تارکین وطن ابھی تک یورپی باشندوں میں تشویش کی بڑی وجہ: سروے
7 اگست 2019
یورپی یونین کے رکن ممالک کے باشندوں میں ماحولیاتی تبدیلیوں کی وجہ سے پریشانی کے مقابلے میں ابھی تک تارکین وطن کے باعث کہیں زیادہ تشویش پائی جاتی ہے۔ یہ بات یورپی کمیشن کے ایک تازہ عوامی سروے کے نتیجے میں سامنے آئی ہے۔
اشتہار
یورپی کمیشن کی طرف سے ہر ششماہی کے بعد کرائے جانے والے 'یورو بیرومیٹر‘ نامی تازہ ترین عوامی سروے کے نتائج کے مطابق یونین کی رکن ریاستوں میں گزشتہ چند برسوں سے لاکھوں تارکین وطن کی زمینی اور سمندری راستوں سے آمد کا جو سلسلہ جاری ہے، وہ آج بھی یورپی عوام کے لیے تشویش کی سب سے بڑی وجہ ہے۔
برسلز میں یورپی کمیشن کی طرف سے بدھ سات اگست کو بتایا گیا کہ اگرچہ اس بلاک کے رکن ممالک میں ماحولیاتی تبدیلیوں کے بارے میں پائے جانے والے عمومی شعور میں اضافہ ہوا ہے اور لوگ اب بہت سنجیدگی سے تحفظ ماحول کے بارے میں سوچنے لگے ہیں، تاہم تارکین وطن کی آمد کے نتیجے میں یورپی معاشروں پر پڑنے والے سماجی اور اقتصادی اثرات پر پائی جانے والی عوامی تشویش اب بھی کہیں زیادہ ہے۔
اس سروے میں 34 فیصد رائے دہندگان نے کہا کہ ان کے لیے تارکین وطن کی آمد ابھی تک یونین کا سب سے بڑا مسئلہ ہے۔ یہ شرح اگرچہ گزشتہ سال کی دوسری ششماہی کے مقابلے میں چھ فیصد کم ہے تاہم ماہرین اسے پھر بھی کافی زیادہ قرار دے رہے ہیں۔ اس کے علاوہ یہ بات بھی اہم ہے کہ یونین کی رکن 28 میں سے 21 ریاستوں میں تارکین وطن کی آمد کے مسئلے کو ہی عوام نے اپنے لیے اہم ترین موضوع قرار دیا۔
تارکین وطن کی آمد ہی سب سے پریشان کن موضوع
ان 21 ممالک میں سے مالٹا، چیک جمہوریہ، ایسٹونیا، سلووینیہ اور ہالینڈ وہ ممالک تھے، جہاں تارکین وطن کی آمد کو رائے دہندگان نے اپنے لیے سب سے زیادہ مشکلات کا سبب بننے والا موضوع ٹھہرایا۔ اہم بات یہ ہے کہ جرمنی، جس نے اب تک سب سے زیادہ تعداد میں غیر ملکی مہاجرین اور تارکین وطن کو اپنے ہاں پناہ دی ہے، وہاں اس موضوع کو بہت اہم اور باعث تشویش قرار تو دیا گیا تاہم اس کی شدت اتنی زیادہ نہیں تھی، جتنی چیک جمہوریہ اور ہالینڈ جیسے ممالک میں عوام نے بتائی۔
اسی سروے کے نتیجے میں ایک اور تبدیلی یہ بھی دیکھنے میں آئی کہ پہلی مرتبہ ماحولیاتی تبدیلیوں کا موضوع یورپی باشندوں کے لیے اپنی اہمیت کے اعتبار سے دوسرے نمبر پر آ گیا۔ مجموعی طور پر 22 فیصد رائے دہندگان نے کہا کہ ان کے لیے ماحولیاتی تباہی کی وجہ سے ہونے والے نقصانات سب سے زیادہ تشویش کا باعث بنتے ہیں۔
جن ممالک میں یورپی عوام نے ماحولیاتی تبدیلیوں پر اپنی شدید ترین تشویش اور تحفظات کا اظہار کیا، ان میں ڈنماک سب سے آگے تھا۔ اس فہرست میں ڈنمارک کے بعد دوسرے اور تیسرے نمبر پر اسکینڈے نیویا ہی کے ممالک سویڈن اور فن لینڈ رہے۔ مجموعی طور پر یورپ میں تحفظ ماحول کے حوالے سے پائی جانے والی سوچ سب سے زیادہ اسکینڈے نیویا کے خطے ہی میں دیکھنے میں آئی۔
چیز ونٹر (م م / ع ت)
یورپ میں مہاجرین کا بحران کیسے شروع ہوا؟
مشرق وسطیٰ اور افریقہ کے کئی ممالک میں بڑھتی ہوئی شورش مہاجرت کے عالمی بحران کا سبب بنی ہے۔ اس تناظر میں یورپ بھی متاثر ہوا ہے۔ آئیے تصویری شکل میں دیکھتے ہیں کہ اس بحران سے نمٹنے کی خاطر یورپ نے کیا پالیسی اختیار کی۔
تصویر: picture-alliance/PIXSELL
جنگ اور غربت سے فرار
سن دو ہزار چودہ میں شامی بحران کے چوتھے سال میں داخل ہوتے ہی جہاں اس عرب ملک میں تباہی عروج پر پہنچی وہاں دوسری طرف انتہا پسند گروہ داعش نے ملک کے شمالی علاقوں پر اپنا قبضہ جما لیا۔ یوں شام سے مہاجرت کا سلسلہ تیز تر ہو گیا۔ اس کے ساتھ ہی دیگر کئی ممالک اور خطوں میں بھی تنازعات اور غربت نے لوگوں کو ہجرت پر مجبور کر دیا۔ ان ممالک میں عراق، افغانستان، ارتریا، صومالیہ، نائجر اور کوسووو نمایاں رہے۔
