تارکینِ وطن کو سمندر سے ہی افریقی ممالک لوٹا دیا جائے: جرمنی
صائمہ حیدر
3 دسمبر 2016
جرمن ذرائع ابلاغ کے مطابق حکومت چاہتی ہے کہ بحیرہء روم کے راستے یورپ کا قصد کرنے والے تارکینِ وطن کو ہلاکتوں سے بچانے کے لیے سمندری سفر اختیار کرنے پر اِن کی حوصلہ شکنی کی جائے۔
اشتہار
جرمن اخبار ’دئیر شپیگل‘ نے آج بروز ہفتہ مورخہ تین دسمبر کو ایک رپورٹ میں لکھا ہے کہ جرمن وزارتِ داخلہ چاہتی ہے کہ بحیرہء روم عبور کر کے یورپ پہنچنے کا ارادہ رکھنے والے مہاجرین کو سمندر میں پیش آنے والے کسی بھی حادثے میں امدادی کارروائیوں کے بعد براہِ راست افریقی ممالک واپس بھیج دیا جائے۔
اخبار لکھتا ہے کہ اس مقصد کے لیے تیونس میں ایک استقبالیہ مرکز قائم کیا جا سکتا ہے جہاں امکان ہے کہ مہاجرین جرمنی یا دیگر یورپی یونین کے ممالک میں پناہ کے لیے درخواست دائر کر سکیں گے۔ جرمن وزارتِ داخلہ فی الحال اِس منصوبے پر عمل درآمد کے لیے اٹلی اور یورپی یونین کمیشن سے بات چیت کر رہی ہے۔
'دئیر شپیگل‘ نے مزید لکھا ہے کہ جرمن حکومت کو خدشہ ہے کہ سن دو ہزار سترہ میں جو جرمنی میں انتخابات کا سال ہے، تارکین وطن کی نئی لہر جرمنی کا رخ کر سکتی ہے۔ یاد رہے کہ امسال سمندر عبور کر کے اٹلی پہنچنے والے تارکینِ وطن کی تعداد ماضی سے کہیں زیادہ ہے۔
اٹلی میں حکام کا کہنا ہے کہ رواں برس سمندر کے راستے اٹلی پہنچنے والے تارکینِ وطن کی تعداد میں ریکارڈ اضافہ ہوا ہے جبکہ سن 2016 ختم ہونے میں ایک ماہ ابھی باقی ہے۔ اِس سال بحیرہء روم عبور کر کے اٹلی پہنچنے والے مہاجرین کی تعداد ایک لاکھ اکہتر ہزار بتائی گئی ہے جبکہ سن دو ہزار چودہ کے سابقہ سالانہ ریکارڈ کے مطابق یہ تعداد ایک لاکھ ستر ہزار ایک سو تھی۔
عالمی تنظیم برائے مہاجرت اور مہاجرین کے لیے اقوامِ متحدہ کے ادارے کے اعداد و شمار کے مطابق رواں برس بحیرہء روم میں ڈوب کر ہلاک ہونے یا لاپتہ ہونے والے افراد کی تعداد 4690 ہے۔
عجیب احتجاج، کیک منہ پر دے مارا
جرمن شہر ماگدے برگ میں ایک شخص نے مہاجرین کے بحران پر مؤقف کے باعث جرمن اپوزیشن پارٹی ’دی لنکے‘ کی پارلیمانی لیڈر زارا واگن کنیشٹ کے منہ پر کیک دے مارا۔ عوامی اور سیاسی حلقوں میں اس واقعے کی سخت مذمت کی جا رہی ہے۔
تصویر: picture-alliance/dpa/H. Schmidt
اختلاف کا یہ کیا طریقہ ہوا؟
ہفتے کے دن بائیں بازو کی سیاسی جماعت کی پارلیمانی لیڈر زارا واگن کنیشٹ اپنی نششت پر براجمان تھیں کہ اچانک ایک شخص نے احتجاج کے طور پر ان کے منہ پر کیک دے مارا۔
تصویر: picture-alliance/dpa/H. Schmidt
اچانک حملہ
جرمن شہر ماگدے برگ میں لنکے پارٹی کی ایک کانفرنس میں زارا کو جب اس طرح تشدد کا نشانہ بنایا گیا تو نہ صرف وہ بلکہ اس کانفرنس میں شریک دیگر شرکاء بھی پریشان ہو گئے۔
تصویر: picture-alliance/dpa/H. Schmidt
’تمام مہاجرین نہیں‘
لنکے پارٹی کی رہنما زارا واگن کنیشٹ کا مؤقف ہے کہ جرمنی پہنچنے والے تمام مہاجرین کو پناہ نہیں دی جا سکتی ہے۔ ان کے اس مؤقف کو پہلے بھی تنقید کا نشانہ بنایا جا چکا ہے۔
تصویر: picture-alliance/dpa/H. Schmidt
حملہ بھی بائیں بازو والوں نے کیا
بائیں بازو کے نظریات سے تعلق رکھنے والے ایک گروہ نے زارا کو براؤن چاکلیٹ کیک سے اس طرح نشانہ بنانے کی ذمہ داری قبول کر لی ہے۔ حملہ آور نے خود کو پارٹی کانفرنس میں شرکت کے لیے رجسٹر کرایا تھا۔
تصویر: picture-alliance/dpa/H. Schmidt
’اے ایف ڈی جیسا انداز‘
حملے کی ذمہ داری قبول کرنے والے بائیں بازو کے اس گروہ کے مطابق زارا کے خیالات انتہائی سخت گیر مؤقف کی پارٹی اے ایف ڈی کی دائیں بازو کی رہنما بیاٹرکس فان سٹورش سے ملتے ہیں۔
تصویر: picture-alliance/dpa/H. Schmidt
پارٹی کے دیگر ارکان محو حیرت
جب زارا واگن کنیشٹ کے منہ پر کیک مارا گیا تو ان کی پارٹی کے کئی ارکان ان کے گرد جمع ہو گئے۔ کئی نے تو ان کا کیک سے بھرا چہرہ چھپانے کی خاطر اپنی جیکٹیں بھی استعمال کیں۔
تصویر: picture-alliance/dpa/H. Schmidt
کوشش رائیگاں گئی
بعد ازاں لنکے پارٹی کے متعدد ارکان نے زارا واگن کنیشٹ کو کانفرنس ہال سے باہر لے جانے میں مدد بھی کی۔ اس دوران بھی ان کی کوشش تھی کہ اس خاتون سیاستدان کی تصاویر نہ بنائی جا سکیں۔
تصویر: picture-alliance/dpa/H. Schmidt
اپنی پارٹی میں بھی تنقید کا سامنا
زارا واگن کنیشٹ سیاستدان ہونے کے علاوہ ایک انتہائی پرجوش مقررہ بھی ہیں۔ اس واقعے سے قبل بھی انہیں مہاجرین پر اپنے مؤقف کی بنا پر اپنی ہی پارٹی کے اندر بھی تنقید کا نشانہ بنایا جا چکا ہے۔