبتلا افراد اور چند ايسے لوگ بھی شامل ہيں جنہوں نے اپنے آبائی ملکوں ميں جنگ و جدل کے دوران کوئی گہرا صدمہ برداشت کیا ہے یا زخمی ہیں۔
تصویر: Getty Images/AFP/A. Solaro
ميئر اسٹيفانو کالابرو بھی خوش، لوگ بھی خوش
سانتا ليسيو کے ميئر اسٹيفانو کالابرو کا کہنا ہے کہ ان کا مشن رحم دلی پر مبنی ہے اور انسانی بنيادوں پر مدد کے ليے ہے ليکن اس کے ساتھ ساتھ اس کے معاشی فوائد بھی ہيں۔
تصویر: Getty Images/AFP/A. Solaro
دو طرفہ فوائد
رياست کی طرف سے ہر مہاجر کے ليے يوميہ پينتاليس يورو ديے جاتے ہيں۔ يہ رقم انہیں سہوليات فراہم کرنے پر صرف کی جاتی ہے۔ اس منصوبے کی وجہ سے سانت آليسيو ميں سولہ لوگوں کو ملازمت مل گئی ہے، جن ميں سات افراد مقامی ہيں۔ سروسز کی فراہمی کے ليے ملنے والی رقوم کی مدد سے گاؤں کا جم ( ورزش کا کلب) واپس کھول ديا گيا ہے اور اس کے علاوہ ايک چھوٹی سپر مارکيٹ اور ديگر چھوٹے چھوٹے کاروبار بھی بندش سے بچ گئے ہيں۔
تصویر: Getty Images/AFP/A. Solaro
سانت آليسيو کے ليے نئی اميد
مقامی افراد اس پيش رفت سے خوش دکھائی ديتے ہيں۔ نواسی سالہ انتوونيو ساکا کہتے ہيں کہ وہ اپنے نئے پڑوسيوں سے مطمئن ہيں۔ ساکا کے بقول وہ اپنی زندگياں خاموشی سے گزارتے ہيں ليکن ديگر افراد کے ساتھ ان کا برتاؤ اچھا ہے اور کام کاج ميں بھی لوگوں کا ہاتھ بٹاتے ہيں۔ سيليسٹينا بوريلو کہتی ہيں کہ گاؤں خالی ہو رہا تھا اور عنقريب مکمل طور پر خالی ہو جاتا، مگر مہاجرين نے اسے دوبارہ آباد کر ديا ہے۔