تصویر: picture-alliance/dpa
پناہ کی تلاش
شامی باشندوں کی ایک بڑی تعداد سن دو ہزار گیارہ سے ہی جنگ و جدل سے چھٹکارہ پانے کی خاطر ہمسائے ممالک ترکی، لبنان اور اردن کا رخ کرنے لگی تھی۔ لیکن سن دو ہزار پندرہ میں یہ بحران زیادہ شدید ہو گیا۔ ان ممالک میں شامی مہاجرین اپنے لیے روزگار اور بچوں کے لیے تعلیم کے کم مواقع کی وجہ سے آگے دیگر ممالک کی طرف ہجرت کرنے لگے۔ تب مہاجرین نے یورپ کا رخ کرنا بھی شروع کر دیا۔
تصویر: picture-alliance/dpa
طویل مسافت لیکن پیدل ہی
سن دو ہزار پندرہ میں 1.5 ملین شامی مہاجرین نے بلقان کے مختلف رستوں سے پیدل ہی یونان سے مغربی یورپ کی طرف سفر کیا۔ مہاجرین کی کوشش تھی کہ وہ یورپ کے مالدار ممالک پہنچ جائیں۔ بڑے پیمانے پر مہاجرین کی آمد کے سبب یورپی یونین میں بغیر ویزے کے سفر کرنے والا شینگن معاہدہ بھی وجہ بحث بن گیا۔ کئی ممالک نے اپنی قومی سرحدوں کی نگرانی بھی شروع کر دی تاکہ غیر قانونی مہاجرین کو ملک میں داخل ہونے سے روکا جا سکے۔
تصویر: Getty Images/M. Cardy
سمندرعبور کرنے کی کوشش
افریقی ممالک سے یورپ پہنچنے کے خواہمشند پناہ کے متلاشی نے بحیرہ روم کو عبور کرکے اٹلی پہنچنے کی کوشش بھی جاری رکھی۔ اس دوران گنجائش سے زیادہ افراد کو لیے کئی کشتیاں حادثات کا شکار بھی ہوئیں۔ اپریل سن 2015 میں کشتی کے ایک خونریز ترین حادثے میں آٹھ سو افراد ہلاک گئے۔ یہ کشتی لیبیا سے اٹلی کے لیے روانہ ہوئی تھی۔ رواں برس اس سمندری راستے کو عبور کرنے کی کوشش میں تقریبا چار ہزار مہاجرین غرق سمندر ہوئے۔
تصویر: Reuters/D. Zammit Lupi
یورپی ممالک پر دباؤ
مہاجرین کی آمد کے سلسلے کو روکنے کی خاطر یورپی یونین رکن ممالک کے ہمسایہ ممالک پر دباؤ بڑھتا گیا۔ اس مقصد کے لیے ہنگری، سلووینیہ، مقدونیہ اور آسٹریا نے اپنی قومی سرحدوں پر باڑیں نصب کر دیں۔ پناہ کے حصول کے قوانین میں سختی پیدا کر دی گئی جبکہ شینگن زون کے رکن ممالک نے قومی بارڈرز پر عارضی طور پر چیکنگ کا نظام متعارف کرا دیا۔
تصویر: picture-alliance/epa/B. Mohai
کھلا دروازہ بند ہوتا ہوا
جرمن چانسلر انگیلا میرکل نے مہاجرین کی یورپ آمد کے لیے فراخدلانہ پالیسی اپنائی۔ تاہم ان کے سیاسی مخالفین کا دعویٰ ہے کہ میرکل کی اسی پالیسی کے باعث مہاجرین کا بحران زیادہ شدید ہوا، کیونکہ یوں زیادہ سے زیادہ لوگوں کو تحریک ملی کہ وہ یورپ کا رخ کریں۔ ستمبر سن دو ہزار سولہ میں بالاخر جرمنی نے بھی آسٹریا کی سرحد پر عارضی طور پر سکیورٹی چیکنگ شروع کر دی۔
تصویر: Reuters/F. Bensch
ترکی کے ساتھ ڈیل
سن دو ہزار سولہ کے اوائل میں یورپی یونین اور ترکی کے مابین ایک ڈیل طے پائی، جس کا مقصد ترکی میں موجود شامی مہاجرین کی یورپ آمد کو روکنا تھا۔ اس ڈیل میں یہ بھی طے پایا کہ یونان پہنچنے والے مہاجرین کو واپس ترکی روانہ کیا جائے گا۔ تاہم انسانی حقوق کی تنظیموں نے اس ڈیل کو سخت تنقید کا نشانہ بنایا۔ کہا جاتا ہے کہ اس ڈیل کی وجہ سے یورپ آنے والے مہاجرین کی تعداد میں واضح کمی ہوئی ہے۔
تصویر: Getty Images/AFP/A. Altan
مہاجرین کا نہ ختم ہونے والا بحران
مہاجرین کے بحران کی وجہ سے یورپ میں مہاجرت مخالف جذبات میں اضافہ ہوا ہے۔ یورپی ممالک ابھی تک اس بحران کے حل کی خاطر کسی لائحہ عمل پر متفق نہیں ہو سکے ہیں۔ رکن ممالک میں مہاجرین کی منصفانہ تقسیم کا کوٹہ سسٹم بھی عملی طور پرغیرمؤثر ہو چکا ہے۔ مشرق وسطیٰ اور دیگر کئی ممالک میں بدامنی کا خاتمہ ابھی تک ختم ہوتا نظر نہیں آتا جبکہ مہاجرت کا سفر اختیار کرنے والے افراد کی اموات بھی بڑھتی جا رہی ہیں۔